Mazhar-ul-Quran - Al-Hijr : 89
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ
وَقُلْ : اور کہ دیں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَنَا : میں النَّذِيْرُ الْمُبِيْنُ : ڈرانے والا علانیہ
اور فرماؤ : میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا (اس عذاب سے)
آنحضرت ﷺ کو نصیحت کرنے کا حکم اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے رسول ﷺ کو حکم فرمایا کہ تم لوگوں سے کہہ دو کہ میں ویسا ہی ڈرانے والا ہوں جس طرح پہلے رسولوں نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا اور قوم نے ان رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایذا رسانی پر قسمیں کھا بیٹھے۔ آخر ان پر عذاب نازل ہوا مثلا جیسے ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت پر آپس میں قسما قسمی کی تھی جس کا ذکر سورة النحل میں آوے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ بانٹنے والوں سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں چونکہ وہ قرآن کریم کے کچھ حصہ پر ایمان لائے جو ان کے خیال میں ان کی کتابوں کے موافق تھا کچھ کے منکر ہوگئے۔ بعض مفسروں (مفسرین) نے یہ بیان کیا ہے کہ بانٹنے والون سے کفار قریش مراد ہیں۔ یہ چند آدمی تھے انہوں نے ولید بن مغیرہ کے حکم سے حج کے زمانے میں مکہ کے رستوں کو روکا کہ مسافر شخص ادھر سے گزرے تو اس کو محمد ﷺ کی طرف سے بہکایا جاوے اور یہ کہا جائے نعوذ باللہ من ذالک یہ شخص مجنون ہیں۔ ہمارے دین سے نکل گئے ہیں کوئی ان سے دھوکہ نہ کھائے اور کبھی جادوگر کہتے تھے اسی طرح کبھی قرآن کو جادو کہتے تھے کبھی پہلے لوگوں کی کہانیاں کہتے تھے، غرضیکہ انہیں کے اکثر لوگ طرح طرح کے مرضوں سے فورا ہلاک ہوگئے۔ اسی واسطے ان آیتوں میں فرمایا : اے محبوب ﷺ ان باقی لوگوں کو ڈر سنا دو کہ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت کے موافق راہ راست پر نہ آویں گے تو وہی انجام ان کا ہوگا اور پھر ان سب کو اپنے عملوں کے موافق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جواب دہی کرنی پڑے گی۔
Top