Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 68
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌ١ؕ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَ١ؕ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ ۔ لَنَا : دعاکریں۔ ہمارے لئے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ ۔ لَنَا : بتلائے ۔ ہمیں مَا هِيَ : کیسی ہے وہ قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک وہ يَقُوْلُ : فرماتا ہے اِنَّهَابَقَرَةٌ : وہ گائے لَا فَارِضٌ : نہ بوڑھی وَلَا بِكْرٌ : اور نہ چھوٹی عمر عَوَانٌ : جوان بَيْنَ ۔ ذٰلِکَ : درمیان۔ اس فَافْعَلُوْا : پس کرو مَا : جو تُؤْمَرُوْنَ : تمہیں حکم دیاجاتا ہے
انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے دعا کر۔ ہمارے لیے بیان کرے کہ وہ گائے کیسی ہے (موسیٰ (علیہ السلام) نے ) کہا بیک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ عمر خوردہ (بوڑھی) اور نہ بچھیا (نو عمر) ہو۔ بلکہ اس کے درمیان میں ہو۔ پس کر ڈالو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے
ربط آیات : گزشتہ درس میں بنی اسرائیل کی حیلہ سازی کا ذکر ہوچکا ہے۔ انہوں نے احکام الٰہی حیلے بہانے سے ٹالنے کی کو کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے تعمق اختیار کیا۔ اور طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ پھر جوں جوں سوالات کرتے گئے۔ توں توں ان کی سختیاں بڑھتی گئیں آخر انہوں نے مجبور ہو کر گائے کو ذبح کیا۔ اور اس کا ایک ٹکڑا مردہ کے جسم کے ساتھ لگایا۔ تو وہ زندہ ہوگیا۔ پھر اس نے بتایا کہ اسے اس کے بھتیجوں نے دولت پر قبضہ کرنے کے لئے قتل کیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی مخفی بات کو ظاہر کردیا۔ قاتل کا یہ بھی ارادہ تھا کہ وہ مقتول چچا کی لڑکی کو حاصل کرلے گا۔ کیونکہ اس کی جائیداد کی وارث تو وہی تھی۔ نیز وہ اس لالچ میں تھا کہ مقتول کی لاش کو جس علاقے میں پھینکا گیا ہے۔ اس کی قریبی بستی کے لوگوں سے مقتول کی دیت بھی وصول کرلے گا۔ یہ تمام باطل خیالات اس کے دل میں جاگزیں تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس چیز کو تم چھپاتے ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ چناچہ ان کی ساری تدبیر ناکام ہوگئی۔ جب وہ قتل کا یہی مقدمہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لے کر گئے۔ تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے۔ کہ گائے ذبح کرو۔ یہ سن کر پہلے تو وہ بگڑ گئے۔ کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ ہم سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے نبی نے کہا۔ کہ میں ٹھٹھا نہیں کرتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو تمہیں پہنچا رہا ہوں۔ ٹھٹھا کرنا تو جاہلوں کا کام ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا۔ حدیث ریف میں آتا ہے (1 ۔ تفسیر در منثور ج 1 ص 77 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 111) کہ اگر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے حکم کی فوراً تعمیل کردیتے اور کوئی بھی گائے ذبح کردیتے۔ تو ان کا مسئلہ حل ہوجاتا۔ مگر ان کے مزاج میں فساد آچکا تھا۔ وہ لیت و لعل کرنے لگے۔ چناچہ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور وہ خود ہی پابندیوں میں جکڑے گئے۔ مصلحت الٰہی : مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 279) کہ بنی اسرائیل کے سوالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جس قسم کی گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اس کی تلا میں کافی وقت گزر گیا۔ تاہم اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت یہ تھی کہ اس طریقہ سے ایک غریب آدمی کی پرورش مقصود تھی روایات میں آتا ہے (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 279) کہ بنی اسرائیل کا ایک پرہیز گار آدمی فوت ہوگیا۔ اور اپنے پیچھے بیوہ۔ ایک بچہ اور ایک بچھڑا چھوڑ گیا۔ اس کے علاوہ اسکی کوئی جائیداد نہیں تھی۔ مرنے سے قبل اس شخص نے دعا کی تھی کہ مولا کریم میرے بچے کے لیے اس بچھڑے میں برکت ڈال دے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اس بچے کی نیک بختی اور سعادت مندی کے متعلق دو آیات آتی ہیں۔ امام ابن کثیر (رح) نے یہ واقعہ نقل کیا ہے (4 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 109) کہ ایک دفعہ اس کا باپ سویا ہوا تھا۔ اتنے میں باہر سے کوئی تاجر آیا۔ ہیرا فروخت کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بچے کو اسی ہزار میں ہیرا فروخت کرنے کی پیش کش کی۔ مگر بچے نے جواب دیا کہ میں اپنے باپ کی اجازت کے بغیر تم سے سودا نہیں کرسکتا۔ جب وہ اٹھے گا تو بات کریں گے ۔ تاجر نے کہا کہ باپ کو جگا لو۔ میں کم قیمت پر بھی ہیرا بیچ دوں گا۔ مگر لڑکا باب کے آرام میں مخل ہونے پر رضا مند نہ ہوا۔ تاجر کم سے کم قیمت لینے پر بھی تیار ہوا۔ مگر لڑکے نے کہا ۔ کہ میں اسی ہزار کی بجائے ایک لاکھ روپیہ دینا پسند کروں گا ۔ مگر باب کو بےآرام نہیں کرونگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس لڑکے کی نیکی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اسے برکت سے نوازا۔ بعض دوسری روایتوں میں آتا ہے (5 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 287 ، معالم التنزیل ج 1 ص 33) کہ اللہ تعالیٰ کا فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے پاس آیا اور بچھڑے کی قیمت دریافت کی۔ اور پھر دو دینار کی پیش کش بھی کردی۔ لڑکے نے کہا کہ میں اپنی والدہ سے پوچھے بغیر قیمت طے نہیں کروں گا۔ جب والدہ سے دریافت کیا تو وہ اتنی قیمت پر رضا مند نہ ہوئی۔ فرشتے نے زیادہ قیمت لگا دی۔ بچے نے پھر کہا کہ میں اپنی والدہ سے پوھ کر بتاؤں گا۔ مگر والدہ نے پھر انکار کردیا۔ غرض ! فرشتہ قیمت بڑھاتا رہا۔ اور لڑکا بار بار والدہ سے مشورہ کرتا رہا ۔ مگر والدہ کسی قیمت پر بھی بچھڑا بیچنے پر راضی نہ ہوئی۔ لہٰذا بچے نے گاہک کو مطلقا جواب دیدیا۔ اب فرشتے نے کہا ۔ کہ تم بڑے سعادت مند بیٹے ہو جو اپنی والدہ کی رائے کے بغیر ایک قدم نہیں چلتے تو سنو ! اس بچھڑے کو خریدنے کے لیے تمہارے پاس لوگ آئیں گے۔ مگر تم تھوڑی قیمت پر بچھڑا فروخت نہ کرنا یہ تمہیں مالدار کر دے گا۔ ادھر بنی اسرائیل کو ایسے بچھڑے کی تلا ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ نشانیوں پر پورا اترے پھرتے پھراتے انہیں یہی بچھڑا مل گیا۔ جس میں بیان کردہ تمام صفات پائی جاتی تھیں۔ جب انہوں نے قیمت چکانا چاہی۔ تو سودا نہ بن سکا۔ چناچہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آکر بتایا کہ مطلوبہ بچھڑا تو مل گیا ہے ۔ مگر ا س کا مالک مناسب قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شخص کو بلا بھیجا ، اور بچھڑا نہ دینے کی وجہ دریافت کی اس نے عرض کیا۔ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ہی بتائیں ۔ جب کہ میں اس کا مالک ہوں کیا میں اپنی مرضی کے مطابق اس کو تصرف میں لانے کا مجاز نہیں ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک تجھے اپنی مرضی کے مطابق تصرف کی اجازت ہے تو اس نے کہا کہ میں اس بچھڑے کے بدلے اس کا ہم وزن سونا لوں گا۔ اس سے کم قیمت پر راضی نہیں ہوتا۔ بعض دوسری روایتوں میں آتا ہے (1 ۔ درمثور ج 1 ص 76 ، تفسیر طبری ج 1 ص 255) کہ اس نے بچھڑے کی عام قیمت سے دس گناہ زیادہ قیمت طلب کی۔ تاہم ہم وزن سونے والی روایت زیادہ مشہور ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل نے وہ بچھڑا اس کے وزن کے برابر سونا دے کر حاصل کیا (2 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 255) اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ذبح کیا۔ گائے کی نشانیاں : الغرض ! بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں فوری طور پر کوئی گائے یا بچھڑا لے کر ذبح نہ کیا۔ بلکہ اس کے متعلق سوالات کرنے شروع کردیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں سوال و جواب کی تفصیل بتائی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ تو کہنے لگے “ قالوا ادع لنا ربک یبین لنا موھی ” اے موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے دعا کیجئے۔ کہ وہ ہمیں تفصیل سے بتائے کہ جس گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ کیسی ہو۔ “ قال انہ یقول ” موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “ انھا بقرۃ لافارض ولا بکر ” وہ گائے نہ تو بوڑھی ہے۔ اور نہ نو عمر بلکہ “ عوان بین ذلک ” دونوں عمروں کے درمیان ہو۔ “ فافعلوا ما تؤمرون ” پس کر ڈالو جس چیز کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اب بھی زیادہ سوال و جواب کے چکر میں نہ پڑو۔ بلکہ درمیانی عمر کی کوئی گائے لے کر ذبح کردو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جس کی فوری تعمیل ہونی چاہئے۔ مگر وہ بدبخت قوم پھر بھی تعمیل حکم پر آمادہ نہ ہوئی۔ بلکہ دوسرا سوال کردیا “ قالوا ادع لنا ربک ” یعنی اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمیں اپنے رب سے یہ پوچھ دیں “ یبین لنا ” وہ ہمیں واضح طور پر بتائے “ ما لونھا ” کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر اللہ تعالیٰ سے دریافت کرکے انہیں بتایا “ قال انہ یقول ” بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “ انھا بقرۃ صفرآء فاقع لونھا ” وہ گائے زرد رنگ کی صفت ہے۔ کہ وہ زرد بھی ہو اور گہرا بھی ہو۔ یہ رنگوں کے مختلف نام ہیں۔ اور پھر آگے ان کی صفات ہیں سفید رنگ کو ابیض اور سرخ کو احمر کہتے ہیں تو اس گائے کے رنگ کے متعلق فرمایا کہ وہ گہرا زرد ہو۔ “ تسر النظرین ” جو لوگوں کا دل لبھانے والا ہو۔ جسے دیکھ کر لوگ خوش ہوجائیں۔ بنی اسرائیل کے دل و دماغ میں تعمق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے تیسرا سوال کردیا۔ “ قالوا ادع لنا ربک ” اے موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے دعا کریں “ یبین لنا ماھی ” وہ ہمارے لیے بیان کرے کہ وہ گائے کیسی ہو۔ “ ان البقر تبہ علینا ” بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔ یعنی ہم ابھی تک اس کی ٹھیک ٹھیک نانشانیاں نہیں جان سکے اگر ہمیں اس کی پوری تفصیل سے آگاہ کردیا جائے “ وانا ان شآء اللہ لمھتدون ” تو بیشک اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم راہ پالیں گے۔ اس دفعہ انہوں نے اپنے مطالبہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ منسک کیا گویا یہ آخری بات تھی جو انہوں نے دریافت کی عام قانون بھی ہے “ ولا تقولن لشای ، انی فاعل ذلک غدا (23) الا ان یشآء اللہ ” یعنی جب کبھی کوئی مستقبل میں کام کرنا ہو۔ تو یوں نہ کہو کہ کل یا پرسوں ضرور کر دوں گا۔ بلکہ اس فعل کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کرو ۔ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایسا کردوں گا۔ مومن کی یہی شان ہے ، کہ وہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی توفیق کا طلب گار ہوتا ہے۔ اس آخری سوال کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا “ قال انہ یقول ” کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ “ انھا بقرۃ لاذلول تثیر الارض زلول ” کے لفظی معنی ہے ہموار کی گئی۔ اس لیے جس اونٹنی کو سواری کے لیے ہموار کرنے کے لئے محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو یہاں “ لاذلول ” کا مطلب یہ ہے کہ اس سے محنت نہ کرائی گئی ہو۔ کہ “ تثیر الارض ” کہ وہ زمین اکھاڑتی ہو۔ یعنی وہ کبھی ہل میں بھی نہ جوتی گئی ہو۔ “ ولا تسقی الحرث ” اور اس نے کبھی کھیتی کو سیراب نہ کیا ہو۔ یعنی کبھی اس سے پانی کھینچنے کی محنت بھی نہ لی گئی ہو۔ بلکہ گائے ایسی ہونی چاہئے۔ “ مسلمۃ ” جو بالکل صحیح سلامت ہو۔ “ لایۃ فیھا ” اس میں کوئی عیب نہ ہو۔ بالکل بےداغ ہو۔ بالآخر مجبور ہوگئے : الغرض ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو ان کے تمام سوالات کے جوابات دے دیے کہ مطلوبہ گائے کس عمر کی ہو۔ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہئے۔ اور پھر وہ ایسی ہونی چاہئے جس سے محنت کا کوئی کام نہ کیا گیا ہو۔ بلکہ صحیح سلامت اور بےداغ ہونی چاہئے۔ اب ان کے لیے فرار کا کوئی راستہ باقی نہ رہا ۔ آخر مجبور ہو کر کہنے لگے ۔ “ قالوا الئن جءت بالحق ” اے موسیٰ (علیہ السلام) اب آپ نے ٹھیک بات کہی ہے۔ حالانکہ بات تو انہوں نے پہلے بھی درست ہی بتائی تھی۔ مگر ان کے اپنے دماغ خراب تھے۔ جو عملدرآمد میں لیست و لعل کر رہے تھے اب انہوں نے سوچا کہ تعمیل حکم کرنی ہی پڑے گی۔ “ فذبحوھا ” تو مطلوبہ گائے تلاش کرنے اور اس کی بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد اسے ذبح کر ہی دیا۔ “ وما کادوا یفعلون ” حقیقت یہی ہے کہ وہ ایسا کرنے پر تیار نہیں تھے۔ مگر اب مجبور ہوگئے تھے۔ فضول رسومات کا اخسانہ : جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل خود اپنے اوپر پابندیاں عائد کرکے مجبور ہوگئے۔ یہ اصول آج بھی جاری ہے کہ جو شخص خود اپنے اوپر کوئی پابندی لگالے گا ۔ وہ خود ہی تنگ ہوگا۔ آج کل فضول رسومات میں کی اہو رہا ہے۔ جون جون لوگ بری رسمیں اپنے اوپر عائد کر رہے ہیں۔ ان میں جکڑے جا رہے ہیں۔ نہ خدا راضی اور نہ اس کا رسول راضی اور نہ خود ہی راضی رہ سکتے ہیں۔ یہی جہیز کی رسم کو لے لیں اس نے کس حد تک طول پکڑا ہے۔ فلاں چیز چاہئے۔ لڑکے والے خود مطالبہ کر رہے ہیں۔ کبھی ٹیلی ویژن کی فرمائش کبھی ریفریجریٹر چاہئے۔ کبھی کوٹھی اور کار کا مطالبہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ایک ایک کرکے اشیاء میں اضافہ ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی کی دسترس سے باہر ہوگیا۔ یہ سب اپنی ہی عائد کردہ پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ واقعہ قتل : فرمایا “ واذقلتم نفسا فادرءتم فیھا ” جب تم نے ایک جان کو قتل کیا پھر ایک دوسرے کے سرتھوپنے لگے۔ یہ ہے وہ اصل واقعہ جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ اور جسے بظاہر مقدمہ آنا چاہئے تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کو پہلے رکھا گیا اور اس واقعہ کو موثر کیا گیا۔ یہ واقعہ بھی میں نے عرض کردیا ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک دولتمند عامیل نامی آدمی کو اس کے بھتیجوں نے دل و دولت اور اس کی بیٹی کے حصول کی خاطر قتل کردیا اور پھر خود دیت وصول کرنے کے لئے قریبی بستی کے لوگوں پر قسامت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو تمام ظاہر اور مخفی چیزوں کو جانتا ہے۔ اس پروردگار نے ان کا راز فاش کردیا اور یہ طریقہ بتایا کہ گائے ذبح کرکے اس کے جسم کا ایک حصہ مقتول کو لگاو تو وہ زندہ ہو کر خود اپنے قاتل کا نام بتانے کا۔ اللہ تعالیٰ اسی چیز کو یہاں بیان فرما رہے ہیں۔ کہ تم تو حقیقت کو چھپا رہے تھے۔ “ واللہ مخرج ما کنتم تکتمون ” مگر اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ اس چیز کو جو تم چھپاتے ہو۔ زر ، زن اور زمین کی خاطر ظلم و ستم اور قتل و غارت ہر زمانے میں معمول رہا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ مگر یہ چیز ہر خوہشمند ۔۔۔ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے کہ وہ کسی کو کس طرح عطا کرتا ہے۔ یہاں تو بڑی بڑی عقلوں والے محروم رہ جاتے ہیں۔ اور بڑی بڑی تکالیف اٹھاتے ہیں۔ مگر ایک احمق آدمی زر و جو ہرات سے کھیل رہا ہوتا ہے۔ یہ تو منشائے یزدی ہے کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ احیلہ موتی بطور معجزہ : الغرض ! قاتل کا پتا چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا “ فقلنا اضربوا ببعضھا ” یعنی گائے کے گوشت کا ایک حصہ اس مقتول کی لاش پر مارو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا “ کذلک یحی اللہ الموتی ” اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اس مردے کو زندہ کر دے گا۔ اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ اس کے قاتل کون ہیں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اور مردہ زندہ ہوگیا۔ اس چیز میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہ گائے کا کون سا حصہ تھا جو مردہ پر مارا گیا۔ بعض روایات میں ۔۔۔ آتا ہے۔ بعض میں قلب اور بعض میں زبان بیان کیا گیا ہے (1 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 83 ، معالم التنزیل ج 1 ص 23 ، تفسیر مدارک ج 1 ص 561 ، تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 289) بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ اور معجزانہ طور پر ایسا ہوا تھا ۔ گائے کے گوشت میں ایسی کوئی تاثیر نہیں تھی۔ جس سے مردہ زندہ ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو قصاب ہزاروں جانور روز ذبح کرتے ہیں۔ وہ تو تمام مردے زندہ کرلیں۔ احیائے موتیٰ بالکل اسی طرح کا معجزہ تھا۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا۔ “ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ” کہ اس پتھر پر اپنی لاٹھی مارو تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ لاٹھیاں ہمارے پاس بھی ہیں۔ اور پتھر بھی بیشمار ہیں۔ مگر پانی نہیں نکلتا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے پانی میں مارنے کا حکم دیا تو بارہ راستے بن گئے۔ یہ سب معجزات تھے۔ بہرحال گائے کا ایک ٹکڑا مردے کو لگانے سے معجزانہ طور پر مردہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے قتل کیا تھا۔ تو اس نے صاف بتا دیا کہ اس کے قاتل اس کے بھتیجے ہیں اور یہ راز مجمع عام میں کھلا۔ لوگوں کو حقیقت کا علم ہوگیا۔ اس کے بعد وہ مردہ پھر اپنی مردہ حالت میں تبدیل ہوگیا۔ اس واقعہ میں یہ سبق پایا جاتا ہے۔ کہ جو مالک الملک اپنے حکم سے ایک مردہ کو زندہ کرسکتا ہے۔ وہ قیامت کے روز نماز مردوں کو قبروں سے زندہ نکالنے پر بھی قادر ہے اور اس قسم کے واقعات کا مشاہدہ اس لیے کرایا جاتا ہے۔ “ ویریکم ایتہ ” کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے جس سے تم عبرت حاصل کرو۔ “ لعلکم تعقلون ” تاکہ تم غور و فکر کرسکو۔ اللہ تعالیٰ کی ان آیات کے پی نظر اپنے لیے آخرت کی راہ متعین کرسکو۔ قاتل وراثت سے محروم ہے : بھتیجوں نے چچا کو اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ اس کی وراثت میں اس کا مال حاصل کرنا چاہئے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قاتل نہ صرف وراثت سے محروم ہوگئے۔ بلکہ الٹا انہیں مقتول کی دیت ادا کرنا پڑی۔ ہماری شریعت میں بھی قاتل وراثت سے محروم ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (1 ۔ احکام القرآن للجصاص ج 1 ص 26) “ القاتل لایرث ” قاتل وراثت کا حقدار نہیں ہوتا۔ اس نے جرم ہی ایسا بڑا کیا ہے۔ کہ وہ اپنے جائز حصے سے بھی محروم ہوگیا۔ امام مالک (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر قتل عمداً کیا ہو تو قاتل کی وراثت سے محروم ہوگا۔ اور اگر خطاء قتل ہوا ہے۔ تو وراثت کا حقدار ہے۔ باقی ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ قتل خواہ عمداً ہو یا غلطی سے۔ ہر حالت میں قاتل اپنے مقتول مورث کی وراثت سے محروم ہوجائے گا (2 ۔ احکام القرآن جصاص (رح) ج 1 ص 32) اسی طرح مسلمان غیر مسلم کا اور غیر مسلم مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔ حضور ﷺ کا فرمان (3 ۔ بخاری ج 2 ص 1001 ، مسلم ج 2 ص 33) ہے۔ “ لایرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم ” مثلاً اگر بیٹا مرزائی ہوجائے۔ تو وہ مسلمان باپ کی وراثت سے محروم ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر باپ مذہب تبدیل کرلے تو وہ بیٹے کی وراثت سے حصہ نہیں پاسکے گا۔
Top