Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
بیشک ہم نے اتاری ہے آپ کی طرف کتاب حق کے ساتھ تاکہ آپ فیصلہ کریں لوگوں کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے آپ کو بات سمجھائی ہے اور نہ ہوں آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑا کرنے والے
ربط آیات گزشتہ دروس میں سفر اور خوف کی حالتوں میں نماز کا بیان تھا۔ اس کے بعد امن کی حالت میں دستور کے مطابق نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ پھر جہاد کے ضمن میں دشمن کا تعاقب کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس معاملہ میں سستی کا اظہار کرنے سے منع فرمایا گیا۔ اہلِ ایمان کو یاد دلایا کہ کافر باطل پروگرام رکھنے کے باوجود بڑے مستعد ہیں جب کہ مسلمانوں کے پاس تو اللہ اور اسکے رسول کا دین برحق ہے لہٰذا انہیں دشمن کے مقابلہ میں زیادہ مستعد ہونا چاہئے۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ امید ہے جو کفار کو نہیں ہو سکتی۔ اُس سے پہلے منافقین کا تذکرہ تھا کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس میں شمولیت کے خلاف حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی فضیلت بیان فرمائی اور اس ضمن میں بہت سے دیگر احکام بھی نازل فرمائے۔ اب آج کے درس میں منافقین کی ان کارگزاریوں کا ذکر ہے جن کی وجہ سے وہ قابل مذمت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی طرفداری نہ کریں ، یہ بڑے بد باطن لوگ ہیں اور اسلام کو ہمیشہ نقصان پہنچانے کی تدابیر سوچتے ہیں۔ شان نزول ترمذی شریف کی کتاب التفسیر ، مستدرک حاکم اور حدیث کی بعض دوسری کتب میں 4 ھ کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ مدینہ میں بنو ابیرق کا ایک خاندان آباد تھا۔ منافقین کا یہ خاندان تین بھائیوں بشر ، بشیر اور مبشر پر مشتمل تھا۔ بشیر کو طعمہ بھی کہتے تھے۔ یہ شاعر تھا اور اپنے اشعار میں حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی ہجو کرتا تھا۔ چونکہ منافق تھا ، اس لیے ایسے اشعار وہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کردیتا تھا تاکہ اس کا نفاق نہ ظاہر ہوجائے۔ صحابہ کرام ؓ اس شخص کے مختلف دو مختلف رائیں رکھتے تھے۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ بدبخت خود اشعار کہتا ہے ، اور دوسروں کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ جب کہ بعض دوسرے صحابہ ؓ کو تردد تھا۔ کہ ہو سکتا ہے یہ کسی اور شخص کی کرتوت ہو۔ بہرحال یہ اس قسم کا بدکردار آدمی تھا۔ حضرت رفاعہ بن زید ؓ حضور کے ایک کھاتے پیتے آسودہ حال صحابی تھے۔ ان کے بالاخانے میں گندم کے آٹے کی بوری تھی ، اس زمانہ میں گندم کا آٹا تو کسی خوشحال آدمی ہی کی خوراک ہوتا تھا ، وگرنہ عام لوگ جَو اور کھجوروں پر گزارہ کرتے تھے اس آٹے کی بوری پر کچھ ہتھیار بھی رکھے تھے۔ رات کو مکان میں نقب زنی ہوئی اور چور آٹے کی بوری اور ہتھیار اٹھا لے گئے۔ صبح رفاعہ ؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے بھتیجے قتادہ ؓ سے ذکر کیا۔ تفتیش شروع تو بنو ابیرق پر شک کیا گیا۔ ان کے آس پاس سے پتہ چلا کہ رات ان کے ہاں چولہا جلا ہے اور روٹی پکی ہے ، حالانکہ یہ خاندان مالی پر کمزور ہے جنہیں آٹے کی روٹی میسر نہیں۔ جب بنو ابیرق کو علم ہوا کہ چوری میں ان کا نام لیا جا رہا ہے تو انہوں نے بھی اپنے دفاع کے لیے اپنے حمایتی جمع کیے اور چوری کا الزام حضرت لبیدبن سہل ؓ پر لگا دیا۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا ، تو وہ تلوار نکال لائے اور بنو ابیرق سے کہا کہ یا تو چوری ثابت کرو ، ورنہ یہ تلوار تمہارا کام تمام کر دے گی۔ اس پر وہ ڈر گئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ان سے جان چھڑا لی۔ جب بنو ابیرق کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو انہوں نے اپنی صفائی کے لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ اپنے خاندان کے بعض معتبرین کو حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ اس وفد میں خاندان کا بڑا چوہدری بھی شامل تھا جو مخلص مسلمان تھا ، مگر اپنی برادری کے کہنے پر ان کی سفارش کے لیے چلا گیا۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت رفاعہ ؓ اور ان کے بھتیجے قتادہ ؓ انہیں خواہ مخواہ بدنام کرر ہے ہیں حالانکہ وہ چور نہیں ہیں۔ حضور ﷺ نے دیکھا کہ بعض شریف آدمی ان کی صفائی پیش کر رہے ہیں ، لہٰذا ہو سکتا ہے یہ بیگناہ ہوں اور ان پر غلط الزام لگایا جا رہا ہو۔ اس وقت تک آیات نازل نہیں ہوئی تھیں لہٰذا حضور ﷺ نے ان کی بات پر یقین کرلیا۔ اسی دوران حضرت رفاعہ ؓ نے حضرت قتادہ ؓ کو کہا کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں جا کر چوری کا واقعہ بیان کرو اور آپ کو یہ بھی بتاؤ کہ قرائن بتا رہے ہیں کہ چور بنو ابیرق ہیں۔ جب حضرت قتادہ ؓ حضور کی خدمت میں پہنچے تو وہ مخالفین کی بات کو پہلے ہی صحیح سمجھ چکے تھے۔ آپ نے حضرت قتادہ ؓ کو ڈانٹا کہ تم خواہ مخواہ بےگناہوں پر الزام لگا رہے ہو جب کہ اتنے آدمی ان کی صفائی پیش کرچکے ہیں۔ حضرت قتادہ ؓ کو اس بات کا سخت صدمہ ہوا کہ ان کی چوری بھی ہوگئی ہے اور الٹا انہی کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوگئی۔ انہوں نے واپس آ کر ساری بات حضرت رفاعہ ؓ کے گوش گزار کردی کہ یہ تو معاملہ ہی الٹا ہوگیا ہے ، ان لوگوں نے حضور ﷺ کے پاس وفد بھیج کر اپنی صفائی پیش کردی ہے اور آپ نے مجھے ڈانٹا ہے کہ تمہارا الزام غلط ہے اس پر حضرت رفاعہ ؓ نے کہا کوئی بات نہیں ، اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے۔ اس پر دو رکوع پر مشتمل یہ آیات نازل ہوئیں اور منافقین کی سازش کو ظاہر کردیا گیا۔ بعض تفاسیر میں یہ بھی آتا ہے کہ بشیر ابن ابیرق نے آٹے کی بوری ایک شخص زید بن سمین یہودی کے گھر میں امانت کے طور پر رکھ دی ، جب مسروقہ مال کی تلاش شروع ہوئی تو وہ بشیر کی بائے زید یہودی کے گھر سے برآمد ہوا۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ آٹے کی بوری تمہارے گھر کیسے پہنچی تو اس نے بشیر کا نام لیا کہ اس نے امانت کے طور پر رکھی تھی۔ مگر بشیر نے انکار کیا۔ اور قسم اٹھا کر کہا کہ چور وہ ہے جس کے گھر سے مال برآمد ہوا ہے اس واقعہ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ منافقوں کا راز فاش ہوگیا ، حضرت لبید ؓ اور یہودی بےگناہ ثابت ہوئے اور بنو ابیرق پر چوری ثابت ہوگئی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں منافقین کی کارگزاری کی طرف اشارہ کر کے ان کی مذمت بیان کی ہے۔ منافق کا انجام جب مسروقہ مال مل گیا تو حضور ﷺ نے حضرت رفاعہ ؓ اور قتادہ ؓ کو بلا کر ان کے سپرد کردیا اور منافق اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گیا۔ ایماندار ہوتا تو اقرار جرم کرکے حد سرقہ برداشت کرتا ، اور آخرت خراب نہ کرتا ، مگر وہ صریحاً مرتد ہو کر مشرکین مکہ سے جا ملا اور ایک عورت سلافہ بنت سعد کے پاس جا ٹھہرا۔ اُدھر حضرت حسان ؓ کو علم ہوا تو انہوں نے اپنے اشعار میں بشیر اور سلافہ دونوں کی مذمت بیان کی۔ جب اس عورت کی بدنامی ہوئی تو وہ سخت سیخ پا ہوئی اور اس نے بشیر کا سامان اٹھا کر باہر بطحا میں پھینک دیا اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ شخص سخت ذلیل و خوار ہوا اور پھر اس کی موت بھی اس طرح واقع ہوئی کہ یہ ایک زیر تعمیر دیوار کے نیچے آ کر واصل بہ جہنم ہوا۔ اللہ کی طرف سے وعید ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے جنہوں نے بنو ابیرق کی باتوں میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس ان کی صفائی پیش کی تھی حضور ﷺ نے بھی ظاہری حالات کے مطابق منافقین کو بےگناہ سمجھ کر حضرت قتادہ ؓ کو ڈانٹا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تنبیہ فرمائی ہے اور تمام اہل ایمان کو یہ بات اصولاً سمجھا دی ہے کہ خائن لوگوں کی طرف داری نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیشہ پوری تحقیق کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے اور حق کی حمایت کرنی چاہئے۔ ارشاد ہوتا ہے انا انزلنا الیک الکتب بالحق بیشک ہم نے یہ کتاب (قرآن مجید) آپ کی طرف حق کے ساتھ اتاری ہے۔ اس کتاب کے اصول ، ضوابط احکام اور فرامین سب برحق ہیں۔ اور اسے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے لتحکم بین الناس بما ارنک اللہ تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس چیز کے ساتھ فیصلہ کریں ، جو اللہ نے آپ کو سمجھائی ہے ارک بمعنی رویت یعنی دیکھنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ اس چیز کے ساتھ فیصلہ کریں جو چیز اللہ نے آپ کو دکھائی ہے یاسمجھائی ہے ، اور ظاہر ہے کہ اس روایت یا فقاہت کا ذریعہ اللہ کی وحی ہے۔ تو فرمایا ولاتکن للخائسین خصیماً آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑانہ کریں۔ یعنی ان منافقین نے اپنی صفائی کے لیے جو ماحول پیدا کردیا ہے ، ان سے متاثرہ ہو کر آپ ان کی حمایت نہ کریں۔ استغفار کی تلقین فرمایا منافقوں کو بےگناہ سمجھنے میں جو لغزش ہوئی ہے اس کے لیے واستغفر اللہ آپ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں ، اس کی بخشش کے طلب گار ہوں۔ اور ساتھ ساتھ تمام اہل اسلام کو بھی یہ بات سمجھا دی کہ جب بھی کوئی ایسی غلطی ہوجائے۔ فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون حق و انصاف پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق اپنے تنازعات نپٹائے جائیں۔ رشتہ داری ، خویش پروری اور اقربا نوازی نہیں ہونی چاہئے۔ ایسی خطا پر جب معافی طلب کریں گے ان اللہ کان غفوراً رحیماً تو اللہ تعالیٰ بھی بخشش کرنے والا اور مہربان ہے۔ وہ ضرور معاف فرما دے گا۔ لہٰذا غلطی پر معافی مانگنے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔ خائنوں کی مذمت فرمایا تجادل عن الذین یختانون انفسہم اور آپ ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں جو اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرنے والے ہیں۔ جو شخص چوری کرتا ہے ، وہ ظاہر ہے کہ اپنے ہی نفس سے خیانت کرتا ہے۔ اس کا وبال اسی پر پڑے گا ، دنیا و آخرت میں اسی سے باز پرس ہوگی اور اسے اس کا بدلہ چکانا ہوگا۔ فرمایا خائنوں کی حمایت نہ کریں ، کیونکہ ان اللہ لا یحب من کان خواناً اثیماً بیشک اللہ تعالیٰ خائن اور گنہگار آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ وہ تو عدل و انصاف کا حامی ہے اور اطاعت گزار کو پسند فرماتا ہے۔ دھوکہ باز اور خیانت کرنے والوں سے وہ بیزار ہے۔ پھر دیکھو ! یہ لوگ کیا کرتے ہیں یستخفون من الناس لوگوں سے چھپ چھپا کر معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں چوری کرتے ہیں خفیہ سازش کرتے ہیں۔ مگر انہیں علم ہونا چاہئے ولا یستخفون من اللہ اللہ تعالیٰ سے کچھ نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو ہر آن ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ، وہ گوشتہ کہاں پائیں گے جہاں اللہ تعالیٰ کی نظر نہ پہنچتی ہو یستخفون کا معنی شرمانا بھی ہو سکتا ہے۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ منافقین لوگوں سے شرماکر چوری چھپے غلط کام کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ جو حاضر ناظر ہے اس سے نہیں شرماتے ، یہ اس قدر ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے فرمایا وھو معہم اذ یبتون جب یہ لوگ رات کو مشورہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے اور بات بھی ایسی کرتے ہیں مالا یرضی من القول جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ ایک تو چوری کی اور دوسرا الزام بےگناہوں پر لگایا اور اپنی جھوٹی صفائی پیش کردی یہ سب چیزیں منشائے ایزدی کے خلاف ہیں۔ اور یہ اس قدر جاہل لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اس کی موجودگی میں اس قسم کے مشورے کرتے ہیں۔ فرمایا وکان اللہ بسما یعملون محیطاً منافقین جو کچھ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔ وہ محیط کل ہے کوئی چیز اس کے علم اور احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی تمام چالوں سے اپنے نبی کو بذریعہ وحی آگاہ کردیا اور اس طرح ان کی سازش کو بےنقاب کردیا۔ مجرمین کی بےبسی آگے فرمایا ھانتم ” ھا “ حرف تنبیہ ہے۔ یعنی تم غور سے سنو ! ھولاء جدلتم عنہم فی الحیوۃ الدنیا یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف سے تم دنیا کی زندگی میں جھگڑا کرتے ہو۔ ان خائنوں اور گنہگاروں کی طرفداری کرتے ہو ، ان کی سفارش کرتے ہو اور ان کی صفائی پیش کرتے ہو۔ اس دنیا میں تو ایسا کر رہے ہو۔ فمن یجادل اللہ عنہم یوم القیمۃ مگر قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان کی طرف سے کون جھگڑا کریگا۔ اس دن تمام راز فاش ہوجائیں ” فمالہ من قوۃٍ ولا ناصر “ تو اس دن ان کا کوئی حامی و مددگار نہیں ہوگا۔ تو فرمایا امر من یکون علیہم وکیلاً اس دن گنہگاروں کی کون وکالت کریگا ، یہ لوگ اس دنیا میں تو چرب زبانی کر کے غلط سفارش کرا لیتے ہیں مگر قیامت کے دن اللہ کے ہاں کون سا ایڈوکیٹ یا بیرسٹر پیش کریں گے۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا گویا اہل ایمان کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آئندہ ایسے دھوکہ بازوں کی طرفداری نہ کریں اور ہمیشہ حق کی حمایت کریں اب اگلی آیات میں اس بات کا تذکرہ ہے۔ کہ اگر کوئی جرم مجرم کی بجائے کسی بےگناہ پر ڈال دیاجائے تو اس کا کتنا بڑا وبال ہے۔
Top