Mazhar-ul-Quran - Al-Waaqia : 27
وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : اور دائیں ہاتھ والے مَآ : کیا ہیں اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ : دائیں ہاتھ والے
اور جو1 داہنی طرف والے ہیں وہ داہنی طرف والے کیسے اچھے (جنتی) ہیں۔
(ف 1) مقربین کے حال کے بعد یہ داہنے ہاتھ والوں کا حال فرمایا کہ ان کا بھی کیا کہنا وہ بھی بڑے رتبہ والے ہیں ان کو بھی ہر طرح کی نعمت و سرور ہے وہ بیریوں کے سایہ میں عیش کریں گے دنیا کی بیریوں میں کانٹے ہوتے ہیں ، جنت کی بیریوں میں سایہ ہوگا پھل ہوں گے مگر کانٹے نہ ہوں گے دنیا کے لمبے درختوں کا نیچے کا حصہ پھل سے خالی ہوتا ہے جنت کے درخت ایسے نہیں ہیں ان میں جڑ کے پاس سے ہی میوے کی شاخیں شروع ہوجاتی ہیں معتبر سند سے بیہقی کی عبداللہ بن عباس کی حدیث ہے کہ جنت کی چیزوں کے فقط نام دنیا کی چیزوں سے ملتے ہوئے ہیں ورنہ جنت کی چیزوں کے آگے دنیا کی چیزوں کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اس لیے ان بیروں اور کیلوں کے مزہ کو دنیا کے بیروں اور کیلوں پر قیاس نہ کرنا چاہیے ۔ صحیح و بخاری مسلم اور ترمذی میں ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بعضے سایہ دار درخت ایسے ہیں ان کا سایہ سوار آدمی سے بھی سو برس کے عرصے میں طے نہیں ہوسکتا، حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی معتبر روایتوں کے موافق جنت میں نہ سورج ہے نہ دھوپ، وہاں تو ہمیشہ ایسا وقت رہے گا جیساوقت دنیا میں طلوع فجر سے سورج کے نکلنے تک رہتا ہے اس لیے وہاں کا سایہ فقط تفریح کے لیے ہوگا، مسند امام احمد اور ترمذی میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جنت میں دودھ۔ شہد، شراب اور میٹھے پانی کے دریا ہیں جس میں یہ چیزیں بہہ کر جنت کے ہر ایک مکان کی نہروں میں آئیں گی اور ہمیشہ وہ نہریں جاری رہیں گی اور یہی حدیث ماء مسکوب کی تفسیر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ میٹھے پانی کے دریا میں سے جنت کی نہروں میں پانی گرے گا اور ہمیشہ جاری رہے گا ۔ صحیح بخاری ومسلم کی حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث مشہور ہے جس میں نبی نے سورج گہن کی نماز پڑھنے میں جنت اور دوزخ کو دیکھا اور جنت کی انگور کی بیل میں سے ایک خوشہ توڑنا چاہا پھر آپ نے وہ خوشہ نہیں توڑا اور فرمایا کہ اگر میں اس خوشہ کو توڑ لیتا تو قیامت تک اس کے انگورکھایا کرتے۔ یہ حدیث وفاکھۃ کثیرہ کی گویا تفسیر ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ جنت کے میوے کا ایک ایک خوشہ ہزاروں آدمیوں کے ہزارہا برس کے کھانے کے قابل میوے سے لدا ہوا ہے ۔ لامقطوعۃ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ کہ جس طرح دنیا کے میوے خاص خاص موسم پر ہوتے ہیں اور موسم کے بعد ان کی پیداوار کا سلسلہ مقطوع اور منقطع ہوجاتا ہے جنت کے میووں کا یہ حال نہیں ہے کہ بلکہ وہاں ہر موسم میں کل میوے موجود ہوں گے۔ لاممنوعۃ۔ کی تفسیر انہیں کے قول کے موافق یہ ہے کہ لیٹے بیٹھے ہر حالت میں جنتی لوگ جنت کے پیڑوں کامیوہ کھاسکیں گے کسی حالت میں کچھ روک ٹوک نہ ہوگی، فرش مرفوعہ کا یہ مطلب ہے کہ کئی کئی بچھونے اوپر تلے بچھانے سے وہ بچھونے اونچے ہوجائیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بچھونوں سے مراد عورتیں فضل و جمال میں بلنددرجہ رکھتی ہوں گی آگے فرمایا کہ ہم نے دنیا کی مسلمان عورتوں کو وہاں نئی پیدائش دی ہوگی بعدازاں کہ مرکرخاک میں مل گئی ہوں گی مگر پھر نرم ونازک بن جائیں گی ان کو کنواریاں خوبصورت ، زیباشمائل بنادیا ہوگا، اور ناز وانداز کرشمہ واد اور والیاں خاوندوں کی عاشق اور معشوق ہوں گی اور وہ ان سے نہ بڑی ہیں نہ چھوٹی بلکہ ہم عمر ہیں یہ نعمتیں ہر ایک کو نصیب نہیں بلکہ خاص ان لوگوں کے لیے جن کے داہنے ہاتھوں میں اعمال نامہ ہوں گے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جنتی جنت کے بیوی کے چہرہ کو جو دیکھے گا تو پائے گا اس رخسارہ کو کہ آئینہ سے بھی زیادہ صاف و شفاف ہوگا اورادنی موتی اس پر ایسا ہوگا کہ تمام مشرق ومغرب کو روشن کردے گا۔
Top