Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 15
عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ
عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے ہوں گے مَّوْضُوْنَةٍ : سونے کی تاروں سے بنے ہوئے۔ بنے ہوئے
سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر بیٹھے ہوں گے
ربط آیات : سورۃ کی ابتدائی آیات میں وقوع قیامت کے متعلق فرمایا کہ زمین پر زلزلہ طاری ہوجائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گردوغبار کی طرح اڑ جائیں گے ۔ پھر فرمایا کہ انسان تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے یعنی دائیں ہاتھ والے ، بائیں ہاتھ والے اور سابقین۔ اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ والے کامیاب ہوں گے اور بائیں ہاتھ والے ناکام ، اور سابقین اللہ کے مقرب بندے ہیں۔ ان کی تعداد پہلوں میں زیادہ اور پچھلوں میں کم ہوگی ۔ اب اللہ نے ان کو ملنے والے انعامات کا بھی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ جنت میں سابقین کی کیفیت : ارشاد ہوتا ہے علی سرر موضونۃ سبقت کرنے والے اللہ کے مقربین سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر بیٹھنے والے ہوں گے۔ یہ تخت ہیروں اور جواہرات سے مزین ہوں گے جس کی وجہ سے دیکھنے میں بھی نہایت دلکش ہوں گے اور ان کے بیٹھنے کی کیفیت یہ ہوگی۔ متکئین علیھا متقبلین تکیہ لگا کر آمنے سامنے بیٹھنے والے ہوں گے۔ ہر جنتی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوگا ، اور کسی ایک کی دوسرے کی طرف پشت نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی کی طرف پشت کرکے بیٹھنا معیوب معلوم ہوتا ہے ، لہٰذا جنت میں یہ کیفیت کہیں نہیں ہوگی بلکہ سب ایک دوسرے کے روبرو ہوں گے۔ ان پر نہایت ہی خوشی کا عالم ہوگا۔ وہ بیٹھے ہوں گے اور ان کی خدمت کے لئے یطوف علیھم ولدان مخلدون ان کے سامنے لڑکے پھریں گے۔ جو ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ ایک تو وہ خدمت کے لئے ہمہ وقت مستعد رہیں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک ہی حالت یعنی بچپن کی عمر میں ہی رہیں گے ، اس دنیا کی طرح جوان اور پھر بوڑھے نہیں ہوجائیں گے۔ یہ بچے کون ہوں گے ؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ مشرکین اور کفار کے بچے ہوں گے جو سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی وفات پاگئے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حوروں کی طرح یہ بچے بھی جنت کی مخلوق ہوں گے۔ جن کو اللہ تعالیٰ اہل جنت کی خدمت کے لئے وہیں پیدا کرے گا۔ شراب طہور کے جام : فرمایا یہ بچے سابقین کے سامنے پھریں گے باکواب واباریق جن کے ہاتھوں میں گلاس اور صراحیاں ہوں گی۔ اکواب کو ب کی جمع ہے جس کا معنی گلاس یا آبخورہ ہوتا ہے ، اور اباریق ابریق کی جمع ہے جس کا معنی صراحی یا کوزہ ہے۔ یہ لفظ لوٹے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال ان چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں گلاس اور صراحیاں ہوں گی۔ وک اس من معین اور نتھری ہوئی صاف و شفاف شراب سے لبریز پیالے ہوں گے ۔ سورة الدھر میں اللہ نے ان خوبصورت بچوں کی تعریف اس طرح فرمائی ہے۔ ویطوف علیھم ولدان مخلدون اذا رایتھم حسبتھم لئولئوا منثور (آیت 19) ان پر نو عمر لڑکے پھریں گے جو ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ جب تم ان پر نگاہ ڈالو گے تو خیال کرو گے کہ یہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔ شراب اور صراحی کا تذکرہ پرانی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ زید ابن عباد شاعر کہتا ہے ؎ ودعوا بالصبوح یوما فجائت قینۃ فی یمینھا ابریق انہوں نے صبوح یعنی صبح کا مشروف طلب کیا ، تو ایک لونڈی داہنے ہاتھ میں صراحی پکڑے آگئی۔ عام طور پر صراحی میں شراب ہوتی تھی جسے گلاس یا پیالے میں ڈال کر پلایا جاتا تھا۔ اقیشر نامی شاعر بھی کہتا ہے ؎ افنی تلادی وما جمعت من نشب قرع الکواکیز افواہ الاباریق میرا پرانا اور نیا کمایا ہوا مال صراحیوں اور گلاسوں کے ٹکرانے نے فنا کردیا ہے۔ مراد یہی ہے کہ شراب نوشی نے مجھے کنگال کردیا ہے۔ وکانھا خمر ولا قدح وکانھا قدح ولا خمر شراب یا کوئی دیگر مشروب اور گلاس اس قدر لطیف اور شفاف ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گلاس تو نہیں ہے ، صرف شراب ہی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ نو عمر لڑکے ہوں گے جو ہاتھوں میں صراحیاں اور گلاس لیے اہل جنت کی خدمت پر مامور ہوں گے اور وہ شراب اس دنیا کی شراب کی طرح عقل کو زائل کرنے والی نہیں ہوگی جس کو پی کر لوگ بیہودگی اور دنگا فساد پر اترآتے ہیں ، بلکہ وہ ایسی عمدہ شراب ہوگی لایصدعون عنھا نہ تو اس سے سرگردانی ہوگی ، کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی ولا ینزفون اور نہ اسے پینے والے کوئی بیہودہ بات کریں گے۔ اس میں نشے والی کوئی چیز نہیں ہوگی ۔ اہل جنت کے ہوش و حواس بالکل قائم رہیں گے اور اس میں ہر طرح کا لطف اور سرور ہوگا۔ دنیا کی شراب نوشی سے انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے ، واہی تباہی بکتا ہے اور کئی دوسرے گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے ، اس لئے شریعت نے شراب نوشی پر حد جاری کی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے جو شخص دنیا میں شراب نوشی کرے گا۔ وہ آخرت میں شراب طہور سے محروم رہے گا۔ پھل اور گوشت : سابقین کے لئے شراب طہور کے علاوہ فرمایا وفاکھۃ مما یتخیرون اور پھل ہوں گے جن کو اہل جنت پسند کریں گے۔ ہر جنتی کے لئے اس کا من پسند پھل مہیا کیا جائے گا اور اس کے حصول کے لئے اسے کوئی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑیگی بلکہ جیسا کہ پچھلی سورة میں گزرچکا ہے ، یہ پھل اس کے قریب ہی ہوں گے ، نہ وہ ختم ہوں گے اور نہ ہی ان کے استعمال سے روکا جائے گا۔ اس کے علاوہ فرمایا ولحم طیر مما یشتھون ، اور پرندوں کا گوشت ہوگا۔ جیسا کہ وہ چاہیں گے ظاہر ہے کہ بھیڑ ، بکری ، گائے ، اونٹ کے گوشت کی نسبت پرندوں کا گوشت زیادہ لذیذ اور زیادہ مرغوب ہوتا ہے ، لہٰذاسابقین کے لئے جنت میں پر نوں کا من پسند گوشت بھی باافراط ہوگا جسے اہل جنت حسب منشاء واستعمال کرسکیں گے۔ حورعین : پھر انسان کی خوشی خاطر کے لئے اس کے جوڑے کا ذکر بھی فرمایا وحورعین گوری چٹی خوبصورت اور موٹی موٹی آنکھوں والی عورتیں بھی ہوں گی۔ جن سے اہل جنت اپنا دل بہلا سکیں گے۔ یہ جنت کی مخلوق ہوگی ، اور ان کے حسن و جمال کے متعلق فرمایا کا مثال اللئو لئو المکنون ، وہ غلاف میں بند موتیوں کی طرح گردوغبار سے پاک ہوں گی۔ ظاہر اور باطنی ہر لحاظ سے پاکیزہ عورتیں ہوں گی۔ فرمایا جزاء بما کانوا یعملون یہ بدلہ ہوگا اس کام کا جو وہ دنیا میں انجام دیتے رہے۔ یہی جزائے عمل ہے جو وقوع قیامت کا مقصود ہے۔ یہ سب کچھ سابقین اور مقربین کی کمائی کا نتیجہ ہوگا۔ لغویات سے چھٹکارا : پھر فرمایا لا یسمعون فیھا لغوا ولا تاثیما وہ لو گ اس جنت میں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اور نہ ہی کوئی گناہ کی بات ان کے کانوں میں پڑے گی۔ اس دنیا میں تو نہ چاہنے کے باوجود انسان کو بہت سی لغویات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ بازار میں چلتے چلتے ، گالی گلوچ ، دنگا فساد یا بیہودہ گانوں کی آواز کان میں خواہ مخواہ پڑجاتی ہے ، مگر جنت میں ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ وہاں پر الا قیلا سلما سلما وہاں تو ہر طرف سے سلامتی کی آوازیں ہی آئیں گی۔ اہل جنت آپس میں ملیں گے تو ایک دوسرے کے لئے سلامتی کی دعائیں کریں گے۔ فرشتوں کی طرف سے بھی انہیں سلام ہوگا اور پروردگار کی طرف سے بھی سلم ، قولا من رب رحیم (یٰس 58) سلامتی کا تحفہ آئے گا۔ یہ اللہ نے تین میں سے ایک گروہ یعنی سابقین کے انعامات کا ذکر فرمایا ہے۔ اصحاب یمین : اس کے بعد دوسرے نمبر پر اصحاب یمین والے آتے ہیں جن کو ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا۔ ان کے متعلق فرمایا واصحب الیمین ، ما اصحب الیمین اور دائیں ہاتھ والے لوگ ، ان کا تو کیا کہنا۔ ان کو بھی اللہ کے رحمت کے مقام جنت میں جگہ ملے گی۔ اور بڑا آرام و راحت نصیب ہوگا۔ یہ نعمتیں اگرچہ سابقین کی نعمتوں سے کم درجہ کی ہونگی مگر فی ذاتہ یہ بھی کمال درجے کی نعمتیں ہوں گی۔ امام ابن کثیر (رح) نے ابن ابی حاتم محدث (رح) کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ کہ امام حسن بصری (رح) سے منقول ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے واصحب الیمین ما اصحب الیمین ، تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کی اور کہنے لگے اما السابقون فقد مضی ولکن اللھم اجعلنا من اصحب الیمین ، کہ سابقین کا گروہ تو گزر گیا ، اب اے اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب یمین میں ہی شامل کرلے۔ کیونکہ اگر ہم اس گروہ میں بھی شامل نہ ہوسکے تو ناکام ہوجائیں گے۔ باغات میں ٹھکانا : اب ان اصحاب یمین کو ملنے والے انعام واکرام کے متعلق فرمایا فی سدر مخضود یہ لوگ کانٹے اتاری ہوئی بیری کے درختوں میں ہوں گے۔ بیری کا پھل اگرچہ بہت اچھا پھل ہے مگر اس درخت کی شاخوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں جو طبیعت پر ناگوار گزرتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ جنت کی بیری کے درختوں پر کانٹے نہیں ہوں گے ، لہٰذا جنتی لوگ ان کانٹوں کی تکلیف سے تو مامون ہوں گے مگر اس کا پھل بکثرت ہوگا جسے وہ استعمال کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ فرمایا وطلح منضود تہ بہ تہ کیلے ہوں گے۔ کیلا بھی نہایت عمدہ پھل ہے۔ جو بکثرت کھایا جائے گا۔ بعض ممالک میں یہ غذا کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض جگہ اتنے بڑے بڑے کیلے ہوتے ہیں کہ آدمی صرف ایک ہی کیلا کھا کر سیر ہوجاتا ہے ، طلح کیکر کی طرح کا ایک درخت بھی ہے۔ جسے عرب لوگ خوب پہچانتے ہیں۔ یہ درخت بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جنت میں اس کے ساتھ کانٹے نہیں ہوں گے ، بہرحال طلح کا عام فہم معنی کیلا ہی ہے۔ پھر فرمایا وظل ممدود اور جنت والے لمبے سایوں میں ہوں گے۔ وہاں پر نہ دھوپ ہوگی ، نہ اندھیرا اور نہ ہی سردی بلکہ درختوں کے سایے میں نہایت ہی خوشگوار موسم ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جنت میں اتنے بڑے بڑے درخت ہوں گے کہ ایک تیز رفتار گھڑ سوار سو سال میں بھی اس سائے کو عبور نہیں کرسکے گا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق سور ۃالنجم میں ذکر ہوچکا ہے کہ یہ اتنا بڑا درخت ہے جس کی جڑچھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ یہ درخت عالم امکان اور عالم وجوب کے درمیان ایک سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور ﷺ نے درختوں کے لمبے سایوں کی دلیل کے طور پر یہی آیت تلاوت فرمائی وظل ممدود اور فرمایا کہ جنتی لوگ لمبے سایوں میں ہوں گے۔ نیز فرمایا ومآء مسکوب اصحاب یمین بہتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت میں پاکیزہ پانی ہمیشہ جاری رہے گا اور اس میں کبھی کمی نہیں آئیگی۔ سورة محمد میں ہے کہ اس پانی میں کبھی بدبو پیدا نہیں ہوگی ، بلکہ ہمیشہ تروتازہ اور خوشگوار رہیگا۔ اس کے علاوہ وفاکھۃ کثیرۃ ، وہ لو گ کثیر پھلوں میں ہوں گے یعنی انہیں ہر موسم میں من پسند پھل بغیر کسی محنت کے باافراط میسر ہوں گے اور پھر لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ یہ پھل نہ تو قطع کیے جائیں گے اور نہ روکے جائیں گے ، مطلب یہ ہے کہ پھل اتنے بکثرت ہوں گے کہ ان کے کم پڑجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہتا اور یہ بھی نہیں ہوگا۔ کہ پھل موجود ہوں مگر اہل جنت کو ان کے استعمال سے روک دیا گیا ہو۔ مقام رحمت کے مکین ہر موسم میں اپنی پسند کے پھل حاصل کرسکیں گے۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا وفرش مرفوعۃ اونچے درجے کے بچھونے یا بستر ہوں گے جن پر اصحاب یمین آرام کرسکیں گے۔ یہ بستر نہایت قیمتی ، خوش رنگ اور آرام دہ ہوں گے جن کا تصور اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ خوبصورت عورتوں کی رفاقت : اگلی آیت میں اللہ نے خوبصورت عورتوں کی رفاقت کا ذکر کیا ہے جو کہ انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ فرمایا انا انشا نھن انشآء ، ہم نے ان عورتوں کو اٹھایا ہے یعنی پیدا کیا ہے۔ ایسی اٹھان فجعلنھن ابکارا ، کہ ان کو دوشیزہ بنایا ہے۔ وہ کنواری نہایت ہی خوبصورت عورتیں ہوں گی عوبا اترابا لا صحب الیمین ، جو محبت کرنے والی اور ہم عمر ہوں گی دائیں ہاتھ والوں کے لئے بعض اوقات عمر کا تفاوت مردوزن کے لئے بےرغبتی کا سبب بن جاتا ہے۔ مگر جن کی عورتیں مردوں کی ہم عمر ہوں گی۔ کنواری ہوں گی اور ان سے محبت کریں گی۔ لہٰذا ان کی دل لگی میں کسی قسم کا تکدر پیدا نہیں ہوگا اور جنتی مرد اور جنتی عورتیں نہایت دل خوش کن دائمی زندگی گزاریں گے۔ امام ابن کثیر (رح) نے طبرانی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ مذکورہ عورتیں وہ عورتیں ہوں گی جن پر دنیا میں بڑھاپے کی حالت میں موت طاری ہوئی۔ ان کے اعضاء اس قدر کمزور ہوچکے تھے کہ ان کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا۔ ان عورتوں کو اللہ تعالیٰ جنت کے لئے نئی اٹھان میں پیدا کرے گا۔ یہ ساری نوجوان دوشیزہ ہوں گی اور اپنے خاوندوں کے ساتھ محبت کریں گی۔ اس حدیث میں یہ بھی آتا ہے نساء الدنیا افضل من حورعین ، یعنی دنیا کی یہ عورتیں جنت کی حوروں سے افضل ہوں گی۔ ان کی یہ فضیلت ان کی نمازوں ، روزوں اور دیگر عبادات ادا کرنے کی وجہ سے ہوگی۔ ان کی نیکی کی وجہ سے ان کا حسن و جمال اور اخلاق اور پاکیزگی حوروں سے بڑھ کر ہوگی۔ اسی حدیث میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے حضور ﷺ کے سامنے ذکر کیا کہ دنیا میں بعض عورتیں دو دو ، تین تین خاوندوں والی بھی ہوتی ہیں۔ اگر ایسی کوئی عورت جنت میں چلی گئی اور اس کے تمام شوہر بھی جنت میں پہنچگئے تو ایسی عورت کا ملاپ کس خاوند کے ساتھ ہوگا۔ فرمایا انھا مخیرۃ ایسی عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس شوہر کے ساتھ رہنا پسند کرے اس کا انتخاب کرلے۔ تو ایسی صورت میں وہ عورت تختاراحسن خلق ایسے خاوند کو پسند کریگی جو دنیا میں بہتر اخلاق والا تھا۔ یعنی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا ، پھر فرمایا ، اے ام سلمہ ! عمدہ اخلاق دین ودنیا میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے۔ جنت میں جانے والے مرد عورتیں ہمیشہ جوانی کی حالت میں رہینگے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کوئی تغیر نہیں آئے گا۔ فرمایا جنتی مرد بےریش ، سرمگیں ، آنکھوں والے تیس پینتیس سال کے پیٹے میں ہوں گے۔ اور ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے۔ یہ لو گ انپے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) کی صورت میں ہونگے اور قدوقامت ان ہی کی کے قدوقامت کے مطابق ہوگا۔ اور عورتیں بھی ہمیشہ ہم عمر ہوں گی اور محبت کرنے والی ہوں گی۔ یہ ان لوگوں کے انعامات کا ذکر ہے جن کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا۔ پھر فرمایا ، ایسے لوگ ثلۃ من الاولین پہلے لوگوں میں سے کثیر تعداد میں ہوں گے وثلۃ من الاخرین اور پچھلے لوگوں میں بھی کثیر تعداد میں ہوں گے۔ پہلی امتوں کا ذکر ہو یا اس امت کے پہلے لوگوں کا اصحاب یمین بکثرت ہوں گے۔ سابقین کے متعلق تو بیان ہوچکا ہے کہ وہ پہلوں میں زیادہ اور پچھلوں میں کم ہوں گے مگر اصحاب یمین اور پچھلوں سب میں زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ اللہ نے ان کو ملنے والے انعامات کا ذکر بھی فرمادیا ہے۔
Top