Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 1
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَالُوْا : انہوں نے کہا سُبْحَا نَکَ : آپ پاک ہیں لَا عِلْمَ لَنَا : ہمیں کوئی علم نہیں اِلَّا : مگر مَا : جو عَلَّمْتَنَا : آپ نے ہمیں سکھادیا اِنَّکَ اَنْتَ : بیشک آپ الْعَلِیْمُ : جاننے والے الْحَكِیْمُ : حکمت والے
انہوں نے کہا تو پاک ہے جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں، بیشک تو دانا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر 32 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قالوا سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سبحنک تو اس سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی غیب جانے۔ یہ انبئونی کے ارشاد کا جواب ہے۔ فرشتوں نے جواب دیا کہ وہ تو صرف وہی جانتے ہیں جو وہ انہیں سکھاتا ہے اور وہ کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس انہیں علم نہیں جیسا کہ ہم میں سے جہال کہا کرتے ہیں۔ ما علمتنا میں ما بمعنی الذی ہے یعنی وہ جو تو نے ہمیں سکھایا اور یہ بھی جائز ہے کہ مامصدر یہ ہو بمعنی الا تعلیمک ایانا یعنی مگر تیرے سکھانے کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر 2: جس شخص سے کوئی علمی بات پوچھی جائے اور وہ نہ جانتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ فرشتوں، انبیاء، فضلاء علماء کی اقتداء کرتے ہوئے یہ کہے کہ اللہ جانتا ہے میں نہیں جانتا۔۔۔۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ علماء کی موت کے ساتھ علم اٹھا لیا جائے گا، پھر جہال لوگ باقی رہ جائیں گے جن سے فتوے طلب کئے جائیں گے وہ اپنی رائے سے فتوے دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے (1) ۔ نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام اور تابعین سے اس آیت کے معنی میں جو مروی ہے وہ البستی نے “ المسند الصحیح ” میں حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : بری جگہیں کون سی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نہیں جانتا حتیٰ کہ میں جبریل امین (علیہ السلام) سے پوچھ لوں۔ جبریل امین (علیہ السلام) سے آپ ﷺ نے پوچھا تو اس نے کہا : میں نہیں جانتا حتیٰ کہ میں میکائیل (علیہ السلام) سے پوچھ لوں، میکائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا : اچھی جگہیں مساجد ہیں اور بری جگہیں بازار ہیں۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے وادی کو ایک مسئلہ میں کہا تھا تو لوٹ جا حتیٰ کہ میں لوگوں سے پوچھ لوں (2) ۔ حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے : وابردھا علی الکبد۔ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ لوگوں نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کیا ہے ؟ فرمایا : آدمی سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے جو وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہے : اللہ اعلم حضرت ابن عمروؓ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا : مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ جب وہ شخص واپس چلا گیا تو حضرت ابن عمر سے فرمایا : ابن عمر نے ٹھیک کہا ہے ایسی بات پوچھی گئی جس کا اسے علم نہیں تھا تو کہا : مجھے اس کا علم نہیں۔ یہ دارمی نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ صحیح مسلم میں ابی عقیل یحییٰ بن متوکل صاحب “ بہیتہ ” نے کہا : میں قاسم بن عبید اللہ اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ یحییٰ نے قاسم سے کہا : اے ابا محمد ! تیرے جیسے شخص پر بہت بری بات ہے کہ اس دین کا کوئی مسئلہ تجھ سے پوچھا جائے پھر تیرے پاس اس کا علم نہ ہو اور نہ کوئی کشادگی کا راستہ ہو، یا کہا : نہ علم اور نہ نکلنے کا راستہ ہو۔ قاسم نے عقل بخشی ہے اس کے نزدیک اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ انسان بغیر علم کے کوئی بات کرے یا کسی غیر ثقہ سے مسئلہ پوچھے۔ یحییٰ خاموش ہوگیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت مالک بن انس نے فرمایا : میں نے ابن ہرمز کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ عالم کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو لا ادری (میں نہیں جانتا) کی میراث دے تاکہ ان کے ہاتھوں میں اصل ہو۔ جب ان میں سے کسی سے وہ مسئلہ پوچھا جائے گا جو وہ نہیں جانتا ہوگا تو کہے گا : میں نہیں جانتا۔ ہیثم بن جمیل نے ذکر کیا ہے کہ میں امام مالک سے اڑتالیس مسائل پوچھنے کے لئے حاضر ہوا تو امام مالک نے بتیس مسائل میں فرمایا : میں نہیں جانتا۔ میں کہتا ہوں : صحابہ کرام، تابعین اور فقہاء مسلمین سے بہت سی ایسی مثالیں مروی ہیں۔ اس کو اس ریاست کے ترک اور علم میں انصاف نہ کرنے پر محمول کیا جائے گا۔ ابن عبد البر نے کہا : علم کی برکت اور اس کے آداب سے اس میں انصاف کرنا ہے جس نے انصاف نہیں کیا اس نے نہ سمجھا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی۔ یونس بن عبد الاعلیٰ سے مروی ہے، فرمایا : میں نے ابن وہب کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ہمارے زمانہ میں انصاف سے کم کوئی چیز نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صورت امام مالک کے زمانہ میں تھی تو پھر آج ہمارے زمانہ میں کیا حالت ہوگی جبکہ ہمارے اندر فساد پھیل چکا ہے اور کمینے لوگوں کی کثرت ہے اور ریاست کے لئے علم طلب کیا جاتا ہے نہ کہ شعور و آگاہی کے لئے بلکہ دنیا میں ظاہر ہونے اور اس جنگ وجدل کے ذریعے اپنے ہم عصروں پر غلبہ پانے کے لئے حاصل کیا جاتا ہے جو جنگ وجدل دل میں قساوت پیدا کرتا ہے اور کینہ چھوڑتا ہے۔ اس کو عدم تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کا خوف نہ ہونے پر محمول کیا جائے گا۔ کہاں گئی وہ روایت جو حضرت عمر سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا : اپنی عورتوں کے مہر چالیس اوقیہ سے زائد نہ رکھو اگرچہ عورت ذی العصبہ کی بیٹی ہو یعنی یزید بن حصین حارثتی کی بیٹی ہو جو زیادہ رکھے گا زیادتی بیت المال میں رکھی جائے گی۔ ایک عورت اٹھی جو صائب الرائے عورتوں میں سے تھی۔ اس کا منہ لمبا تھا اور ناک چپٹی تھی۔ اس عورت نے کہا : تجھے اس مہر کے تعین کا حق نہیں۔ حضرت عمر نے کہا : کیوں ؟ اس عورت نے کہا : اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتیتم احدھن قنطاراً فلا فاخذوا منہ شیئًا (النساء :20) دے چکے ہو تم اسے ڈھیروں مال تو نہ لو اس مال سے کوئی چیز۔ حضرت عمر نے کہا : عورت صحیح ہے اور مرد نے غلطی کی (1) ۔ وکیع نے ابو معشر سے انہوں نے حضرت محمد بن کعب القرظی سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک شخص نے حضرت علی سے ایک مسئلہ پوچھا۔ حضرت علی نے جواب دیا تو اس شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! مسئلہ اس طرح نہیں ہے بلکہ اس طرح ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : تو نے صحیح کہا اور میں نے غلطی کی ہر علم والے اوپر علم والا ہوتا ہے۔ ابو محمد قاسم بن اصبغ نے ذکر کیا ہے کہ جب میں مشرق کی طرف چلا تو میں قیروان میں اترا اور میں نے بکر بن حماد سے مسدد کی حدیث حاصل کی۔ پھر میں بغداد چلا گیا۔ میں لوگوں سے ملا۔ جب میں واپس آیا تو میں مسدد کی حدیث کی تکمیل کے لئے ان کی طرف لوٹا۔ ایک میں نے ان پر نبی کریم ﷺ کی حدیث پڑھی “ آپ ﷺ کے پاس ایک قوم آئی جس کا تعلق مضر قبیلہ سے تھا انہوں نے دھاری دار قمیص پہنی ہوئی تھیں بکر بن حماد نے کہا : حدیث میں لفظ مجتابی النمار نہیں مجتابی الشمار ہے۔ میں نے کہا : مجتابی النمار ہے۔ میں نے اندلس اور عراق میں جس شخص پر بھی یہ حدیث پڑھی میں نے اسی طرح پڑھی ہے۔ بکر بن حماد نے کہا : تو عراق میں جانے کی وجہ سے ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہم پر فخر کرتا ہے۔ پھر مجھے فرمایا : ہمارے ساتھ اس شیخ کی طرف چلو۔۔۔۔ جو مسجد میں موجود تھے۔۔۔۔ اس کے پاس اس کا علم ہے۔ ہم ان کی طرف چلے۔ ہم نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ھو مجتابی النمار جیسا کہ میں نے کہا تھا۔ یہ لوگ دھاری دار کپڑے پہنتے تھے اور ان کے گریبان سامنے ہوتے تھے۔ النمار جمع ہے نمرۃ کی۔ بکر بن حماد نے اپنا ناک پکڑ لیا اور کہا : حق کے لئے میری ناک خاک آلود ہو، حق کے لئے میری ناک خاک آلود ہو پھر وہ واپس چلے گئے۔ یزید بن ولید بن عبدا لملک نے کتنا اچھا کہا ہے : اذا ما تحدثت فی مجلس تناھی حدیثی الی ما علمت ولم اعد علمی الی غیرہ وکان اذا ما تناھی سکت جب میں کسی مجلس میں بات کرتا ہوں تو میری بات کی انتہا میرے علم تک ہوتی ہے۔ میں اپنے علم کو کسی غیر تک نہیں لے جاتا۔ جب میرے علم کی انتہا ہوتی ہے تو میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سبحنک۔ خلیل اور سیبویہ کے نزدیک سبحان مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ یہ اس معنی کو ادا کرتا ہے : نسبحک تسبیحاً ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں۔ کسائی نے کہا : یہ نداء کی وجہ سے منصوب ہے (1) ۔ العلیم مبالغہ کے لئے اور اللہ کی مخلوق میں معلومات میں کثرت کا معنی دینے کے لئے فعیل کے وزن پر ہے۔ الحکیم اس کا معنی حاکم ہے، ان دونوں اسموں کے درمیان مزید مبالغہ ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی محکم ہے اس صورت میں حکیم فعل کی صفات سے ہوگا، پھر یہ مفعل سے فعیل کے وزن پر پھیرا گیا ہے جیسا کہ مسمع کو سمیع کی طرف اور مؤلم کو الیم کی طرف پھیرا گیا ہے یہ ابن انباری نے کہا ہے۔ ایک قوم نے کہا : الحکیم کا معنی ہے فساد سے روکنے والا۔ اسی سے حکمۃ اللجام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی گھوڑے کو مقصد کے بغیر بھاگنے اور چلنے سے روکتی ہے۔ جریر نے کہا : أبنی حنیفہ احکموا سفھاء کم انی اخاف علیکم ان اغضبا (2) کیا بنی حنیفہ نے اپنے نادان لوگوں کو روکا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں تم پر غصہ کروں گا یعنی کیا بنی حنیفہ نے اپنے بیوقوف لوگوں کو فساد سے روکا ہے۔ زہیر نے کہا : القائد الخیل منکوبا دوابرھا قد أحکمت حکمات القد والابقا وہ گھوڑوں کو چلاتا ہے حتیٰ کہ ان کے پاؤں گھس جاتے ہیں وہ روئی اور چمڑے کی لگاموں کے ساتھ روکے گئے ہیں۔ عرب کہتے ہیں : احکم الیتیم عن کذا وکذا۔ یتیم کو اس کام سے روکا گیا ہے۔ السورۃ المحکمۃ ایسی سورت جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو اور اس کے ساتھ اس کو ملایا جائے جو اس سے خارج ہو اور اس پر زائد کیا جائے جو اس سے نہ ہو ایسی حکمت ہے، وہ بھی حکمت والے کو جہالت سے روکتی ہے۔ کہا جاتا ہے : احکم الشیء جب کوئی کسی کام کو پختہ کرے اور مقصود سے خارج ہونے والی چیز کو روکے۔ فھو محکم و حکیم کثرت اور زیادتی حکمت کا معنی ہے۔
Top