Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ : نئی طرح بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین اَنّٰى : کیونکر يَكُوْنُ : ہوسکتا ہے لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ تَكُنْ : اور جبکہ نہیں لَّهٗ : اس کی صَاحِبَةٌ : بیوی وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کی كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنیوالا (ہے) اس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ 0ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۝ 0ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ۝ 0ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ 101 بدع الإِبْدَاع : إنشاء صنعة بلا احتذاء واقتداء، ومنه قيل : ركيّة بَدِيع أي : جدیدة الحفروإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فهو إيجاد الشیء بغیر آلة ولا مادّة ولا زمان ولا مکان، ولیس ذلک إلا لله والبدیع يقال للمُبْدِعِ نحو قوله تعالی: بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] ، ويقال للمبدع نحو : ركيّة بدیع، وکذلک البِدْعُ يقال لهما جمیعا بمعنی الفاعل والمفعول، وقوله تعالی: قُلْ ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] قيل : معناه : مبدعا لم يتقدّمني رسول، وقیل : مبدعا فيما أقوله . والبِدْعةُ في المذهب : إيراد قول لم يستنّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشریعة وأماثلها المتقدمة وأصولها المتقنة، وروي : «كلّ محدثة بدعة، وكلّ بدعة ضلالة، وكلّ ضلالة في النّار» والإِبْدَاع بالرّجل : الانقطاع به لما ظهر من کلال راحلته وهزالها ( ب د ع ) الا بداع ۔ کسی کی تقلید اوراقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا ۔ اسی سے کھودے ہو ہوئے کنویں کو وکیہ بدیع کہا جاتا ہے ۔ جب ابداع کا لفظ اللہ عزوجل کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بغیر آلہ بغیر مادہ اور بغیر زمان ومکان کے کسی شئے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔ اور البدیع بمعنی مبدع بھی آیا ہے جیسے فرمایا : بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ( 2 ۔ 117 ) اور بمعنی مبدع ( اسم مفعول ) بھی آجاتا ہے جیسے زکیہ بدیع ( نیا کھودا ہوا کنواں ) اسی طرح بدعا کا لفظ بھی اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں ( 942 ) میں بدعا بمعنی مبدع بھی ہوسکتا ہے یعنی پیغمبر ایسا کہ مجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہ آیا ہو اور بمعنی مدع کے بھی یعنی میں کوئی نئی بات نہیں کہتا ۔ البدعہ مزہب میں نئی بات داخل کرنا جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کی اقتدا نہ کرے اور نہ ہی سلف صالحین اور اصول شریعت سے اس کا ثبوت ملتا ہو ایک روایت میں ہے 25 ) کل محدثہ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار کہ ہر نئی رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ۔ الابداع بالرجل سواری کے ماندہ اور دبلا ہونے کی وجہ سے رفقا د سے منقطع ہوجانا ؟ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ ( صاحبة) ، مؤنث صاحب، اسم فاعل من صحب الثلاثي، وزنه فاعلة . شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،
Top