Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ
: اور
لَقَدْ اٰتَيْنَا
: البتہ ہم نے دیں
مُوْسٰي
: موسیٰ
تِسْعَ
: نو
اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ
: کھلی نشانیاں
فَسْئَلْ
: پو پوچھ تو
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اِذْ
: جب
جَآءَهُمْ
: ان کے پاس آیا
فَقَالَ
: تو کہا
لَهٗ
: اس کو
فِرْعَوْنُ
: فرعون
اِنِّىْ
: بیشک میں
لَاَظُنُّكَ
: تجھ پر گمان کرتا ہوں
يٰمُوْسٰي
: اے موسیٰ
مَسْحُوْرًا
: جادو کیا گیا
اور البتہ تحقیق ہم نے دیں موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں واضح پس آپ پوچھ لیں بنی اسرائیل سے جب کہ وہ (موسی علیہ السلام) ان کے پاس آئے پس کہا فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہ میں گمان کرتا ہوں تیرے بارے میں اے موسیٰ ! کہ تو سحر زدہ ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ نے کفار ومشرکین کے تعصب ، ضد اور عناد کا ذکر کیا کہ وہ بیہودہ فرمائشیں کرتے تھے ، اللہ کی توحید کا انکار کرتے تھے رسالت ونبوت پر اعتراضات کرتے تھے اور معاد کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے ، ان اعتراضات کا جواب گذشتہ درس میں دیا جا چکا ہے اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نو نشانیوں اور فرعون اور قوم فرعون کی نافرمانی کا ذکر کیا ہے اس سے اہل ایمان کو یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح قوم فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی واض ح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائی تھی ، اسی طرح مشرکین اپنی مطوبہ نشانیاں پا کر بھی ایمان سے محروم ہی رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی استعداد کو جانتا ہے ، ان کی حالت تو یہ ہے کہ حسب فرمائش اگر ان کے آباؤ و اجداد کو زندہ کرکے ان کے سامنے لا کھڑا کریں تو تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے یہ ضدی اور عنادی لوگ ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو کبھی راہ راست کی طرف ہدایت نہیں دیتا بلکہ یہ گمراہی کی راہ پر ہی گامزن رہتے ہیں ۔ (موسی (علیہ السلام) کے نو معجزات) تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر فرمایا ہے (آیت) ” ولقد اتینا موسیٰ تسع ایت بینت “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو واضح نشانیاں عطا فرمائیں ، موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزات کی تعداد تو بہت زیادہ ہے تاہم نو وہ بڑے بڑے معجزات ہیں جن کا ذکر سورة اعراف میں موجود ہے ، ان معجزات میں (1) یدبیضا (2) عصا (3) قحط سالی (4) پھلوں میں کمی (5) طوفان (6) ٹڈی دل ( 7) جوئیں (8) مینڈک اور (9) خون شامل ہیں ، ان میں سے یدبیضا اور عصا وہ معجزات ہیں جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دے کر فرعون کے پاس بھیجا ۔ (دیگر نشانیاں) اس کے علاوہ موسیٰ (علیہ السلام) کی لکنت کا معجزہ بھی قرآن پاک میں مذکور ہے سورة طہ میں ہے کہ انہوں نے عرض کیا (آیت) ” واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی “۔ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھنے لگیں چناچہ اللہ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی سورة یونس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی مذکور ہے (آیت) ” ربنا اطمس علی اموالھم “۔ اے اللہ ! فرعونیوں کے مال کو مسخ کر دے یا بالکل مٹا دے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا بھی قبول فرمائی ، امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) سے تابعین میں سے محمد ابن کعب (رح) مفسر قرآن نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نو نشانیوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ان میں سے زبان کی لکنت اور طمس مال کا ذکر بھی کیا ، پھر آپ نے خادم سے ایک تھیلا لانے کو کہا ، اس کے تھیلے میں کچھ انڈے اور اخروٹ تھے جو دو ٹکڑے ہوچکے تھے مگر پتھر بن چکے تھے ، اس کے علاوہ تھیلے میں سے کچھ لوبیا ، چنے اور مسور برآمد ہوئے یہ سب چیزیں سنگریزوں میں تبدیل ہوچکی تھیں ، انہوں نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا کا یہ ایک نمونہ ہے جو خاندانی طور پر ان کے پاس پہنچا ہے گویا اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے اموال کو اس طرح مسخ کردیا یا مٹا دیا کہ کھانے پینے کی چیزیں استعمال کے قابل نہ رہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعض دیگر نشانیوں میں ارتفاع طور بھی ہے سورة البقرۃ میں موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ورفعنا فوقکم الطور “۔ (آیت 93) ہم نے پہاڑ کو ان کے سروں پر معلق کردیا اور کہا کہ توبہ کرو ، ورنہ یہ پہاڑ تمہیں پیس ڈالے گا ، اسی طرح بادلوں کے سائے کی نشانی بھی قرآن میں مذکور رہے (آیت) ” وظللنا علیکم الغمام وانزلنا علیکم المن والسلوی “ (البقرہ ، 57) میدان تیہ کی چالیس سالہ نظر بندی کے دوران جب بنی اسرائیل کے خیمے پھٹ گئے تو اللہ نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا ، اور انہیں من وسلوی میں جیسی بلا مشقت اور تروتازہ غذا بہم پہنچائی تفسیری روایات میں آتا ہے کہ اللہ نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا اور انہیں من وسلوی جیسی بلامشقت اور تروتازہ غذا بہم پہنچائی تفسیری روایات میں آتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے روشنی کا انتظام بھی فرمایا دیا ، رات کو روشنی کا ایک مینار چمکتا تھا جس کی روشنی بنی اسرائیل کے تمام خیموں تک پہنچتی تھی جب بنی اسرائیل نے پانی کی درخواست کی تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ اس پتھر پر لاٹھی مارو (آیت) ” فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا “۔ تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہوگئے ، اور پھر بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستے بنا دیے (آیت) ” فانجینکم واغرقنا ال فرعون “۔ فرمایا اس طرح ہم نے تمہیں نجات دی اور فرعونیوں کو غرق کردیا ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر بہت سی نشانیاں ظاہر فرمائیں جن میں نو بڑی بڑی تھیں ، اللہ نے اس آیت میں انہی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ (دس احکام) حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پر یہودیوں نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ہمیں موسیٰ (علیہ السلام) کی نو واضح نشانیوں کے متعلق بتائیں تو آپ نے ان نشانیوں کے بجائے دس احکام کا ذکر فرمایا اور ساتھ یہ بھی کہ ا کہ ان میں سے نو احکام ہمارے اور بنی اسرائیلیوں کے درمیان مشترکہ ہیں جب کہ دسواں حکم صرف ان کے لیے تھا ، فرمایا دس احکام یہ ہیں (1) شرک نہ کرو (2) چوری نہ کرو (3) زنانہ کرو (4) ناحق خون نہ کرو ، (5) جادو نہ کرو (6) سود نہ کھاؤ (7) بیگناہ کو حاکم سے سزا نہ دلواؤ (8) پاکدامن عورتوں پر تہمت نہ لگاؤ (9) جہاد سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو (10) ہفتے کے دن کی تعظیم کرو بنی اسرائیل کو ہفتے کے دن صرف عبادت کرنے کا حکم تھا ، اس دن تجارت ، ملازمت ، کھیتی باڑی ، محنت مزدوری وغیرہ کرنے کی ممانعت تھی ، بعض محدثین نے اس حدیث کو مجروح قرار دیا ہے تاہم صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث قابل اعتماد ہے جسے امام ترمذی (رح) اور بعض دوسرے محدثین نے بھی نقل کیا ہے ۔ یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے تو نو نشانیوں کے متعلق پوچھا تھا مگر حضور ﷺ نے جواب میں دس احکام کا ذکر کیسے فرمایا ؟ محدثین فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا یہ جواب علی طریق اسلوب الحکیم تھا یعنی مخاطب کو حکمت کے طریقے پر بات سمجھائی گئی تھی حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ تم نو نشانیوں کو معلوم کرکے کیا کرو کے ، ان کی بجائے یہ دس احکام سیکھو جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور جن کی وجہ سے انسان کو نجات نصیب ہو سکتی ہے ۔ (موسی (علیہ السلام) اور فرعون میں مکالمہ) آگے اللہ نے بنی اسرائیل کو تنبیہ کرنے کے لیے فرمایا ہے (آیت) ” فسئل بنی اسرائیل اذ جآء ھم “۔ پس آپ پوچھ لیں بنی اسرائیل سے جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آئے (آیت) ” فقال لہ فرعون “ تو فرعون نے آپ سے کہا (آیت) ” انی لاظنک یموسی مسحورا “۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں تو تجھے سحر زدہ گمان کرتا ہوں ، کسی نے تجھ پر جادو کردیا ہے جو تو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے سوا کوئی اور خدا بھی ہے جس کی بادشاہی پوری کائنات پر ہے ، نیز یہ کہ تم خدا کا فرستادہ رسول ہے ، قیامت آنے والی ہے اور محاسبہ اعمال کا وقت آئے گا سورة الشعرآء میں فرعون کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں ، (آیت) ” ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون “۔ (آیت 27) یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، یہ (معاذ اللہ) دیوانہ ہے ایک جگہ پر مھین کا لفظ بھی آتا ہے یعنی یہ ایک حقیر آدمی ہے اس کی ساری قوم ہماری غلام ہے ، بھلا یہ ہم پر کیسے فوقیت رکھتا ہے ، فرعون کے اس بہتان کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے نرمی اختیار نہیں کی بلکہ فرعون کو ترکی بہ ترکی جواب دیا (آیت) ” قال لقد علمت ما انزل ھؤلآء الا رب السموت والارض “۔ فرمایا ، اے فرعون ! تو خوب جانتا ہے کہ یہ نشانیاں آسمان و زمین کے پروردگار نے نازل فرمائی ہیں اور میرے ہاتھ پر ظاہر کی ہیں ، ایسی نشانیاں ہیں جو ” بصآئر بصیرت پیدا کرنیوالی ہیں ، ان نشانیوں کے ذریعے انسانوں کے دلوں میں روشنی کی کرن پیدا ہوتی ہے اور وہ حق سمجھنے لگتے ہیں ، یہ نشانیاں دیکھ کر انسان اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” وانی لاظنک یفرعون مثبورا ‘ ۔ بیشک میں تو تجھے ہلاکت زدہ خیال کرتا ہوں اگر تو اتنی واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتا تو ضروری ہے کہ تو عنقریب ہلاک ہونے والا ہے ۔ (فرعون کا تذبذب) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت فرعون عجیب تذبذب کا شکار تھا ایک طرف اسے اپنی سلطنت ، فوج ، حواریوں اور سرمائے پر غرور تھا جس کے ذریعے وہ ہر مخالف طاقت کو کچلنے کے لیے تیار تھا ، مگر دوسری طرف وہ بنی اسرائیل کی کثرت تعداد سے خائف بھی تھا حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں آپ کے خاندان کے صرف بہتر (72) افراد مصر میں آباد ہوئے تھے مگر فرعون کے زمانے تک ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار ہوچکی تھی ، سورة النمل میں موجود ہے (آیت) ” وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا “۔ (آیت 14) فرعونیوں نے بظاہر تو موسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا مگر ان کے دل تسلیم کرچکے تھے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے ، یہ انسانی کام نہیں ہے ، سمجھتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بات سچی ہے مگر ان کا غرور وتکبر تسلیم کرنے سے قاصر تھا اس سے پہلے کاہن بھی بتا چکے تھے کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری سلطنت کے خاتمے کا باعث بنے گا چانچہ اس نے بنی اسرائیل کے نوے ہزار بچوں کو ذبح بھی کروا دیا مگر اس کے دل میں خوف بدستور موجود تھا چناچہ ایسا ہی ہوا اللہ اس بچے کی پرورش خود فرعون کے گھر میں ہی کروائی ، بالاخر اس بچے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کا مقابلہ کیا اور وہ مع لشکر سمندر میں غرق ہوگیا ۔ (فرعونیوں کی غرقابی) بہرحال فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کے خوف سے (آیت) ” فاراد ان یستفزھم من الارض “۔ ارادہ کیا کہ بنی اسرائیل کے قدم اپنی سرزمین سے اکھاڑ دے ، اور انہیں ملک بدر کر دے مگر دوسری طرف وہ یہ بھی دیکھتا تھا کہ بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد ان کی غلام ہے ، کھیتی باڑی ، تجارت اور محنت مزدوری کرتی ہے وہ کماتے ہیں اور ہم کھاتے ہیں اگر ان کو مصر سے نکال دیا گیا تو ہمارا سارا معاشی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا ، یہی وجہ ہے کہ جب موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) نے فرعون سے کہا کہ ہم تیری طرف رب العالمین کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں (آیت) ” ارسل معنا بنی اسرائیل “۔ (الشعراء 17) بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے تو اس نے صاف انکار کردیا تھا ۔ بہرحال فرعون تذبذب کا شکار تھا فرمایا ابھی اس نے ارادہ کیا کہ بنی اسرائیلیوں کے پاؤں زمین سے اکھیڑ دے (آیت) ” فاغرقنہ ومن معہ جمیعا “۔ پس ہم نے اس کو اور اسکے تمام ساتھیوں کو غرق کردیا ، امراء وزراء ، مصاحب حواری وغیرہ سب کو بحر قلزم میں ڈوب کر ہلاک ہوئے جیسا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ، اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں بارہ راستے بنا دیئے تھے جن کے ذریعے انہوں نے سمندر کو پار کرلیا ، مگر جب انہوں راستوں سے فرعونیوں نے گزرنے کی کوشش کی (آیت) ” فغشیھم من الیم فاغشیھم “۔ (طہ ، 78) پھر پانی نے انہیں اس طرح گھیر لیا کہ کچھ نہ پوچھو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تعاقب کرنے کے تمام فرعونی پانی کی لہروں کی نذر ہوگئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ۔ (حشر میں اجتماع) جب فرعون مع اپنے لشکروں کے ہلاک ہوگیا (آیت) ” وقلنا من بعدہ لبنی اسرآئیل “۔ کو اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا (آیت) ” اسکنوا الارض “۔ تم سب زمین میں رہو ، اس سے مراد سرزمین شام و فلسطین ہے مصر سے نکل کر اور بحرقلزم کو عبور کرکے بنی اسرائیل صحرائے سینا میں پہنچ چکے تھے ، اس لیے واپس مصر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، پھر یہ لوگ چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرتے رہے ، موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) یہی فوت ہوئے یہاں رہتے ہوئے بنی اسرائیل کو ستر سال گزر گئے اور ان کی پرانی نسل ختم ہوگئی پھر نئی نسل نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جانشین حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کی قیادت میں سرزمین شام و فلسطین کو فتح کیا اور اس میں آباد ہوگئے ۔ فرمایا تم یہیں آباد رہو (آیت) ” فاذا جاء وعد الاخرۃ جئنا بکم لفیفا “۔ پھر جب آخرت کا وعدہ آپہنچے گا ، تو ہم تم سب کو لپیٹ کرلے آئیں گے یعنی میدان حشر میں سب کو اکٹھا کرلیں گے ، واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح قوم فرعون نے ضد اور تعصب کی بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور پھر ہلاک ہوئے اس طرح رسالت اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لائے بلکہ بنی اسرائیل کی طرح نشانیاں ہی طلب کرتے رہے تو ان کا حشر بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا ۔
Top