Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ
: بیشک ہم
اَنْزَلْنَآ
: ہم نے نازل کیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
الْكِتٰبَ
: کتاب
بِالْحَقِّ
: حق کے ساتھ (سچی)
لِتَحْكُمَ
: تاکہ آپ فیصلہ کریں
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
بِمَآ اَرٰىكَ
: جو دکھائے آپ کو
اللّٰهُ
: اللہ
وَلَا
: اور نہ
تَكُنْ
: ہوں
لِّلْخَآئِنِيْنَ
: خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے
خَصِيْمًا
: جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے نبی ﷺ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے ‘ تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ‘ تم بدیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو ‘ ۔
درس نمبر 39 ایک نظر میں : ان آیات میں ایک ایسی کہانی کی طرف اشارہ ہے جس کی کوئی مثال اس کرہ ارض پر نہیں ملتی بلکہ انسانیت کی تاریخ میں اس کے ساتھ ملتی جلتی کوئی مثال نہیں ہے ۔ یہ مثال بھی شاہد عادل ہے کہ یہ دین من جانب اللہ ہے اور لازما من جانب اللہ ہے ۔ اس لئے کہ انسانوں کا تصور انصاف اور عدالت جس قدر بھی بلند ہو ‘ ان کی روح جس قدر بھی صاف ہوجائے اور ان کا مزاج جس قدر بھی صراط مستقیم پر قائم ہو وہ اپنے آپ کو اس مقام بلند تک نہیں پہنچا سکتے ‘ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ کام صرف وحی الہی کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ انسانی تاریخ کے افق پر کھینچا جانے والا یہ گراف اس قدر اونچا ہے کہ اس مقام تک انسانیت صرف اسلامی نظام زندگی کے زیرسایہ ہی پہنچ سکی اور آئندہ بھی یہ سربلندی صرف اسلامی نظام ہی کے زیر سایہ نصیب ہو سکتی ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب مدینہ کے یہودی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ تمام زہریلے تیر اور ہتھیار استعمال کر رہے تھے جو ان کے ترکش میں موجود تھے اور جس کی تفصیلات اس سورة ‘ سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں بیان ہوچکی ہیں۔ حالات ایسے تھے کہ یہودی اسلام کے خلاف ہر قسم کا جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے تھے ۔ وہ مشرکین کا ایک محاذ اسلام خلاف بنا رہے تھے اور مشرکین کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ ان کے لئے راہ ہموار کرتے تھے ‘ پروپیگنڈے میں جھوٹی خبریں اڑاتے تھے ‘ لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرتے تھے ۔ حضور ﷺ کی قیادت کی توہین کرتے تھے ‘ وحی اور رسالت میں شکوک پیدا کرتے تھے ۔ وہ اسلامی معاشرے میں اندر سے انتشار پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے اور رات دن اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ اسلام کے دشمنوں کو جمع کر کے مسلمانوں پر حملہ کرا دیں ۔ تحریک اسلامی مدینہ میں بالکل نئی تھی ‘ اور انسانوں کے نفوس کے اندر ابھی تک جاہلیت کے آثار موجود تھے ۔ بعض مسلمانوں اور یہودیوں اور مشرکوں کے درمیان ابھی تک رشتہ داری اور دوسرے روابط بھی قائم تھے اور یہ تمام امور صفوں کے لئے خطرے کا باعث تھے ۔ ایسے مشکل ‘ خطرناک ‘ اور ہنگامی حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو یہ سخت ہدایات دی گئیں ۔ مقصد یہ مقصد یہ تھا کہ ایک یہودی ملزم کے ساتھ انصاف کرو ‘ اس پر چوری کا الزام جھوٹا ہے اور جن لوگوں نے جھوٹا الزام لگایا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اس کی تلافی کریں ۔ یہ مدینہ کے انصار کا ایک گھرانا تھا ۔ انصار ان دونوں رسول اللہ ﷺ کا سرمایہ تھا ‘ جو ان تمام یہودی سازشوں کے مقابلے میں آپ کے حامی ومدد گار تھے اور آپ ﷺ کی رسالت اور دین کے معاون تھے ۔ رواداری ‘ سربلندی اور عدل و انصاف کا یہ کس قدر اونچا معیار ہے ۔ اس کی تعریف و توصیف کے لئے تو الفاظ نہیں ملتے ۔ تمام باتیں ‘ تمام تبصرے اور تمام تشریحات اس معیار اور سطح سے نیچے رہ جاتی ہیں ۔ اس سطح اور معیار تک انسانی طاقتیں اپنی کوشش نہیں پہنچ سکتیں ‘ صرف انسان یہ معجزہ نہیں دکھا سکتے ‘ یہ تو اسلامی منہاج کی قیادت اور رہنمائی ہے جو کسی انسان کو اس مقام بلند تک پہنچاسکتی ہے ۔ وہ کہانی جو ان آیات کے پس منظر کے سلسلے میں بیان ہوئی اور جسے متعدد مصادر نے نقل کیا ہے ‘ مناسب ہے کہ انصار سے سنی جائے ۔ قتادہ ابن النعمان اور ان کے چچارفاعہ دونوں نے حضور ﷺ کے ساتھ بعض غزوات میں جنگ فرمائی ۔ ان میں سے ایک کی زرہ گم ہوگئی (رفاعہ کی) عام طور پر انصار کے ایک خاندان بنو ابیرق کے ایک شخص کے بارے میں یہ شبہ ہونے لگا کہ اس نے یہ زرہ چوری کی ہے ۔ مالک نے حضور ﷺ کے پاس یہ رپورٹ درج کرائی کہ طعمہ ابن ابیرق نے میری زرہ چرائی ہے ۔ بعض روایات میں بشیر ابن ابیرق کا نام آتا ہے ۔ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ وہ صحابہ کرام کی ہجو میں اشعار لکھتا اور مشہور کرتا کہ یہ فلاں عرب شاعر کے ہیں ۔ جب چور کو معلوم ہوا کہ اس کے خلاف رپورٹ ہوچکی ہے تو اس نے جلدی سے یہ زرہ ایک یہودی زید ابن سمین کے گھر پھینک دی اور اپنے خاندان کے بعض لوگوں سے کہا کہ میں نے زرہ غائب کردی ہے اور فلاں کے گھر میں پھینک دی ہے اور یہ جلد ہی اس کے گھر سے برآمد ہوگی ۔ تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور یہ کہو کہ ہمارے بھائی تو بےگناہ ہیں اور فلاں شخص چور ہے اور ہم نے ۔۔۔۔ اس سلسلے میں معلومات جمع کرلی ہیں ۔ آپ برسرعام ہمارے آدمی کی برات فرمائیں اور اس کی صفائی فرمائی دیں اس لئے کہ اگر اسے آپ کے ذریعے اللہ نے باعزت طور پر بری نہ کیا تو اس کی عزت خاک میں مل جائے گی ۔ جب حضور ﷺ کو معلوم ہوا کہ فی الواقعہ زرہ یہودی کے گھر سے برآمد ہوگئی ہے تو آپ نے مجمع میں اعلان کردیا کہ ابن ابیرق بےگناہ ہے ‘ اس لئے کہ اس کے خاندان نے حضور ﷺ سے درخواست کی تھی کہ قتادہ ابن النعمان اور ان کے چچا ہمارے ایک مسلمان خاندان کے گھر آئے اور اسے چوری کا ملزم بنا دیا اور یہ کام انہوں نے بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے کیا ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ۔ میں نے آپ ﷺ سے بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم نے جان بوجھ کر ایک ایسے خاندان کے خلاف چوری کا الزام عائد کردیا جن کا اسلام اور نیکی مشہور ومعروف ہیں اور بغیر ثبوت کے “۔ میں واپس ہوگیا ‘ لیکن میری حالت یہ تھی کہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اگر میری تمام دولت چلی جاتی اور میں حضور ﷺ سے بات نہ کرتا تو کہتا اچھا ہوتا ۔ اس پر میرے چچا رعافہ آئے تو مجھے کہا بھتیجے ! یہ تو نے کیا کیا ؟ تو میں نے اسے یہ بات بتائی جو حضور ﷺ نے کہی تھی تو رفاعہ نے کہا اللہ ہی مددگار ہے ۔ اس پر زیادہ وقت نہ گزرا کہ یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما “۔ (4 : 105) ” یعنی آپ بنی ابیرق کے لئے وکیل صفائی نہ بنیں ۔ ” خصیم “ کے معنی وکیل ‘ دفاع کرنے والے اور کسی کی جانب سے مجادلہ اور مباحثہ کرنے والے کے ہوتے ہیں ۔ آپ نے قتادہ ؓ کو جو کہا اس سے اللہ کی مغفرت طلب کریں ‘ بیشک اللہ غفور الرحیم ہے ۔ مزید یہ آیات ۔ (ولاتجادل) سے (رحیما) تک ۔۔۔۔۔ اگر وہ معافی چاہتے تو اللہ ان کو معاف کردیتا ۔۔۔۔۔ اسی طرح (ومن یکسب) سے (اثما مبینا) تک اور (ولو لا فضل اللہ) سے (اجرا عظیما) تک ۔۔۔۔۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضور ﷺ زرہ لے کر آئے اور رفاعہ کو دے دی ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ جب میرے چچا کے پاس زرہ پہنچی ۔ وہ بوڑھے تھے اور جاہلیت ہی میں ان کی نظر ختم ہوگئی تھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ مجبور ہو کر مسلمان ہوگئے ہیں ۔ جب میں نے ان کو زرہ دی تو انہوں نے یہ اللہ کی راہ میں ہوگئی ۔ یہاں سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ صحیح طرح مسلمان تھے ۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو بشیر (چور) مشرکین کے ساتھ مل گیا ۔ اس پر مزید آیات کا نزول ہوا۔ (آیت) ”۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جھنم وسآءت مصیرا (115) ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء ومن یشرک باللہ فقد ضل ضلا بعیدا “ (116) (4 : 115۔ 116) مسئلہ : صرف یہ نہ تھا کہ ایک بےگناہ بری کردیا گیا جس پر سازش کی وجہ سے الزام لگایا تھا اگرچہ اللہ کے ہاں کسی بےگناہ کا بری کرنا بھی ایک عظیم مسئلہ ہے ‘ مسئلہ تو اس سے بھی بڑا اور اہم تھا ۔ یعنی انصاف کی ترازو کو بالکل برابر کرنا مطلوب تھا کہ ہو کسی ایک طرف جھک نہ جائے ۔ نہ نفسانی خواہشات کی طرف اور نہ عصبیت کی وجہ سے ۔ نہ دوستی اور دشمنی کی وجہ سے ‘ میزان عدل میں کسی بھی طرح جھکاؤ نہ آجائے ۔ غرض جو حالات بھی ہوں ‘ انصاف ہو اور بےلاگ ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس جدید معاشرے کو تمام آلائشوں سے پاک کردیا جائے اور اس کے اندر سے جاہلیت اور عصبیت کے باقی ماندہ آثار کو بھی مٹا دیا جائے چاہے یہ آثار جس شکل و صورت میں بھی ہوں ۔ خصوصا جبکہ ان کا تعلق عوام الناس کے مسئلہ عدل سے ہو ۔ اس کے بعد ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جانی تھی جو بالکل منفرد ہو اور پوری تاریخ انسانی میں بےمثال ہو ۔ یہ بنیاد بالکل پاک وصاف اور مستحکم اصولوں پر رکھنی تھی ۔ جن میں تعصب ‘ ذاتی رجحان ‘ وقتی مصلحتوں اور ذاتی خواہشات کا کوئی دخل نہ ہو ۔ اس مقدمے میں بیشمار اسباب موجود تھے جن کی وجہ سے مجرموں کے ساتھ نرمی کی جاسکتی تھی یا کم ازکم انکے بارے میں یہ آیات نازل نہ ہوتیں اور ان پر تنقید نہ کی جاتی ۔ ان کو اس طرح سرعام رسوا نہ کیا جاتا یا ان کی سرعام پردہ دری نہ کی جاتی ۔ پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی تھی کہ اس مقدمے میں پہلا ملزم یہودی تھا اور یہودی وہ لوگ تھے کہ ان کے ترکش کا ہر تیر اسلام کے خلاف استعمال ہوتا تھا ۔ یہودی وہ لوگ تھے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کو ان کی جانب سے تلخ ترین اذیتیں دی جاتی تھیں اور خدا کا کرنا ایسا ہے کہ ہر دور میں وہ مسلمانوں کے خلاف نیش زنی کرتے رہتے ہیں ۔ پھر یہودیوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہو نہ کسی کا حق تسلیم کرتے تھے ‘ نہ کسی کے ساتھ عدل و انصاف کرتے تھے ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے ہاں کوئی اخلاقی قدر بھی نہ تھی اور مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں تو وہ کسی اخلاقی اصول کے قائل ہی نہ تھے ۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ اصل ملزم انصاری تھے اور انصار وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور کو پناہ دی اور آپ کی نصرت کی ۔ پھر انصار کے بعض گھرانوں کے درمیان جاہلیت سے دشمنیاں چلی آرہی تھیں اور جس طرح الزام اور تفتیش کا رخ یہودیوں کی طرف مڑ گیا تھا اس وقت ان تحقیقات کو یہاں سے ڈراپ کر کے اہل اسلام کی صفوں کے درمیان انتشار سے بچا جاسکتا تھا ۔ ایک تیسرا جواز یہ بھی تھا کہ اس طرح یہودیوں کے ہاتھ میں انصار کو ورغلانے کی خاطر ایک نیا ہتھیار آرہا تھا ۔ یہ کہ انصار اور مسلمان ایک دوسرے کی بھی چوریاں کرتے ہیں اور پھر یہودیوں پر الزام دھرتے ہیں ۔ یہودی اس واقعہ کو بھی اسلام کے خلاف استعمال کرسکتے تھے ۔ لیکن یہ معاملہ ان معمولی باتوں کی نسبت بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا ‘ ان تمام خدشات اور اعتبارات سے یہ معاملہ بہت اہم اور بلند تھا ۔ یہ باتیں اسلامی نقطہ نظر سے اہمیت نہ رکھتی تھیں ۔ اسلام کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ اس جماعت کو اس قدر تربیت دی جائے کہ وہ نظام خلافت ارضی اور منصب قیادت بشری کے لئے تیار ہوجائے ۔ یہ امت پوری انسانیت کی قیادت اور پورے کرہ ارض پر خلافت کے لئے اس وقت تک تیار نہیں ہو سکتی تھی جب تک اس کی تربیت نہایت ہی مستحکم اور برتر اصولوں پر نہ کی جائے جب تک اسلامی نظام زندگی کے اصول اس کی زندگی کا جزء نہ بن جائیں اس کے وجود کو پوری طرح دھو کر اور نچوڑ کر پاک وصاف نہ کردیا جائے اور اسے ہر قسم کی انسانی کمزوریوں سے پاک نہ کردیا جائے ‘ جو جاہلیت کے دور سے اس کی شخصیت کا جزء تھیں ۔ نیز جب تک خود اس امت کے درمیان پختہ نظام عدل قائم نہ کردیا جائے تاکہ وہ اس کے مطابق تمام لوگوں کے درمیان انصاف کریں ۔ اور ان کا یہ انصاف اور ان کی یہ عدالت تمام انسانی کمزوریوں سے پاک ہو اور وہ تمام ظاہری مصلحتوں سے صرف نظر کرنے کے قابل ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں اور اس مشکل ترین مرحلے میں ایک یہودی کے واقعہ کے ذریعے امت مسلمہ کو عدل و انصاف کے راستے پر ڈالا ایسے حالات میں کہ اس دور میں مسلمان یہودیوں کی جانب سے بیشمار ریشہ دوانیوں کا شکار تھے اور وہ پورے عالم عرب میں مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں بھی مصروف تھے ۔ مدینہ کے منافقین کے بھی معاون و مددگار تھے ‘ اور وہ دین اسلام کے خلاف اپنے ترکش کا ہر تیر استعمال کر رہے تھے اور اس کے خلاف ہر سازش کر رہے تھے ۔ مسلمانان مدینہ کے لئے مدینہ میں نہایت ہی خطرناک حالات تھے جہاں وہ دشمنیوں اور سازشوں میں گھرے ہوئے تھے اور یہ سب سازشیں یہودیوں کی طرف سے تھیں ۔ اللہ نے ان حالات میں اپنے بندوں کو ہدایت دینے اور نشان راہ متعین کرنے کے لئے ایک یہودی کو چنا ۔ ان حالات میں ایک یہودی کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ کہ اللہ تعالیٰ جماعت مسلمہ کو یہ سمجھا سکے کہ عدل کا معیار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس امت کو جو سکھانا چاہتے تھے وہ سکھائے ۔ لہذا اس معاملے میں اللہ کی پالیسی میں کوئی سیاست ‘ کوئی نام نہاد دانشوری اور کوئی زبانی ہیر پھیر نہ تھا ۔ اور لیپاپوتی اور واقعات کو چھپانے کی مہارت سے بھی کام نہ لیا گیا اور صاف صاف بات کی گئی ۔ اس مقدمے کے فیصلے میں تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اور تمام ظروف واحوال سے صرف نظر کیا گیا ۔ معاملہ نہایت ہی حقیقت پسندانہ اور سنجیدہ تھا ۔ اس میں کسی قسم کی ملمع کاری اور لیپاپوتی نہ تھی ۔ حقیقت پسندی اسلامی نظام زندگی کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت ہے اور اس امت کے اوصاف میں سے یہ ایک اہم وصف ہے ۔ یہ اس امت کے مقاصد میں شامل ہے کہ وہ لوگوں عدل پھیلائے اور عدل کو اس معیار پر پہنچا دے جہاں تک کبھی انسانیت نہ پہنچی اور صرف اللہ کی جانب سے وحی اور ہدایت ہی کے نتیجے میں یہ امت یہاں تک پہنچی ۔ جب انسان اس مقام بلند تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ تاریخ کے تمام ازمنہ اور ادوار میں انسانی پستیوں کے گہرے گڑھے میں پڑے ہیں ۔ اس نے دیکھا کہ اس مقام بلند تک پہنچنے کی راہ میں نہایت ہی گہری گھائیاں ہیں ۔ اس راہ میں جگہ جگہ چالاکیاں ‘ ظاہر داریاں ‘ سیاست ‘ عیاری ‘ بلاغت ‘ مہارت ‘ حکومت کی مصلحت ‘ ملک کی مصلحت اور پارٹی کی مصلحت وغیرہ کی بےپناہ رکاوٹیں ہیں جو مختلف ناموں اور مختلف عنوانوں کے ساتھ عدل و انصاف کی راہ روکے کھڑی ہیں ۔ اور اگر اس بلندی سے انسان تمام نظامہائے زندگی کو دقت نظر سے دیکھے تو اسے دنیا میں گندگی ہی گندگی نظر آئے ۔ اس بلندی سے انسان جب نگاہ ڈالتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ امت مسلمہ اس میدان میں یکہ و تنہا نظر آتی ہے ۔ جو زندگی کی ان غلاظتوں سے بلند ہو کر اس پاکیزہ مقام تک پہنچی ہے اور صرف امت مسلمہ کے لینڈ مارک شاہراہ تاریخ میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور عدل و انصاف کی اس بلند چوٹی تک پہنچنے کے لئے صرف امت مسلمہ نے راہیں متعین کی ہیں اور وہ اس میدان میں منفرد ہے ۔ رہی وہ گندگی اور وہ تعفن جسے جاہلیت قدیمہ اور جاہلیت جدیدہ میں عدالت کا نام دیا جاتا ہے تو مناسب یہی ہے کہ ہم اس گندگی کو دبی رہنے دیں کیونکہ اس پاکیزہ ماحول کو اس کا تعفن گندہ کر دے گا اور ہر طرف بدبو پھیل جائے گی ۔ مناسب ہے کہ اب ہم آیات پر ذرا تفصیل سے بات کریں۔ درس نمبر 39 تشریح آیات : 105۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 113۔ (آیت) ” نمبر 105 تا 113۔ A) بات نہات ہی سختی سے کہی جارہی ہے ‘ یوں نظر آتا ہے کہ سچائی کے حق میں غیض وغضب سے کام لیا جا رہا ہے اور عدل قائم کرنے کے لئے سخت غیرت کا اظہار کیا جارہا ہے اور جذبات ‘ بات کے ماحول اور فضا سے ظاہر ہو رہے ہیں ۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہو رہا ہے کہ حضور ﷺ کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب سچائی کے ساتھ نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ کی اس کتاب کے مطابق فیصلے کریں ۔ آپ کو سختی سے منع کیا گیا کہ آپ خائن لوگوں کے طرفدار نہ ہوجائیں اور نہ ان کی جانب سے دفاع کریں اور آپ نے جو مجادلہ ان خائن لوگوں کی طرف سے کیا ہے اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں ۔ (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما (105) واستغفر اللہ ان اللہ کان غفورا رحیما (106) (4 : 105۔ 106) (اے نبی ﷺ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے ‘ تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ‘ تم بدیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو ‘ ۔ اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو ‘ وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے ۔ A اس کے بعد اس ممانعت کو دوبارہ مکرر بیان کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کی طرف سے آپ نے خصومت کی وہ اپنے آپ سے خیانت کر رہے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ خائن ہیں اور اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (آیت) ” ولا تجادل عن الذین یختانون انفسھم ان اللہ لا یحب من کان خوانا اثیما (4 : 107) (جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہی تم ان کی حمایت نہ کرو ‘ اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو ۔ ) بظاہر تو انہوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ خیانت کی تھی لیکن درحقیقت وہ اپنے ساتھ خیانت کر رہے تھے ۔ انہوں نے اپنی جماعت اور پنے نظام کے خلاف خیانت کی ۔ اپنے اصولوں اور انکی ممتاز حیثیت کے خلاف خیانت کی ‘ انہوں نے اس امت کے خلاف خیانت کی جس کے وہ بھی افراد تھے ۔۔۔۔۔ پھر ایک دوسرے پہلو سے بھی وہ اپنے نفس کے خلاف خیانت کر رہے تھے ۔ وہ اپنے نفوس کو ایسے جرم میں ملوث کر رہے تھے جس کی سزا بہت ہی سخت تھی ۔ جہاں اللہ انہیں مجبور کرے گا اور پکڑ کر سزا دے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ اپنے نفس کے خلاف بھی خیانت ہے ۔ ایک تیسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جھوٹ کہہ کر اور جرم کر کے خیانت میں ملوث کر رہے تھے ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یحب من کان خوانا اثیما “۔ (4 : 107) (اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو) اور اللہ کی ناپسندیدگی تمام سزاؤں میں سے بڑی سزا ہے ۔ اس کے اندر ایک دوسرا اشارہ بھی ہے ‘ کہ جو لوگ اللہ کے محبوب نہیں ‘ چاہئے کہ کوئی ان کی حمایت نہ کرے ۔ کوئی ان کی وکالت نہ کرے ‘ اس لئے کہ ارتکاب جرم کرنے کی وجہ سے اللہ نے انہیں ناپسند کرلیا ہے ۔ ان لوگوں کو خیانت کار اور معصیت پیشہ کہنے کے بعد اب ان کی تصویر کشی اس طرح کی جاتی ہے اور ان کا پردہ یوں چاک ہوتا ہے : (آیت) ” یستخفون من الناس ولا یستخفون من اللہ وھو معھم اذیبیتون مالا یرضی من القول ۔۔۔۔۔ “۔ (4 : 108) (یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے ‘ وہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ راتوں کو چھپ کر اس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں ) انکی یہ تصویر نہایت ہی کریہہ المنظر ہے ۔ اس پر انسان کو بےاختیار ہنسی آتی ہے ۔ اس میں ان کی کمزوری اور سازش صاف صاف نظر آتی ہے ۔ یہ راتوں کو جمع ہوتے اور اپنا جرم چھپانے کی سازشیں کرتے ہیں اور خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لوگوں سے یہ اپنا جرم چھپا سکتے مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے ۔ لوگوں سے چھپنا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ لوگ تو انہیں نفع ونقصان سے نہی بچا سکتے ۔ اور جو ذات نفع ونقصان کی مالک ہے اس سے وہ چھپ نہیں سکتے ۔ وہ تو ان کے ساتھ ہوتی ہے جب وہ سازشیں کرتے ہیں ۔ وہ ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہے ۔ وہ ملمع کاری کرتے ہیں اور اللہ کی مرضی کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔ ان کا موقف کیسا بودا ہے کہ جس سے چھپاتے ہیں اس سے تو چھپ نہیں سکتے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ (آیت) ” وکان اللہ بما یعملون محیطا “۔ (4 : 108) (ان کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے) اگر اللہ مطلقا تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو وہ جو رات کو خفیہ سازشیں کرتے ہیں ان کا کیا فائدہ ہوگا ۔ اللہ تو اس مجلس میں ان کے ساتھ ہوتا ہے ہر چیز اس کی نظر میں ہے اور اس کے قبضے میں ہے ۔ اور یہ غضبناک حملہ ابھی جاری ہے اور اس کا اطلاق ان تمام لوگوں پر ہوتا ہے جو خائن لوگوں اور مجرموں کی طرف سے مجادلہ کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ھانتم ھولآء جدلتم عنھم فی الحیوۃ الدنیا فمن یجادل اللہ عنھم یوم القیمۃ ام من یکون علیھم وکیلا “۔ (4 : 109) (ہاں تم لوگوں نے ان مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کرلیا ‘ مگر قیامت کے روز ان کے لئے اللہ سے کون جھگڑا کرے گا ؟ آخر وہاں کون ان کا وکیل ہوگا ؟ اس بھاری دن سے تو وہ ہر گزنہ بچ سکیں گے ۔ ) خائنوں اور معصیت پیشہ لوگوں پر اس حملے کے بعد اور ان کے حامیوں ‘ مجادلوں اور وکیلوں کی مذمت کرنے کے بعد اب اس برے فعل کے بارے میں اور اس کے نتائج کے بارے میں اصولی بات کی جاتی ہے ۔ اس کا حساب و کتاب آخرت میں کیا ہوگا اور اس کی عمومی سزا کیا ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے ہیں اور پھر یہ کہ جو معاملہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم بھی مجرموں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھو اور اللہ کے بتائے ہوئے اخلاق اپناؤ خصوصا عدل و انصاف کے معاملے میں ۔
Top