Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 26
اَلْمُلْكُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ١ؕ وَ كَانَ یَوْمًا عَلَى الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا
اَلْمُلْكُ : بادشاہت يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : سچی لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے وَكَانَ : اور ہے۔ ہوگا يَوْمًا : وہ دن عَلَي الْكٰفِرِيْنَ : کافروں پر عَسِيْرًا : سخت
اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل ہوگا
الملک یومئذ الحق للرحمن اس روز (حقیقی) حکومت رحمن ہی کی ہوگی۔ یعنی اس روز حق اور واقعی لازوال حکومت رحمن کی ہی ہوگی کسی دوسرے کی (ظاہری اور مجازی طور پر بھی) نہیں ہوگی۔ وکان یوما علی الکافرین عسیرا۔ اور وہ دن کافروں کے لئے سخت دشوار دن ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس دن کے متعلق دریافت کیا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار برس کے برابر ہوگی (اور عرض کیا گیا) کیسا لمبا دن ہوگا (اور اتنا لمبا وقت کیسے کٹے گا) حضور ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مؤمن کے لئے وہ بہت ہلکا ہوگا یہاں تک کہ فرض نماز کے (ایک) وقت سے بھی اس کے لئے زیادہ آسان (اور چھوٹا) ہوگا۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے عقبہ بن ابی معیط کا دستور تھا کہ جب سفر سے واپس آتا تھا کھانا تیار کراتا اور اپنی قوم کے بڑے بڑے لوگوں کی دعوت کرتا تھا۔ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس زیادہ بیٹھتا تھا ایک روز سفر سے واپس آکر کھانا تیار کرایا اور لوگوں کی دعوت کی رسول اللہ ﷺ کو بھی کھانے کے لئے بلایا ( آپ ﷺ : تشریف لے گئے) جب عقبہ نے کھانا لا کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا ‘ میں اس وقت تک تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت نہ دو گے ‘ عقبہ نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا اور حضور ﷺ نے اس کا کھانا کھالیا عقبہ اُ بی بن خلف کا دوست تھا (اور ابی سخت کافر تھا) ابی کو عقبہ کے کلمۂ شہادت پڑھنے کی اطلاع ملی تو اس نے عقبہ سے کہا عقبہ تم بےدین ہوگئے عقبہ نے کہا نہیں تو خدا کی قسم میں تو بےدین نہیں ہوا۔ بات صرف یہ تھی کہ میرے گھر ایک آدمی آیا اور بغیر کلمۂ شہادت پڑھوائے میرا کھانا کھانے سے اس نے انکار کردیا میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ میرے گھر سے بغیر کھانا کھائے چلا جائے اس لئے میں نے شہادت دے دی اور اس نے کھانا کھالیا ابی نے کہا میں اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گا جب تک تم جا کر اس کے منہ پر تھوک نہ دو گے ‘ عقبہ نے جا کر ایسا کردیا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا میں نے بھی اگر مکہ کے باہر تجھے پا لیا تو تیرے سر پر تلوار مار دوں گا (یعنی تجھے قتل کر دوں گا۔ چناچہ عقبہ کو بدر کے دن بندھوا کر قتل کردیا گیا۔ رہا ابی تو اس کو احد کے دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے قتل کردیا۔ ابن جریر نے یہ روایت مرسل بھی نقل کی ہے اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔ ابی نے عقبہ سے کہا میں تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک اس کی گردن کو پاؤں سے روند نہ دو گے ‘ اور اس کے منہ پر تھوک نہ دو گے۔ چناچہ عقبہ نے جب دارالندوہ میں حضور ﷺ کو سجدے کی حالت میں پایا تو وہ ایسا کر گزرا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا جب میں مکہ کے باہر تجھ کو پاؤں گا تو تیرے سر پر تلوار ماروں گا بدر کے دن عقبہ قید کرلیا گیا ‘ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ : کو عقبہ کے قتل کردینے کا حکم دیا اور مقابلہ کے وقت ابی کے بھالا مارا پھر ابی مکہ کو لوٹ گیا اور مرگیا۔ عقبہ اور ابی کے متعلق آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top