Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 283
وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلٰى سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِهٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ١ؕ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ١ؕ وَ لَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ١ؕ وَ مَنْ یَّكْتُمْهَا فَاِنَّهٗۤ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۠   ۧ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر وَّلَمْ : اور نہ تَجِدُوْا : تم پاؤ كَاتِبًا : کوئی لکھنے والا فَرِھٰنٌ : تو گرو رکھنا مَّقْبُوْضَةٌ : قبضہ میں فَاِنْ : پھر اگر اَمِنَ : اعتبار کرے بَعْضُكُمْ : تمہارا کوئی بَعْضًا : کسی کا فَلْيُؤَدِّ : تو چاہیے کہ لوٹا دے الَّذِي : جو شخص اؤْتُمِنَ : امین بنایا گیا اَمَانَتَهٗ : اس کی امانت وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا تَكْتُمُوا : اور تم نہ چھپاؤ الشَّهَادَةَ : گواہی وَمَنْ : اور جو يَّكْتُمْهَا : اسے چھپائے گا فَاِنَّهٗٓ : تو بیشک اٰثِمٌ : گنہگار قَلْبُهٗ : اس کا دل وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْم : جاننے والا
اور اگر تم سفر پر ہواور (دستاویز) لکھنے والا مل نہ سکے تو (کوئی چیز) رہن یا قبضہ رکھ کر (قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
(بقیہ حاشیہ سابقہ آیت) مسئلہ شاہد کے لیے کتابت کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ اس واقعہ کو یاد کرے جس کی اس کو شہادت دینی ہے جب تک اس کو خود اپنا مشاہدہ (تفصیل کے ساتھ) یاد نہ ہو محض تحریر پر اپنی دستخط دیکھ کر گواہی دینا جائز نہیں۔ (کذا ذکر القدوری وغیرہ۔ ) صاحب ہدایہ نے لکھا ہے یہ امام اعظم (رح) کا قول ہے لیکن صاحبین کے نزدیک صرف اپنی دستخط دیکھ کر شہادت دینی جائز ہے خواہ اپنا معاینہ اس کو یاد نہ ہو بعض فقہاء کہتے ہیں کہ صرف دستخط دیکھ کر شہادت کا ناجائز ہونا بالاتفاق ہے اختلاف اس امر میں ہے کہ کیا حاکم بھی ایسی شہادت پر ڈگری دیدے یا نہ دے۔ اسی طرح اس تحریر کا حکم ہے جو مدعی کے پاس ہو اور گواہوں کی شہادت اس میں درج ہو کیونکہ ایک تحریر دوسری تحریر کے مشابہ ہوسکتی ہے اور دستاویز میں ردو بدل کئے جا نے کا احتمال ہے۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر تحریر شہادت شاہد کے قبضہ میں ہو تو گو اس کو معاینہ اور شہادت یاد نہ ہو لیکن اس کے مطابق شہادت دینا اس کے لیے جائز ہے کیونکہ ایسی تحریر میں تغیر کا احتمال نہیں ہے۔ یہ قول صاحبین کا ہے لیکن امام اعظم عدم جواز کے قائل ہیں صاحبین کے قول کی دلیل یہ ہے کہ تحریر میں جب ردو بدل کا احتمال ہی نہیں تو وہ یاد داشت کی طرح مانی جائے گی۔ دیکھو صحابہ اور تابعین رسول اللہ کی تحریروں پر ویسا ہی عمل کرتے تھے جیسا زبانی احکام پر کرتے تھے حضرت عبد اللہ بن جحش کی تحریر والا قصہ آیت : یَسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ کی تفسیر کے ذیل میں گذر چکا ہے۔ امام صاحب (رح) کی دلیل یہ ہے کہ شہادت مشاہدہ پر موقوف ہے اسی لیے لفظ شہادت ضروری ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم آفتاب کی طرح دیکھ لوتو شہادت دو (پس تحریر کا یاد داشت کے حکم میں ہونا تحریر کو مشاہدہ نہیں بنا دیتا اور قطعی مشاہدہ کے بغیر شہادت درست نہیں اس لیے صرف اپنی دستخطی تحریر کو دیکھ کر شہادت دینا درست نہیں) ۔ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيْرُوْنَهَا بَيْنَكُمْ : ہاں اگر دست بدست تجارت ہو جس کا لین دین تم فوراً کرتے ہو تو۔ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا ۭ : (اس کو نہ لکھنے کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ اَنْ تَکون میں ضمیر اسم ہے اور تجارۃ خبر۔ بعض قاری تجارۃٌ حاضرۃٌ رفع کے ساتھ پڑھتے ہیں اور تدیرونھا کو خبر قرار دیتے ہیں جمہور کی قراءت پر تدیرونھا تجارت کی صفت ہے بشرطیکہ تکون کو تامہ قرار دیا جائے اور تجارت کو مرفوع پڑھا جائے اور اگر تکون کو ناقصہ اور تجارت کو اس کا اسم کہا جائے گا تو تدیرونھا خبر ہوگی۔ لفظ حاضرۃٌ عام ہے خواہ مبادلہ عین کا عین سے ہو یا کسی چیز کو قیمت سے خریدا جائے مگر ہو دست بدست نقد۔ وَاَشْهِدُوْٓا اِذَا تَبَايَعْتُمْ ۠: اور خریدو فروخت کے وقت گواہ بنا لیا کرو۔ ضحاک اور داؤد نے (ظاہر لفظ کے لحاظ سے) امر کو وجوب کے لیے قرار دیا ہے لہٰذا فروخت نقد قیمت پر ہو یا ادھار پر بہرحال گواہ بنا لینا لازم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا : شروع میں وجوب تھا لیکن آیت : فَاِنْ اَمِنَ بَعضکم بعضًا سے یہ وجوب منسوخ ہوگیا۔ جمہور کے نزدیک امر استحبابی ہے (بہتر ہے کہ گواہ بنا لیا کرو) بکثرت خریدو فروخت کے وقت رسول اللہ نے کسی کو گواہ نہیں بنایا۔ چناچہ امام احمد (رح) نے عمارہ بن خزیمہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ عمارہ ؓ کے چچا جو صحابی ؓ تھے، بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور فوراً اس جگہ سے چل دیئے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا کردیں لیکن اعرابی نے کچھ تاخیر کی اتنے میں لوگ آکر اعرابی سے گھوڑے کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے ان کو معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ اس کو خرید چکے ہیں بعض نے قیمت بڑھا بھی دی۔ قیمت میں اضافہ دیکھ کر اعرابی نے جناب رسول اللہ کو آواز دی اور کہا اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو تم خریدو ورنہ میں فروخت کیے دیتا ہوں۔ آواز سنتے ہی رسول اللہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اعرابی سے فرمایا کہ میں تم سے اس کو نہیں خرید چکا ہوں اعرابی نے کہا نہیں خدا کی قسم میں نے تو نہیں بیچا رسول اللہ نے فرمایا : بلاشبہ میں نے خرید لیا ہے اعرابی بولا کوئی گواہ لاؤ جو شہادت دے کہ میری تمہاری خریدو فروخت ہوچکی ہے لوگ اعرابی سے کہنے لگے ارے رسول اللہ غلط بات نہیں کہہ سکتے اتنے میں خزیمہ ؓ آگئے اور بولے میں شہادت دیتا ہوں کہ تیری رسول اللہ سے خرید فروخت ہوچکی ہے۔ رسول اللہ نے خزیمہ ؓ کی طرف رخ موڑا اور فرمایا : تم کس بنا پر شہادت دے رہے ہو (خریدو فروخت کے وقت تو موجود ہی نہ تھے) خزیمہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صرف آپ کی سچائی کا یقین رکھتے ہوئے (میں نے شہادت دی) چناچہ خزیمہ ؓ کی شہادت کو رسول اللہ نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا۔ (ایک شبہ ہوسکتا ہے کہ اَن دیکھے واقعہ کی شہادت جائز نہیں اور خزیمہ ؓ نے محض تصدیق رسول اللہ کی بناء پر بغیر دیکھے ہوئے شہادت دی تھی اوّل تو یہ فعل ناجائز تھا اور اگر اس سے خزیمہ ؓ کی ایمانی قوت پر استدلال بھی تسلیم کر لیاجائے تو رسول اللہ نے ان کی شہادت کو فیصلہ کن شہادت کیوں قرار دیا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے ) ۔ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ کو خرید فروخت ہوچکنے کا پہلے ہی علم و یقین تھا آپ ﷺ جانتے تھے کہ اعرابی جھوٹا ہے جو فروختگی کا انکار کر رہا ہے۔ خزیمہ ؓ کی شہادت کی بناء پر آپ نے تکمیل عقد کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ رہی یہ بات کہ تنہا خزیمہ ؓ کی گواہی کو رسول اللہ نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ ﷺ نے خزیمہ کے ایمان کی قوت اور فہم و دانش کی پختگی ملاحظہ فرمالی تھی۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اگر حاکم کو کسی واقعہ کا یقینی علم ہو تو اپنے علم کے مطابق اس کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کیونکہ دو آدمیوں کی شہادت سے گمان غالب حاصل ہوتا ہے (یقین حاصل نہیں ہوتا) اور حاکم کا علم بجائے خود یقینی ہے اور یقین کا درجہ ظن سے اونچا ہے یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کے خلاف اس حدیث کی بناء پر فیصلہ کیا جو خود (تنہا) آپ نے سنی تھی حضور ﷺ نے فرمایا تھا ہم انبیاء کے گروہ (اپنے بعد اپنے مال کا کسی کو) وارث نہیں بناتے۔ ایک مسئلہ یہ بھی اس حدیث سے نکلتا ہے کہ اگر بادشاہ یا حاکم وغیرہ کا کسی پر کوئی حق ہو یا اس نے کسی سے کچھ خریدا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس سے اپنا حق جبراً وصول کرے خواہ وہ شخص انکاری ہو (اور حاکم کے پاس شہادت نہ ہو) لیکن اگر یہ مدعی حق حاکم کسی دوسرے حاکم کی عدالت میں اپنے حق کی چارہ جوئی کرے گا تو اس وقت شہادت کی ضرورت ہوگی تنہا اس کا ذاتی یقین دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہ ہوگا اور حاکم کیلئے جائز نہیں ہوگا کہ بادشاہ یا کسی مدعی حق قاضی کے ذاتی یقین کی بنا پر اس کو ڈگری دیدے۔ وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ ڛ : طاؤس، حسن اور قتادہ (رح) نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اگر کاتب اور گواہ معین ہوں (یعنی وہاں نہ کوئی دوسرا کاتب ہو نہ گواہ) تو کتابت یا شہادت سے انکار کرکے یہ دونوں خرید فروخت کرنے والوں کو ضرر نہ پہنچائیں۔ نہ کتابت و شہادت میں ردو بدل اور تحریف کرکے کسی فریق کو نقصان پہنچائیں اس صورت میں لَا یُضَارَّ فعل معروف ہوگا۔ لیکن یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ فریقین معاملہ کی طرف سے نہ کاتب کو دکھ دیا جائے نہ گواہ کو۔ مثلاً کاتب کی اجرت نہ دیں اور گواہ کو شہادت کے لیے ایسی حالت میں طلب کریں کہ وہ اپنے کام میں مشغول ہو یا بیمار ہو یا کمزور ہو اور شہادت کا اس پر حصر بھی نہ ہو بلکہ دوسرے گواہان واقعہ موجود ہوں۔ اس صورت میں لَا یضارَّ فعل مجہول ہوگا۔ وَاِنْ تَفْعَلُوْا : اور جس ضرررسانی سے ہم نے تم کو منع کردیا اگر وہ فعل کروگے (اور ضرر پہنچاؤگے) فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ : تو یہ اللہ کی نافرمانی ہوگی جس کا تم کو حق نہیں۔ وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور اللہ کے حکم کی مخالفت سے ڈرتے رہو۔ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ : اور اللہ تم کو ایسی باتیں سکھاتا ہے جن سے تمہارے دین و دنیا کی مصلحتیں وابستہ ہیں۔ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : اور اللہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔ لفظ اللہ کو تین جملوں میں یا تین بار ذکر کیا کیونکہ ہر جملہ اپنا خاص مقصد رکھتا ہے۔ پہلے جملہ میں ترغیب تقویٰ ہے، دوسرے جملہ میں وعدۂ انعام ہے اور تیسرے جملہ میں اللہ کی عظمت شان کا اظہار ہے۔ وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ : اور اگر تم سفر میں ہو یعنی مسافر ہو۔ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا : اور کوئی کاتب تمہیں نہ ملے۔ فَرِھٰنٌ : ابن کثیر اور ابو عمرو کی قراءت میں فَرُھُنٌ ہے باقی قراء نیفَرِھٰنٌ پڑھا ہے۔ رھان رھنٌ کی جمع ہے جیسے بغال بَغْلٌ کی اور رُھُنٌ رھان کی جمع ہے فراء اور کسائی کی یہی تحقیق ہے ابو عبیدہ کے قول پر رُھُنٌ رَھْنٌکی جمع ہے جیسیسُقْفٌ سَقْفٌ کی جمع ہے۔ لغت میں رَھْنٌ کا معنی ہے کسی چیز کو روک لینا اللہ نے فرمایا : کُلُّ نفس بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَۃٌ ہر شخص اپنے اعمال سے وابستہ ہے۔ اصطلاح شریعت میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کو کوئی شخص اپنے حق کے عوض (جائز طور پر) روک لے تاکہ اس سے اپنا حق و صول کرسکے۔ چونکہ روک لینا لغوی معنی ہے اور شرعی معنی میں لغوی معنی ملحوظ رہتے ہیں۔ اس لیے عقد رہن ایک عقد لازم ہے۔ گرو کرنے والا جب تک گرو رکھنے والے کے ایک درہم کا بھی قرض دار رہے گا اپنی چیز واپس لینے کا مستحق نہیں ہوگا۔ فرھٰن ترکیب نحوی کے لحاظ سے یا مبتدا محذوف کی خبر ہے۔ یا فعل مجہول محذوف کا فاعل ہے۔ یعنی فلیوخذ رَھْنٌ یا فعَلَیکم رھان . بالاجماع امر ایجابی نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی رہنمائی ہے۔ لَمْ تجدوا کا تباً شرط ضرور ہے چونکہ ایسا ہوتا ہی ہے کہ کاتب نہ ملنے کی صورت میں اعتماد کے لیے کوئی چیز رہن رکھ دی جاتی ہے اس لیے شرط کا مفہوم ان لوگوں کے نزدیک بھی اس جگہ معتبر نہیں جو مفہوم کو معتبر قرار دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ انتفاء شرط کے وقت انتفاء حکم ہوجاتا ہے) لہٰذا بالاجماع شہروں کے اندر قیام کی حالت میں جہاں کاتب بھی موجود ہوں رہن رکھنا جائز ہے۔ ہاں مجاہد اور داؤد کا قول ہے کہ رہن رکھنا صرف سفر کی حالت میں جب کہ کاتب نہ مل سکے جائز ہے (ور نہ ناجائز ہے) ہم اپنی دلیل میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کو پیش کرتے ہیں جو تمام کتب صحاح میں موجود ہے اور حضرت انس ؓ کی حدیث کو بھی پیش کرتے ہیں جس کو بخاری نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے مدینہ میں اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاعجَو کے عوض رہن رکھی تھی یہ جَو حضور ﷺ نے اپنے گھر والوں کے صرف کے لیے (قرض) لیے تھے اور وفات اقدس تک وہ زرہ اس یہودی کے پاس رہن رہی۔ مَّقْبُوْضَةٌ : یعنی رہن مع قبضہ کے ہو۔ اسی قید کی وجہ سے امام اعظم (رح) اور امام احمد (رح) اور امام شافعی (رح) قائل ہیں کہ بغیر مال مرہون پر قبضہ کے عقد رہن لازم نہیں ہوتا۔ امام مالک کہتے ہیں صرف عقد کرنے سے رہن لازم ہوجاتا ہے اور راہن کو مجبور کرکے مال رہن پر مرتہن کا قبضہ کرانا چاہئے۔ ہم کہتے ہیں رہن کا جواز مع لزوم لفظ مقبوضۃ سے ثابت ہو رہا ہے ورنہ قیاس کا تو تقاضا ہے کہ رہن عقد لازم نہ ہو صرف راہن کا تبرع ہو کیونکہ اپنا مال مرتہن کے پاس رکھنے کے عوض اس کو کچھ نہیں ملتا۔ (قرض کی ادائیگی تو بہر حال اس کے ذمہ لازم ہوتی ہے۔ لہٰذا تقاضائے قیاس کے خلاف جب رہن کا لزوم نص قرآنی میں آگیا ہے تو اس کا اقتصار اس کے مقام پر ہی رکھا جائے گا اور لزوم رہن قبضۂ مرتہن کی صورت میں مانا جائے گا۔ لزوم رہن کے لیے قبضہ کی شرط چونکہ امام اعظم (رح) کے نزدیک ضروری ہے اسی لیے آپ کے نزدیک مشاع (وہ مشترک چیز جس کے ہر جز میں شرکت ہو اور تقسیم اجزاء نہ کی گئی ہو) کا رہن جائز نہیں خواہ قابل تقسیم ہو یا نہ ہو کیونکہ دونوں شریکوں کی شرکت جب ہر ہر جز میں ہوگی تو وہ چیز ہمیشہ ایک کے قبضہ میں نہیں رہے گی بلکہ کچھ مدت کے لیے ایک کے قبضہ میں چلی جائے گی اور کچھ مدت کے لیے دوسرے کا اس پر قبضہ ہوجائے گا تو گویا مشاع کو رہن رکھنا ایسا ہوگا جیسے راہن بوقت رہن یوں کہے کہ میں تیرے پاس یہ چیز ایک دن کے لیے رہن رکھتا ہوں دوسرے دن یہ چیز رہن نہ ہوگی (پھر تیسرے دن رہن رہے گی اور چوتھے دن نہ رہے گی) اور یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ رہن بمعنی حبس (ادائیگی قرض تک) مرتہن کے مسلسل قبضہ کو چاہتا ہے مطلق کا رجوع فردکامل کی طرف ہوتا ہے۔ ہبہ کی صورت اس کے خلاف ہے۔ امام اعظم کے نزدیک قابل تقسیم چیزوں کا ہبہ بغیر قبضہ کے لازم نہیں اور جو چیز قابل تقسیم نہیں جیسے جائیداد اس کا ہبہ بغیر قبضہ کے درست ہے ہبہ مشاع سے مانع فقط یہ ہے کہ ہبہ کرنے والے پر تقسیم کا بار پڑے گا اور یہ بار تقسیم صرف قابل تقسیم چیزوں میں پڑتا ہے ناقابل تقسیم چیزوں میں نہیں پڑتا۔ (لہٰذا اوّل الذکر صورت ناجائز ہے اور مؤخر الذکر جائز) امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک مشاع کا رہن مطلقاً جائز ہے قابل تقسیم ہو یا نہ ہو۔ مسئلہ جب مرتہن کا مال مرہون پر قبضہ ہوجائے تو وہ چیز راہن کی ملک میں رہتی ہے صرف مرتہن کے قبضہ میں چلی جاتی ہے گویا ملکیت راہن کا ہوتا ہے اور حق قبضہ مرتہن کا۔ اس لیے رہن کے قبضہ کی تکمیل کے بعد راہن کے لیے مال مرہون سے نفع اندوزی کی اجازت نہیں نہ سواری کے جانور پر سوار ہوسکتا ہے۔ نہ کپڑا پہن سکتا ہے نہ مکان میں رہ سکتا ہے ہاں اگر مرتہن اجازت دیدے تو خیر۔ بات یہ ہے کہ مال مرہون مرتہن کے قبضہ میں ہر وقت رہنا چاہئے اور راہن کی مال مرہون سے کسی قسم کی نفع اندوزی سے بعض اوقات (خواہ تھوڑی دیر ہی کے لیے ہو) مال مرہون پر مرتہن کا قبضہ نہیں رہے گا۔ یہ مسلک امام اعظم (رح) کا ہے لیکن امام شافعی کا قول ہے کہ مال مرہون سے نفع اندوزی راہن کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ رہن (کے جانور) پر سواری لی جاتی ہے (اور اس کا) دودھ دوہا جاتا ہے یہ حدیث دار قطنی اور حاکم نے بروایت اعمش از ابو صالح از ابوہریرہ ؓ نقل کی ہے لیکن ابن ابی حاتم نے اس کو معلل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے باپ نے ایک مرتبہ اس حدیث کو مرفوعاً بیان کیا تھا۔ پھر رفع کو ترک کردیا اور موقوفاً بیان کیا) دارقطنی اور بیہقی نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو مرفوع ہونے پر ترجیح دی ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ حدیث مجمل ہے یہ بھی احتمال ہے کہ رہن کے جانور پر سواری لیا جانا راہن کے لیے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ مرتہن کے لیے ہو لہٰذا اس حدیث سے راہن کے لیے جواز ثابت نہیں ہوتا۔ مسئلہ مال مرہون میں راہن کا ہر شرعی تصرف ناجائز ہے لیکن اگر اس نے کوئی تصرف کر لیاتو تصرف بجائے خود ہوجائے گا مگر اس کا نفاذ مرتہن کی اجازت یا مال مرہون کی واگذاشت پر موقوف رہے گا کیونکہ نفس شئ کی ملکیت تو راہن کو حاصل ہی ہے لیکن یہ حکم ان تصرفات کا ہے جو فسخ ہونے کے قابل ہیں۔ جیسے بیع۔ ہبہ وغیرہ اور جو تصرفات فسخ کے قابل نہیں جیسے غلام کو آزاد کرنا تو چونکہ ان کے فسخ ہونے کا امکان ہی نہیں ہے اور ملکیت راہن کو حاصل ہی ہے اس لیے ایسے تصرفات کا نفاذ ہوجائے گا اب اگر راہن مالدار ہوگا تو آزاد کردہ غلام کی قیمت بجائے غلام کے مرتہن کے پاس بطور رہن رکھنا لازم ہوگا اور اگر مفلس ہوگا تو غلام محنت مزدوری کرکے اپنی قیمت مرتہن کے پاس رکھ دے گا۔ یہ مسلک امام اعظم (رح) اور امام احمد کا ہے امام مالک (رح) کی رائے ہے کہ بیع کی طرح غلام کی آزادی بھی مرتہن کی اجازت یا رہن کی واگذاشت پر موقوف رہے گی۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : اگر راہن مالدار ہوگا تو ہر صورت میں اس کا تصرف جاری ہوجائے گا۔ (اور مال مرہون کا عوض بطور رہن مرتہن کے پاس رکھنا ہوگا) اور مفلس ہوگا تو اس کا کوئی تصرف جاری نہ ہوگا۔ مسئلہ راہن چونکہ مرہون کا مالک ہے اس لیے مرہون کا ہر خرچ راہن کے ذمہ ہے اور مرہون سے جو کچھ پیدا ہو جیسے بچے، اون، دودھ، پھل وغیرہ وہ راہن کا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا : جو کچھ فائدہ ہو وہ بھی راہن ہی کا ہے اور جو نقصان ہو وہ بھی راہن ہی کا ہے۔ بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ امام احمد کے نزدیک مرہون کی پیداوار مرتہن کی ہے لیکن التحقیق میں ابن جوزی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا اقتضاء یہی ہے کہ امام احمد کے نزدیک بھی مرہون کی پیداوار راہن ہی کی ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ مرتہن جو کچھ مرہون پر خرچ کرے اسکو مرہون کے دودھ اور سواری سے وصول کرنے کا اسکو حق ہے (گویامرتہن کو مرہون کا دودھ لینا اور اس پر سوار ہونا جائز نہیں اور نہ اسکے ذمہ مرہون کا دانہ گھاس ہے لیکن اگر مرہون پر وہ کچھ خرچ کرے تو مرہون کی پیداوار اپنے خرچ کے عوض لے سکتا ہے) مسئلہ مرہون کی تمام پیداوار (بچے اون وغیرہ) مرتہن کے پاس بطور رہن رہے گی اس کو بھی اصل مرہون کا حکم حاصل ہوگا البتہ راہن کی ملکیت ہوگی مگر قبضہ مرتہن کا ہوگا اور چونکہ مرتہن کو حق ملکیت حاصل نہیں اس لیے مرہون میں وہ کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور نہ مرہون سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتا ہے ورنہ سود ہوجائے گا۔ مسئلہ مرتہن اگر راہن کی اجازت سے مال مرہون پر کچھ خرچ کرے تو وہ راہن پر قرض ہوگا اور اگر بغیر اجازت صرف کرے تو ایک قسم کا احسان ہوگا (راہن پر قرض نہ ہوگا) امام احمد کا قول ہے کہ ہر صورت میں راہن کے ذمہ قرض ہوگا اور مرتہن مرہون کے دودھ اور سواری سے اس کو وصول کرنے کا حق رکھتا ہے ابن جوزی نے اس قول کی دلیل میں حدیث الرہن مرکوب محلوب پیش کی ہے اور اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو بخاری نے بحوالۂ شعبی حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : الرھن بما فیہ یرکب بنفقۃ اذا کان مرھو ناولبن الدر یشرب بنفقتہ اذا کان مرھونا و علی الذی یرکب و یشرب النفقۃ۔ ابو داؤد کی روایت میں یشرب کی جگہ یحلب ہے طحاوی کی روایت بالفاظ ذیل ہے : الرھن یرکب بنفقتہ اذا کان مرھونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ اذا کان مرھونًا (حسب استدلال ابن جوزی مطلب یہ ہے کہ) رہن مع اس چیز کے رہن ہے جو مرہون کے اندر ہو (یعنی جو مرہون سے پیدا ہو جیسے دودھ، اُون، بچہ وغیرہ) اس پر جو کچھ خرچ ہو اس کے عوض اس پر سواری کی جاسکتی ہے اور دودھ دینے والے (مرہون) جانور کا دودھ پیا جاسکتا ہے اور جو شخص سوار ہو یا دودھ پیئے اس کے ذمہ مرہون کا خرچ ہے۔ ہم جواب میں کہتے ہیں اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سوار ہونے والے پر مرہون کا خرچ ہے لیکن اجماع اس امر پر ہے کہ رہن کا خرچ راہن کے ذمے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حرمت ربوا سے پہلے تھا جب کہ منفعت آفریں قرض کی ممانعت نہیں کی گئی تھی اور جبکہ کسی چیز کو کسی چیز کے عوض لینے کی نہی نہیں ہوئی تھی خواہ معیار شرعی کے لحاظ سے دونوں چیزیں مساوی نہ ہوں بشرطیکہ دونوں کے مالکوں میں پہلے سے خرید فروخت نہ ہوئی ہو اس کے بعد آیت ربوا سے منفعت انگیز قرض کی حلت منسوخ کردی گئی۔ تقاضائے اجماع یہی ہے۔ اللہ نے فرما دیا ہے : فاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ دوسری آیت میں ہے : وَ لَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ. رہا حدیث کا یہ فقرہ کہ الرھن بما فیہ تو یہ منسوخ نہیں ہے مگر اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ جس دین (قرض) کے عوض کوئی مال رہن رکھا گیا ہے وہ مال قرض کی ضمانت میں رہے گا یعنی اگر قرض مال مرہون کی قیمت کے برابر یا اس سے کم ہوگا تو مال مرہون تلف ہونے کی صورت میں قرض بھی ساقط ہوجائے گا اور جتنا مال مرہون قرض سے زائد ہوگا وہ امانت سمجھا جائے گا (اور اتنی مقدار کے تلف ہونے کا حکم امانت کے تلف ہونے کے حکم کی طرح ہوگا) مسئلہ اگر راہن مرجائے تو گرو کا مال راہن کے قرض خواہوں کو نہیں دیا جائے گا بلکہ بیچ کر مرتہن کا قرض ادا کیا جائے گا کیونکہ مال رہن مرتہن کے قبضہ میں تو ہوتا ہی ہے اور اس کو ملکیت کا استحقاق بھی (دوسروں سے زائد) ہوتا ہے کیونکہ اس کا قبضہ اسی لیے ہوتا ہے کہ اگر اس کا قرض وصول نہ ہو سکے تو وہ مال رہن سے اپنا قرض وصول کرلے۔ مسئلہ اگر مرتہن کے قبضہ میں رہن کا مال بغیر مرتہن کے قصور کے تلف ہوجائے تو امام اعظم (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک مرتہن پر اس کا ضمان پڑے گا (اگرچہ مال رہن کے تلف ہونے میں مرتہن کا کوئی قصور نہ ہو) کیونکہ مال رہن پر مرتہن کا قبضہ تھا اور وہ (عدم وصول قرض کی صورت میں) اس کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرسکتا ہے یعنی قبضہ استیفاء تھا اب وہ مال اس کے قبضہ میں تلف ہوگیا تو (گویا) قرض مکمل وصول ہوگیا۔ اس کے بعد اگر راہن سے یہ اپنے قرض کا مطالبہ کرے گا تو سود ہوجائے گا۔ امام مالک (رح) کے نزدیک مرتہن پر ضمان بالقیمہ ہوگا (یعنی مال رہن کی جو قیمت بازاری ہوگی وہ مرتہن پر پڑے گی کیونکہ وصول قرض مال رہن کی قیمت کے اعتبار سے ہی ہوتا ہے۔ امام اعظم (رح) نے فرمایا : قیمت رہن اور مقدار قرض سے جو چیز کم ہوگی اتنی مرتہن پر پڑے گی اور باقی حصہ بطور امانت رہے گا۔ طحاوی (رح) نے حضرت عمر ؓ کا یہی فیصلہ نقل کیا ہے۔ قاضی شریح، حسن بصری اور شعبی کے نزدیک رہن مضمون بالدین مانا جائے گا (رہن تلف ہوگیا اس کی قیمت کم تھی یا زیادہ بہر حال قرض کا معاوضہ وصول شدہ قرار دیا جائے گا مال رہن کی قیمت زیادہ ہو تو راہن کو بقیہ قیمت نہیں دی جائے گی اور کم ہو تو مرتہن کو بقیہ قرض نہیں ملے گا) ۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک مال رہن امانت تھا اگر مرتہن کے قصور سے تلف ہوا ہو تو ضمان دینا ہوگا ورنہ کچھ نہیں (اصل قرض قابل وصول رہے گا) کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ رہن کرنے والے سے رہن کے مال کو بند کرکے نہ رکھ لیا جائے مال رہن اسی کا ہے جس نے گرور کھا ہے رہن کا نفع بھی اسی کا ہے اور رہن کا نقصان اسی پر ہے 1 ؂۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ والدارقطنی والحاکم من طریق زیاد بن سعد عن الزہری عن سعید بن المسیب عن ابی ہریرہ ؓ مرفوعاً ۔ ) دارقطنی نے لکھا ہے کہ زیاد بن سعد حافظ اور ثقہ ہے اور یہ حدیث حسن اور متصل السند ہے۔ ابن ماجہ نے اسحاق بن راشد کے طریق سے بحوالہ زہری اس کو بیان کیا ہے اور حاکم نے مختلف طریقوں سے حضرت ابوہریرہ کی مرفوع حدیث اس کو لکھا ہے۔ اوزاعی یونس اور ابن ابی ذئب نے بروایت زہری از سعید بن المسیب اس کو مرسل نقل کیا ہے۔ شافعی نے بروایت ابن ابی فدیک و ابن ابی شیبہ از وکیع از ابن ابی الذئب اور عبد الرزاق نے بروایت ثوری از ابن ابی ذئب اس کو نقل کیا ہے اور داؤد۔ بزار اور دار قطنی کے نزدیک اس حدیث کا مرسل ہونا صحیح ہے۔ دارقطنی اور بیہقی نے کچھ دوسری سندوں سے بھی اس کو نقل کیا ہے لیکن وہ تمام اسنادیں ضعیف ہیں۔ ابن حزم اور دارقطنی نے از شبابہ از ورقاء از ابن ابی ذئب از زہری از سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبد الرحمن از ابی ہریرہ ؓ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : رہن نہ روک رکھا جائے رہن رہن کرنے والے کا ہے رہن کا نفع اسی کا ہے اور نقصان بھی اسی پر ہے ابن حزم نے اس سند کو حسن اور ابن عبد البر نے صحیح اور عبد الحق نے موصول قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے اس سند میں ایک شخص عبد بن نصر ہے جس کی احادیث منکر ہیں اور حدیث کے آخری الفاظ کہ رہن کا نفع اسی کا ہے اور نقصان بھی اسی پر ہے۔ بعض لوگوں نے سعید بن مسیب کے داخل کردہ (قول کا مدرج ‘ ایسے کلمات جو اس حدیث کا حصہ نہ ہوں بلکہ کسی اور حدیث یا راوی کے کلام سے داخل ہوگئے ہوں ‘ 12) قرار دیئے ہیں۔ ابو داؤد نے مراسیل میں یہی لکھا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا کہ ان الفاظ کا مرفوع یا موقوف ہونا مختلف فیہ ہے ابن ابی ذئب اور معمر وغیرہ نے مرفوع کہا ہے اور دوسرے علماء نے موقوف کہا ہے۔ حدیث مذکور سے امام شافعی کی صورت استدلال یہ ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مال مرہون اصل راہن کی ملک سے خارج نہیں ہوتا (مرتہن کا اس پر صرف قبضہ ہوجاتا ہے لا یغلق الرھن کا یہی معنی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حدیث کا یہ معنی نہیں ہے بلکہ اصل معنی وہ ہے جو ابن جوزی کی روایت میں آیا ہے۔ ابن جوزی نے ابراہیم نخعی کے حوالے سے لکھا ہے کہ لوگ کسی کے پاس مال رہن رکھتے تھے اور کہہ دیا کرتے تھے کہ اگر فلاں وقت تک ہم قرض ادا کردیں تو خیر ورنہ یہ مال تمہارا ہوجائے گا اس پر رسول اللہ نے فرمایا : لَا یغلق الرھن (یعنی اگر مدت مقررہ کے اندر فک رہن نہ ہو سکے تب بھی وہ مال مرتہن کا نہیں ہوجاتا) طحاوی نے بھی اپنی سند سے ابراہیم نخعی کا یہ بیان نقل کیا ہے اور مالک بن انس اور سفیان بن سعید بھی حدیث کی تشریح اسی طرح کرتے تھے رہ گئے آخری فقرے لہ غنمہ اور علیہ عزمہ تو (اس کا یہ معنی نہیں کہ اگر مال مرہون سالم رہے تب بھی راہن کا ہے اور تلف ہوجائے تب بھی راہن کا مال ہلاک ہوگا بلکہ) بالاجماع علماء یہ مطلب ہے کہ مال رہن میں کچھ بیشی ہو (مثلاً مرہون جانور کے بچے ہوجائیں یا دودھ ہو) تو وہ راہن کی ہے اور جو کچھ مرہون کے کھلانے پلانے میں صرف ہو وہ بھی راہن کے ذمہ ہوگا۔ ہم وجوب ضمان کے قائل ہیں ہماری دلیل وہ حدیث ہے جو طحاوی نے بسلسلہ محمد بن خزیمہ ازعبید اللہ بن محمد تیمی از عبد اللہ بن مبارک از مصعب بن ثابت از عطاء بن ابی رباح بیان کی ہے کہ کسی آدمی نے ایک گھوڑا رہن لیا اور مرتہن کے قبضہ میں وہ گھوڑا مرگیا اس پر رسول اللہ نے فرمایا : تیرا حق جاتا رہا یہ حدیث مرسل ہے اور مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے (یعنی تابعی نے اس حدیث میں صحابی کا ذکر نہیں کیا نہ کسی صحابی کا حوالہ دیا) اسی طرح ابن جوزی نے بحوالہ دارقطنی حضرت انس ؓ کی روایت دو ضعیف سندوں سے بیان کی ہے۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رہن کی قیمت کا جو زائد حصہ ہو (قرض میں مجرا نہ کیا جاسکتا ہو) وہ امانت رہے گا اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ وصول قرض صرف اتنے حصہ سے ہوجاتا ہے جو قرض کے برابر ہو (باقی امانت ہی کے حکم میں ہونا چاہئے) فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا : پس اگر تم میں سے ایک دوسرے کو امین سمجھتا ہو یعنی قرض دینے والاقرض لینے والے کی طرف سے مطمئن ہو اور قرضدار کی امانت کی وجہ سے تحریر یا رہن رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو۔ حضرت ابی کی قراءت میں فَاِنِ اءْتُمِنَ ہے معنی ایک ہی ہیں۔ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ : پس جس کی امانت پر اطمینان کرلیا گیا ہو اس پر لازم ہے کہ امانتدار کی امانت یعنی قرض دینے والے کا قرض اد اکردے۔ قرض کو امانت اس لیے فرمایا کہ اس میں تحریر اور رہن کی ضرورت نہیں سمجھی گئی اور قرضدار کو امین سمجھ لیا گیا۔ حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ دوران خطبہ میں رسول اللہ نے فرمایا : جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں وعدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ (رواہ البیہقی فی الشعب) وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ : اور خیانت اور انکار حق کے معاملہ میں اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اس بیان میں (حکم ادا کی) چند طرح سے تاکید کی گئی ہے۔ جس حدیث سابق الذکر میں منافق کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں اس میں یہ بھی (منافق کی نشانی قرار دی گئی) ہے کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ : یعنی اے گواہو قرضداروں کے خلاف گواہی کو نہ چھپاؤ اگر وہ خیانت کریں اور اداء امانت نہ کریں اور واجب الاداء حق کے منکر ہوجائیں یا یہ مراد ہے کہ اے قرضدارو تم پر جو حقوق واجب ہیں ان کی شہادت کو نہ چھپاؤ اور اپنے خلاف حق کا اقرار کرلو۔ وَمَنْ يَّكْتُمْهَا : اور جو شہادت حق کو چھپائے گا۔ فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ : تو بلاشبہ اس کا دل گناہگا رہے۔ قلبہ اٰثم کا فاعل ہے یا اٰثم خبر مقدم اور قلبہٗ مبتدامؤخر ہے اور پورا جملہ اِنَّ کی خبر ہے۔ گناہ کی نسبت قلب کی طرف اس لیے کی کہ چھپانا دل ہی کا فعل ہے اصل فاعل کی طرف فعل کی نسبت کرنے سے فعل میں شدت اور قوت پیدا ہوگئی جیسے کہتے ہیں میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اپنے کانوں سے سنا اپنے دل سے یاد رکھا۔ یا دل کی طرف نسبت کرنے کی یہ وجہ ہے کہ دل تمام اعضاء کا سردار ہے اس کے افعال کا مرتبہ بھی سب افعال سے بڑا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ بنی آدم کے بدن میں ایک بوٹی ایسی ہے کہ جب وہ ٹھیک ہوتی ہے تو سارا بدن ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتی ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے سن لو وہ بوٹی دل ہے۔ (رواہ الشیخان عن النعمان بن بشیر) بعض علماء نے کہا کہ دل کے گناہ گار ہونے سے مراد ہے دل کا مسخ ہوجانا۔ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ : اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے یعنی شہادت دینے اور شہادت کو چھپانے سے واقف ہے یہ جملہ بطور تہدید ہے۔ اس آیت سے معلوم ہور ہا ہے کہ شہادت کو چھپانا حرام ہے مشہود لہٗ خواہ طلب نہ کرے مگر ادائے شہادت فرض ہے اگر مشہود لہٗ کو شاہد کا شاہد ہونا معلوم بھی نہ ہو تب بھی شاہد پر لازم ہے کہ اپنے شاہد ہونے کی اطلاع مشہود لہٗ کو دیدے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ طلب شہادت کے بغیر شہادت دینا مذموم ہے کیونکہ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے ان کے بعد ان لوگوں کا مرتبہ ہے جو ان کے متصل آئیں گے پھر ان کا مرتبہ ہے جو ان (صحابہ ؓ کے متصل ہوں گے ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بلا طلب شہادت دیں گے، خیانت کریں گے، امانتدار نہ ہونگے، نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور عموماً ان میں فربہی ہوگی۔ (یعنی موٹے، بےغیرت، بےحیا، حرام خور ہوں گے) ۔ دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ بلا طلب قسمیں کھائیں گے۔ (متفق علیہ) حضرت عمر بن خطاب ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کی عزت کرو۔ یہ تم میں سب سے اچھے ہیں ان کے بعد ان لوگوں کا درجہ ہے جو ان سے متصل ہوں گے پھر ان لوگوں کا درجہ ہے جو ان سے متصل ہوں گے پھر کذب پھیل جائے گا یہاں تک کہ آدمی بلا طلب قسمیں کھائے گا اور بلا طلب شہادت دے گا۔ (رواہ النسائی و اسنادہ صحیح) اس موضوع پر حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی اسی طرح ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ ان کی شہادت قسموں سے پہلے اور قسمیں شہادت سے پہلے ہوں گی طحاوی نے مؤخر الذکر دونوں روایتیں نقل کی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مذمومہ شہادت سے مراد ہے جھوٹ کی شہادت حدیث کے الفاظ : ثم یفشوا الکذب و یخونون و لا یوتمنون و ینذرون ولا یوفون کا یہ تقاضا ہے۔ طحاوی نے بوساطت مالک حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں تم کو بتاؤں کہ سب سے اچھا گواہ کون ہے سب سے اعلیٰ گواہ وہ ہے جو درخواست سے پہلے ہی اپنی شہادت دیدے یا طلب شہادت سے پہلے اپنی شہادت کی اطلاع دیدے۔
Top