Al-Qurtubi - Al-An'aam : 105
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں کیلئے تشریح کردیں۔
آیت نمبر 105 قولہ تعالیٰ آیت : وکذلک نصرف الایٰت، کذلک میں کاف محل نصب میں ہے۔ یعنی نصرف الآیات مثل ما تلونا علیک ( یعنی ہم دلائل طرح طرح سیب یان کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے آپ پر انہیں تلاوت فرمایا ہے) یعنی جیسا کہ ہم نے اس سورت میں وعدہ، وعید، وعظ اور تبیہ کے بارے مختلف دلائل بیان کیے ہیں اسی طرح ہم انہیں دوسری سورتوں میں بھی بیان کریں گے۔ آیت : ولیقولوا درست اس میں واؤ فعل مضمر پر عطف کے لیے ہے تقدیر کلام یہ ہے : ای نصرف الآیات لتقوم الحجۃ ولیقولوا درست ( ہم دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ حجت قائم ہوجائے اور تاکہ بول اٹھیں یہ لوگ کہ آپ نے خوب پڑھ سنایا ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے : آیت : ولیقولوا درست، صرفنا ھا ( تاکہ وہ کہہ انھیں کہ آپ نے خوب پڑھ سنایا ہے ہم نے انہیں بیان کی) تو اس صورت میں لام صیرورت کے لیے ہوگا۔ اور زجاج نے کہا ہے : یہ اسی طرح ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں : کتب فلان ھذا الکتاب لحتفہ ( فلاں نے یہ تحریر اپنی موت کے وقت لکھی) یعنی اس کا حکم اس کی طرف لوٹ آیا۔ اور اسی طرح جب دلائل بیان کردیئے گئے تو ان کا امر اس طرف لوٹ آیا کہ وہ کہیں : آپ نے خود پڑھ سنایا ہے اور آپ نے جبر ویسا سے خوب سیکھا ہے، اور یہ دونوں مکہ مکرمہ میں نصرانی غلام تھے، تو اہل مکہ نے کہا : بلاشبہ یہ ان دونوں سے پڑھتے ہیں ( تعلیم کرتے ہیں) ۔ نحاس نے کہا ہے : اس معنی میں دوسرا قول اچھا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ نصرف الایت کا معنی ہو کہ ہم اس کے بارے یکے بعد دیگرے دلائل بیان کرتے ہیں تاکہ وہ کہہ اٹھیں : آپ نے ہمیں خوب پڑھ سنایا ہے۔ ناتی بھا آیۃ بعد آیۃ لیقولوا درست علینا پس وہ اول کو آخر کے ساتھ ملا کر ذکر کرتے ہیں اور یہی حقیقت ہے اور جو کچھ ابو اسحاق نے بیان کیا ہے وہ مجاز ہے۔ اور درست میں سات قراتیں ہیں۔ ابو عمرو اور ابن کثیر نے دارست دال اور را کے درمیان الف کے ساتھ قرأت کی جیسا کہ فاعلت اور یہ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت سعیدبن جبیر، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ ؓ اور اہل مکہ کہ قرأت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : دارست کا معنی ہے تالیت ( آپ نے خوب موافقت اور تابعداری کی ہے، پڑھ کر سنانے میں ) ۔ ان عامر نے درست پڑھا ہے یعنی سین کے فتحہ اور تا کے سکون کے ساتھ بغیر الف کے جیسا کہ خرجت۔ اور یہ حسن کی قرأت ہے اور باقیوں نے درست پڑھا ہے، جیسا کہ خرجت۔ پس پہلی قرأت کے مطابق معنی ہوگا : دارست اھل الکتاب ودارسوک یعنی آپ نے ان (اہل کتاب) کے ساتھ گفتگو کی ہے اور انہوں نے آپ کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے یہی کہا ہے اور اس معنی پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو ان کے بارے خبر دیتے ہو ہے فرمایا : آیت : واعانہ علیہ قوم اخرون ( الفرقان : 4) یعنی یہودوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرآن پر معاونت کی اور انہوں نے اس بارے میں آپ سے مذاکرات کیے اور یہ سب مشرکین کا قول ہے اور اس کی مثال ان کا یہ قول ہے : آیت : وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تبلی علیہ بکرۃ واصیلا ( الفرقان) ( اور کفار نے کہا : یہ تو افسانے ہیں پہلے لوگوں کے اس شخص نے لکھوا لیا ہے انہیں، پھر یہ پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اسے ہر صبح وشام ( تاکہ ازبر ہوجائیں) آیت : واذا قیل لھم ما ذا انزل ربکم قالوا اساطیر الاولین (النحل) ( اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا نازل فرمایا ہے تمہارے پروردگار نے ؟ کہتے ہیں : (کچھ نہیں) یہ تو پہلے لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے دارستنا، تو پھر اس کا معنی درست کے معنی کی طرح ہوجائے گا، نحاس نے اسے ذکر کیا ہے اور اسے ہی پسند کیا ہے، اور پہلا معنی مکی نے ذکر کیا ہے۔ اور نحاس نے گمان کیا ہے کہ وہ مجاز ہے، جیسا کہ کسی نے یہ کہا ہے : فللموت ماتلد الوالدہ اور جنہوں نے درست پڑھا ہے تو اس قرآت میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں اچھا یہ ہے کہ معنی یہ ہو : ولئلا یقولوا انقطعت وامحت ( تاکہ وہ کہہ اٹھیں : کٹ گیا اور مٹ گیا، اور محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں لائیں گے (اعراب القرآن للنحاس، جلد 2، صفحہ 89) اور قتادہ نے درست پڑھا ہے بمعنی قرئت ( پڑھا گیا) : سفیان ابن عیینہ نے عمرو بن عبید سے اور انہوں نے حسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے دارست پڑھا ہے۔ اور ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ قرأت جائز نہیں۔ انہوں نے کہا : کیونکہ آیات تکرار اور مذاکرہ نہیں کرتیں۔ اور دوسروں نے کہا ہے : اس طرح قرأت جائز ہے، اور معنی وہ نہیں ہے جو ابو حاتم نے بیان کیا اگرچہ اس کا ذکر پہلے نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ ارشاد ہے : آیت : حتی توارت بالحجاب (ص) ( پھر انہیں چلانے کا حکم دیا) یہاں اور ابو العباس نے بیان کیا ہے کہ آیت : ولیقولوا درست امر کی بنا پر لام کو ساکن پڑھا گیا ہے اور اس میں تہدید (جھڑک) کا معنی ہے۔ یعنی چاہیے کہ وہ جو چاہیں کہیں کیونکہ حق تو بین اور واضح، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : فلیضحکوا قلیلاولیبکوا کثیرا ( توبہ : 82) (تو انہیں چاہیے کہ ہنسیں تھوڑا اور رویں زیادہ) ۔ اور جنہوں نے لام کو کسرہ دیا ہے ان کے نزدیک یہ لام کی ہے۔ ان تمام قرأتوں کا اشتقاق تو ایک شی کی طرف ہی راجع ہے، یعنی تلیین اور تذلیل کی طرف۔ اور درست، درس یدرس دراسۃ سے ہے، اور اس کا معنی ہے کسی غیر پر پڑھنا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : درستہ یعنی ذللتہ بکثرۃ القرأۃ ( میں نے اسے کثرت قرأت کے سبب پامال کردیا) اور اس کی اصل درس الطعام ہے یعنی گندم گہنا۔ اور دیا اس کا معنی لغت شام کے مطابق دراس ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی اصل درست الثوب أدرسہ درسا سے ہے یعنی میں نے کپڑے کو پرانا کردیا۔ اور درس الثوب درسا کا معنی ہے أخلق یعنی کپڑا پرانا ہوگیا۔ اور یہ معنی بھی تذلیل کی طرف ہی لوٹتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : حضرت ادریس (علیہ السلام) کو کتاب اللہ کثرت کے ساتھ پڑھنے کی وجہ سے ادریس کا نام دیا گیا۔ اور دارست الکتب وتدارس تھا اور ادارس تھا یہ سب درس تھا کے معنی میں ہیں۔ اور درست الکتاب درساء دراسۃ ( میں نے کتاب خوب اچھی طرح پڑھی) اور درست المرأۃ درسا ای حاضت ( عورت حائضہ ہوگئی) اور کہا جاتا ہے کہ عورت کی شرمگاہ کو کنایۃ ابا ادراس کہا جاتا ہے۔ اور یہ بمعنی حیض ہے۔ اور الدرس خفیہ راستے کو بھی کہا جاتا ہے۔ اور اصمعی نے بیان کیا ہے : بعیرلم یدرس یعنی اونٹ پر سوار نہیں ہوا گیا، اور درست، درس المنزل سے ماخوذ ہے جب منزل کان نشان مٹ جائے۔ اور حضرت ابن مسعود اور آپ کے اصحاب نے، حضرت ابی، حضرت طلحہ، حضرت اعمش نے ولیقولا درس قرأت کی ہے۔ یعنی درس محمد الآیات ( حضرت محمد ﷺ نے آیات پڑھیں) ولنبینہ یعنی تاکہ ہم قول اور تصریف کو واضح کردیں، یا تاکہ ہم قرآن کو واضح کردیں۔ آیت : لقوم یعلمون اس قوم کے لیے جو علم رکھتی ہے۔
Top