Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 91
اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًاۙ
اَوْ تَكُوْنَ : یا ہوجائے لَكَ : تیرے لیے جَنَّةٌ : ایک باغ مِّنْ : سے۔ کا نَّخِيْلٍ : کھجور (جمع) وَّعِنَبٍ : اور انگور فَتُفَجِّرَ : پس تو رواں کردے الْاَنْهٰرَ : نہریں خِلٰلَهَا : اس کے درمیان تَفْجِيْرًا : بہتی ہوئی
یا تمہارا کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو۔
(17:91) فتفجر۔ فجر یفجر تفجیرا (باب تفعیل) تو پھاڑ لائے تو بہا لائے۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ منصوب بوجہ عمل فار کے جو نفی (لن نؤمن) کے بعد واقع ہوا ہے۔ خللھا۔ خلل۔ بوجہ ظرف (مفعول فیہ) کے منصوب ہے۔ ای وسط تلک الجنۃ یعنی اس جنت کے درمیان نہریں جاری کردیں جو بہہ رہی ہوں۔ تسقط۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ منصوب بوجہ عمل او جو الی ان کے معنی میں ہے تو گرا دے تو ڈال دے۔ اسقاط (افعال) مصدر۔ تسقط علینا۔ تو ہم پر گرا دے۔ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا۔ میں تسقط فعل السماء مفعول کسفا السماء سے حال ۔ کما زعمت جملہ معترضہ۔ یا جیسا آپ کا خیال ہے آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دیں۔ تاتی (ب) متعدی بوجہ (ب) تو لے آئے۔ اتیان سے واحد مذکر حاضر۔ مضارع معروف ۔ قبیلا۔ حال ہے اللہ سے اور الملئکۃ سے۔ قبل کے اصل معنی آگے اور سامنے کے ہیں اور اس صورت میں یہ دبر ودبر کی ضد ہے۔ اگرچہ مجازًا ہر قسم کے تقدم پر بولا جاتا ہے، خواہ یہ تقدم زمانی یا مکانی ہو۔ یا بلحاظ رتبہ کے ہو۔ قبیلا۔ سامنے، آگے، جیسے کہتے ہیں رأیتہ قبیلا میں نے اس کو سامنے (یعنی کھلم کھلا) دیکھا۔ اس معنی کی تائید قرآن مجید میں اسی مضمون پر دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے مثلاً واذ قلتم یموسی لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ (2:55) (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ باور کریں گے (تمہارے کہنے سے) جب تک ہم خدا کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں۔ اور فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک فقالوا ارنا اللہ جھرۃ (4:153) سو یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بھی بڑی فرمائش کرچکے ہیں (ان سے) یہ بولے تھے کہ ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلا دو ۔ سو یہاں اس آیت میں بھی منکرین کا یہی مطالبہ تھا کہ خدا تعالیٰ اور فرشتے ہمارے سامنے کھلم کھلا آئیں اور ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ قبیلا بمعنی جماعت در جماعت بھی ہے۔ اس صورت میں یہ قبیلۃ کی جمع ہے۔
Top