Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دیں مُوْسٰي : موسیٰ تِسْعَ : نو اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : کھلی نشانیاں فَسْئَلْ : پو پوچھ تو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَقَالَ : تو کہا لَهٗ : اس کو فِرْعَوْنُ : فرعون اِنِّىْ : بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ مَسْحُوْرًا : جادو کیا گیا
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو عطا کی تھیں نو کھلی نشانیاں، پس تم پوچھ لو بنی اسرائیل سے کہ جب موسیٰ ان کے پاس آیا تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تجھے یقینی طور پر ایک جادو کا مارا ہوا انسان سمجھتا ہوں،
186۔ ایمان و ہدایت سے سرفرازی کی اصل بنیاد طلب صادق ہے :۔ سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ایمان و ہدایت سے سرفرازی کا ذریعہ معجزات نہیں بلکہ طلب صادق ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا ” اور بلاشبہ ہم ہی نے موسیٰ کو عطا کی تھیں نوکھلی نشانیاں “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی نشانیوں اور عظیم معجزات سے نوازا تھا۔ تفسیر مراغی واغیرہ میں اس موقع پر سولہ بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس لئے ان نونشانیوں کی نعیین و تخصیص میں حضرات علماء ومفسریں کرام کے اقوال مختلف ہیں۔ ابن جریر اور ابن منذر وغیرہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ وہ نونشانیاں یہ ہیں۔ عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، سنین اور نقص ثمرات۔ (روح، ابن کثیر، مراغی، اور صفوۃ وغیرہ) ۔ مگر اس قدر کھلی نشانیوں کے باوجود فرعون اور اس کے اعوان و انصار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے اور الٹا فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں تم کو ایک جادو کا مارا ہوا شخص سمجھتا ہوں۔ یہاں تک کہ وہ غرق دریا ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فی النار والسقر ہوگئے۔ اسی طرح تم لوگوں کی فرمائش کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ تمہارے فرمائشی معجزے ظاہر کردیئے جائیں تو تم نے بھی نہیں ماننا۔ جس کے نتیجے میں تم نے بھی تباہی کے اسی گھاٹ پر اترنا ہے۔ جس پر فرعون اور اس کی جماعت اتر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بےلاگ اور سب کیلئے یکساں ہے سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو ایمان و ہدایت سے سرفرازی کا ذریعہ معجزات نہیں بلکہ طلب صادق ہے۔ 187۔ فرعون کا فرعونیت بھرا جواب :۔ سو فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعونیت بھرا جواب دیا اور نہایت متکبرانہ اور گستاخانہ انداز تخاطب کیا۔ یعنی اس قدر عظیم الشان معجزات اور نشانیاں دیکھنے کے باوجود اس لعین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا تھا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان کثرت معجزات سے نہیں ملتا بلکہ اس کی اصل اساس و بنیاد طلب صادق ہے۔ سو طلب صادق اگر آدمی کے اندر موجود نہ ہو تو کتنے ہی معجزات پیش کردیئے جائیں ہٹ دھرم لوگ پھر بھی نہیں مانتے۔ سو انسان کے بناؤبگاڑ کا اصل تعلق اس کے قلب وباطن سے ہے فبااللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
Top