Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
تو کیا تم اس کی توقع رکھتے ہو،260 ۔ کہ وہ لوگ تمہارے (کہنے سے) ایمان لے آئیں گے261 ۔ درآنحالیکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کا کلام سنتے ہیں، پھر اسے کچھ کا کچھ کردیتے ہیں، بعد اس کے کہ اسے سمجھ چکے ہیں، اور وہ اسے (خوب) جانتے بھی ہیں،262 ۔
260 ۔ (اے مسلمانو ! اسرائیلیوں کی ان ساری بدکرداریوں کی روداد سننے کے بعد بھی) خطاب اس آیت میں اسرائیلیوں سے نہیں مسلمانوں سے ہے۔ حسن بصری (رح) تابعی کا قول ہے کہ اس کے مخاطب رسول اللہ ﷺ اور مومنین ہیں (کبیر) قال القاضی وھذا التی بالظاہر (کبیر) یرید محمد و اصحابہ (معالم) (آیت) ” افتطمعون “ میں جو ہمزۂ استفہامی ہے، اس کا مقصود استبعاد ہے یعنی بھلا ایسا بھی کہیں ہوسکتا ہے ؟ الھمزۃ لانکار الواقع استبعادہ (ابو سعود) الاسفتھام لاستبعاد اوللانکار التوبیخی (روحی) تطمعون۔ طمع کے عام معنی لالچ کرنے، حرص رکھنے کے ہیں، لیکن دوسرے معنی امید و توقع کے بھی ہیں۔ اور وہی یہاں مراد ہیں۔ طمع فیہ وبہ اے حرص علیہ ورجاہ (لسان) افترجوا یا محمد (ابن عباس ؓ مترجم دہلوی (رح) نے ترجمہ فارسی میں ” امید “ سے اور مفسر تھانوی نے اردو میں ” توقع “ سے کیا ہے۔ 261 ۔ ” وہ لوگ “ یعنی عہد رسول اللہ ﷺ کے معاصر یہود جن کی قساوت قلب کی اتنی مفصل ومسلسل سرگزشت ابھی بیان ہوچکی۔ ھم الیھود الذین کانوا فی زمن رسول (علیہ السلام) (کبیر) (آیت) ” لکم “ یعنی تمہاری خاطر سے، تمہارے کہنے سے تمہاری دعوت پر۔ اے لاجل دعوتکم ویستجیبوالکم (کشاف) لام السبب اے یؤمنوا لاجل دعوتکم لھم (بحر) ۔ 262 ۔ (کہ کیسی سخت جسارت کررہے ہیں) (آیت) ” وقد کان فریق منہم “ کان کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، اور لغت ونحو دونوں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک ایسا فریق تھا اسرائیلیوں کے درمیان۔ گویا ذکر ماضی کا اور یہود معاصرین کے اسلاف کا ہورہا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک ایسا فریق رہا ہے ان کے درمیان۔ یعنی ذکر حال کا اور ہمعصر یہود کا ہورہا ہے۔ ائمہ تفسیر سے دونوں قسم کے اقوال منقول ہیں۔ لیکن سیاق دوسرے معنی کے زیادہ موافق ہے۔ کہ حجت معاصرین ہی پر قائم کی جارہی ہے، اور ملزم انہیں کو قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ المراد بالفریق من کان فی زمان محمد (علیہ الصلوۃ والسلام) وھذا اقرب (کبیر) (آیت) ” کلم اللہ “ یعنی یہود کے آسمانی صحیفے۔ اپنے ہاں کے صحیفوں کی تحریف یہود کو خود مسلم رہی ہے۔ یرمیاہ نبی اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :۔ تم نے زندہ خدا، رب الافواج ، ، ہمارے خدا کی باتوں کو بگاڑ ڈالا ہے۔ “ (یرمیاہ۔ 23:37) قرآن مجید کی اعجازی کامیابیوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب خود یہود بھی اپنے آسمانی صحیفوں کی تنزیل لفظی کے قائل نہیں رہے ہیں، اور ان کے علماء و اکابر اب صاف صاف اقرار کررہے ہیں کہ صرف مضامین ومطلب کا القاء ہمارے انبیاء واصفیاء کے قلب صافی پر ہوتا تھا۔ اور وہ حضرت انہیں الہامات معنوی کی روشنی میں اپنے لفظ وعبارت میں نوشتے تیار کردیتے تھے۔ (آیت) ” من بعد ما عقلوہ۔ “ یعنی نادانستگی میں نہیں۔ دیدہ دانستہ، سب کچھ جان لینے، سمجھ لینے کے بعد۔
Top