Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 112
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنایا لِكُلِّ نَبِيٍّ : ہر نبی کے لیے عَدُوًّا : دشمن شَيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) الْاِنْسِ : انسان وَالْجِنِّ : اور جن يُوْحِيْ : ڈالتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى : طرف بَعْضٍ : بعض زُخْرُفَ : ملمع کی ہوئی الْقَوْلِ : باتیں غُرُوْرًا : بہکانے کے لیے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تمہارا رب مَا فَعَلُوْهُ : وہ نہ کرتے فَذَرْهُمْ : پس چھوڑ دیں انہیں وَمَا : اور جو يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ گھڑتے ہیں
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن (بہت سے) شیطان، انسان اور جنات (دونوں) میں سے پیدا کردیئے تھے ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں دھوکے کے لئے،163 ۔ اور اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو یہ ایسا نہ کرسکتے، سو آپ انہیں اور جو کچھ یہ افتراء کررہے ہیں اس کو چھوڑے رکھیے،164 ۔
163 ۔ یعنی تاکہ لوگوں کو فریب میں مبتلا کریں، انسان شیطان کے فریب ہی میں آکر کفر میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا بیان ہے کہ ہر پیغمبر کے دور میں شیاطین، انس وجن ہی دھوکے کا سبز باغ دکھا دکھا کر لوگوں کو گمراہ کیا کئے ہیں۔ (آیت) ” کذلک “۔ یعنی جس طرح یہ کافر آپ ﷺ کے دشمن ہیں۔ ای کما ابتلیناک بھولاء القوم (قرطبی) ای جعلنا لک عدوا کما جعلنا لمن قبلک من الانبیاء (کبیر) (آیت) ” شیطین الانس والجن “۔ یہ اس باب میں نص ہے کہ قرآن نے جنہیں اپنی بولی میں شیاطین کہا ہے وہ ہمیشہ جنات ہی نہیں ہوتے، جو انسان بھی شیطان کی نیابت انجام دینے لگے، وہ گویا شیطان بہ قالب انسان ہے، شیطان کا لفظ قرآن مجید میں ہر سرکش یا نافرمان کے لئے ہے۔ خواہ وہ جن ہو یابشر۔ المعنی مردۃ الانس والجن والشیطان کل عات متمرد من الانس والجن وھذہ قول ابن عباس و مجاھد والحسن وقتادۃ (کبیر) (آیت) ” یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول “۔ اس میں اشارہ ہے کہ شیطانی تلبیسات ہمیشہ کوئی نہ کوئی پہلو ظاہری خوشنمائی کارکھتی ہیں۔ اگر فوری لذت اور ظاہری آب وتاب ان میں نہ ہو تو کوئی ادھر کا رخ ہی کیوں کرے ؟ (آیت) ” یوحی “۔ یعنی وحی کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہ وسوسہ اندازی بھی بالکل خفیہ ہوتی ہے ؛۔ سمی وحیا لانہ یکون خفیۃ (قرطبی) جتنے جاہلی مذہب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، غور کرلیجئے سب میں ملمع سازی کے پہلو اچھے خاصے موجود ہوں گے، ہر باطل فرقہ کوئی نہ کوئی ظاہری کشش اپنے میں ضرور رکھتا ہے۔ آج اہل باطل کے جنتے مختلف نظریات، مغرب ومشرق سے آرہے ہیں نئی نئی ، Ism کے ساتھ، ان سب کے دعوے کیسے کیسے خوشنما اور ظاہر فریب ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہم روٹی کے سوال کو حل کیے دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم دنیا سے مفلسی اور محتاجی کو مٹائے دیتے ہیں۔ وقس علی ہذا یہ سارے نمونے اسی (آیت) ” زخرف القول “ کے ہیں۔ (آیت) ” غرورا “۔ یہ سارے دعوے نرے ہی ہوتے ہیں۔ حقیقت اور اصلیت ان میں نام کو نہیں ہوتی۔ 164 ۔ (ہمارے اوپر۔ اور خود زیادہ فکروغم میں مبتلا نہ رہئے) ۔ (آیت) ” ولو شآء ربک) ” یعنی اگر اس کی مشیت تکوینی یوں ہی ہوتی۔ (آیت) ما فعلوہ۔ یعنی یہ سب کے سب اضطرار ا بھی مومن و متقی ہوتے لیکن اس نے اپنے مصالح تکوینی سے انسان کو ایمان پر مضطر ومجبور نہیں بنایا ہے بلکہ انہیں انتخاب واختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ (آیت) ” وما یفترون “۔ یعنی دین کے باب میں انہوں نے جو مسئلہ اور عقیدے گڑھ گڑھ کر رکھے ہیں۔
Top