Al-Qurtubi - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اسکے فضل سے (روزی) تلاش کرو۔ بیشک وہ تم پر مہربان ہے
آیت نمبر 66 قولہ تعالیٰ : ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر، الإزجاء کا معنی ” چلانا “ ہے۔ اور اسی سے یہ قول باری تعالیٰ بھی ہے : الم تران اللہ یزجی سجابًا (النور : 43) (کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ لے جاتا ہے بادل کو ) ۔ اور شاعر نے کہا ہے : یأیھا الراکب المزجی مطیتہ سائل نبی أسد ما ھذہ الصوت تو اس میں بھی مزجی چلانے والے کے معنی میں ہے۔ اور ازجاء الفلک کا معنی ہے کشتیوں کو نرم ہوا کے ساتھ چلانا۔ اور الفلک یہاں جمع ہے، اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور البحر سے مراد کثیر پانی ہے چاہے وہ میٹھا ہو یا نمکین ہو، اور یہ اسم مشہور معنی پر غالب ہے۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے بندوں پر اسکے فضل وکرم کے بارے واقفیت دلاتی ہے، یعنی تمہارا رب وہ ہے جسنے تم پر اس اسطرح کی نعمتیں فرمائی ہیں پس تم اس کیساتھ کسی شی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ لتبتغوا من فضلہٖ تاکہ تم تجارت میں اسکا فضل تلاش کرو۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ انہ کان بکم رحیماً ۔
Top