Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 264
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى١ۙ كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا١ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تُبْطِلُوْا : نہ ضائع کرو صَدَقٰتِكُمْ : اپنے خیرات بِالْمَنِّ : احسان جتلا کر وَالْاَذٰى : اور ستانا كَالَّذِيْ : اس شخص کی طرح جو يُنْفِقُ : خرچ کرتا مَالَهٗ : اپنا مال رِئَآءَ : دکھلاوا النَّاسِ : لوگ وَلَا يُؤْمِنُ : اور ایمان نہیں رکھتا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور آخرت کا دن فَمَثَلُهٗ : پس اس کی مثال كَمَثَلِ : جیسی مثال صَفْوَانٍ : چکنا پتھر عَلَيْهِ : اس پر تُرَابٌ : مٹی فَاَصَابَهٗ : پھر اس پر برسے وَابِلٌ : تیز بارش فَتَرَكَهٗ : تو اسے چھور دے صَلْدًا : صاف لَا يَقْدِرُوْنَ : وہ قدرت نہیں رکھتے عَلٰي : پر شَيْءٍ : کوئی چیز مِّمَّا : اس سے جو كَسَبُوْا : انہوں نے کمایا وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : راہ نہیں دکھاتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں کی قوم
اے ایمان والو اپنے صدقوں کو احسان (رکھ کر) اور اذیت (پہنچا کر) باطل نہ کردو،1031 ۔ جس طرح وہ شخص اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کے دکھاوے کو، اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا،1032 ۔ سو اسکی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہے جس پر کچھ مٹی ہے، پھر اس پر زور کی بارش ہو سو وہ اس کو بالکل صاف کردے،1033 ۔ (ایسے لوگ) کچھ بھی نہ حاصل کرسکیں گے اپنی کمائی سے،1034 ۔ اور اللہ کافر لوگوں کو راہ ہدایت نہ دکھائے گا،1035 ۔
1031 ۔ (آیت) ” لا تبطلوا صدقتکم “ یعنی ان ممنوع طریقوں سے اضافہ اجروازدیاد ثواب کو مٹانہ دو ۔ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس طرح صدقہ کا ابطال یہاں حرام وممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی طرح کوئی سا بھی نیک عمل ہو اسے باطل کر ڈالنا حرام اور ممنوع ہے۔ چناچہ نفل نماز کی نیت باندھ کر اسے توڑ ڈالنے کی حرمت وممانعت اسی قاعدہ کے ماتحت ہے۔ 1032 ۔ (اور یہ شخص صدقہ کے نفس اجروثواب ہی کو ضائع کرکے رہتا ہے) دو صورتیں الگ الگ بیان ہوئی ہیں، دونوں کا فرق ملحوظ رہے، پہلی صورت میں خطاب اہل ایمان سے ہے، نفس صدقہ تو ان لوگوں کا قبول ہوجائے گا لیکن احسان جتلانے یا اذیت پہنچانے سے ترقی درجات واضافہ اجر سب سلب ہوجائے گا۔ دوسری صورت میں ذکر اہل کفر کا ہے۔ یہ جب خدا اور آخرت پر ایمان ہی سے محروم ہیں تو ان کے صدقہ و خیرات سے بہ ظاہر جو کچھ بھی مقصود ہو، سب کا حاصل دنیا ہی ہوگا۔ ایسوں کو اجر کس چیز کا ؟ رضائے الہی کی طلب تو کسی درجہ میں بھی ان کے عمل کا جزء نہیں۔ (آیت) ” رء آء الناس “ انجیل میں بھی اس سے ملتی جلتی ہدایت موجود ہے (متی۔ 6:2) محققین نے لکھا ہے کہ ریاء کی مذمت میں یہ آیت نص صریح ہے۔ 1033 ۔ (اور یہ شخص ویسا ہی کو را رہ جائے جیسا پہلے تھا) تشبیہ کا ماحصل یہ ہے کہ کافر اسی طرح اپنے کو قیامت کے دن ہر خیر و خیرات کے اجر سے محروم پائے گا۔ اس کا انفاق مال حقیقۃ کسی صدقہ و خیرات کے حکم میں آتا ہی نہیں (آیت) ” کمثل صفوان “۔ تشبیہ محرومی اجر کے لحاظ سے دی گئی ہے۔ 1034 ۔ ذکر انہی لوگوں کا ہے جو نعمت ایمان سے محروم ہیں۔ (آیت) ” بما کسبوا “۔ یعنی جسے وہ اپنے خیال وپندار میں اپنی کمائی سمجھ رہے ہیں۔ ورنہ بندہ کی کمائی تو حقیقۃ وہی ہے جس پر عمل صالح کا اطلاق ہوسکے اور عمل صالح کی پہلی اور بنیادی شرط ایمان ہے۔ 1035 ۔ (قیامت کے دن ثواب کے گھر یعنی جنت کا) یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو کفر اختیار کیے ہوئے ہیں اور اپنی قوت فیصلہ سے صحیح کام نہیں لے رہے ہیں انہیں زبردستی راہ ہدایت دکھا دینے کا قانون الہی ہے ہی نہیں۔
Top