Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
مناسب بات اور درگزر ایسی خیرات سے بہتر ہے جس کے عقب میں اذیت ہو،1029 ۔ اللہ بڑا غنی ہے، بڑا بردبار ہے،1030 ۔
1029 ۔ (آیت) ” قول معروف “۔ یعنی معذرت کی نرم بات کہہ دینا (آیت) ” مغفرۃ “ یعنی سائل یا حاجت مند کی بات کو اس وقت ٹال جانا جب وہ سختی یا بدتہذیبی سے پیش آنے لگے۔ آیت میں صاف یہ تعلیم ہے کہ صدقہ یا خیرات مقصود بالذات نہیں، مقصود اصلاح قلب ہے اور اس کے بعد دینے والا لینے والے پر کوئی احسان نہیں رکھتا۔ بلکہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ بلکہ الٹا لینے والے کا شکر گزار ہوتا ہے کہ اس نے قبول کرکے اس کو ایک بار سے ہلکا کردیا۔ (آیت) ”۔ اذی “۔ کا لفظ عام ہے۔ ہر قسم کے آزار کو شامل۔ زبان سے یا عمل سے احسان جتانا بھی اس میں آگیا۔ (آیت) ” خیر “۔ ناداری کے وقت نرمی سے جواب دے دینا اور سائل کی سختی کو پی جانا موجب قرب واجر ہیں، اس لیے انہیں خیر سے تعبیر فرمایا۔ 1030 ۔ (آیت) ” غنیی “۔ وہ تمہارا مال تمہارے ہی فائدہ کے لیے خرچ کراتا ہے اور جو کوئی خرچ کرتا ہے وہ اپنے ہی دائمی نفع کے لیے کرتا ہے کوئی مشرک یا مشرک صفت احمق یہ نہ سمجھ لے کہ خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ دیا جاتا ہے وہ خود خدا کو دیا جاتا ہے اور خدا ہمارے زرومال کا محتاج ہے۔ (آیت) ” حلیم “ اس لیے مجرموں اور قانون شکنوں کو جو سز افی الفور نہیں دیتا، سائل کی بدتہذیبی، غنی کی بددماغی سب کو ایک مدت تک معاف کرتا رہتا ہے۔
Top