Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 220
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ اُولٰٓئِكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو ھَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور انہوں نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يَرْجُوْنَ : امید رکھتے ہیں رَحْمَتَ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو : جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو ، وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔236 اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے۔اللہ چاہتا تو اس معاملہ میں تم پر سختی کرتا مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے
سورة الْبَقَرَة 236 اس آیت کے نزول سے پہلے قرآن میں یتیموں کے حقوق کے حفاظت کے متعلق بار بار سخت احکام آچکے تھے اور یہاں تک فرما دیا گیا تھا کہ ”یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو“۔ اور یہ کہ ”جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں۔“ ان شدید احکام کی بنا پر وہ لوگ، جن کی تربیت میں یتیم بچے تھے، اس قدر خوف زدہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے ان کا کھانا پینا تک اپنے سے الگ کردیا تھا اور اس احتیاط پر بھی انہیں ڈر تھا کہ کہیں یتیموں کے مال کا کوئی حصہ ان کے مال میں نہ مل جائے۔ اسی لیے انہوں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ ان بچوں کے ساتھ ہمارے معاملے کی صحیح صورت کیا ہے۔
Top