Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 257
اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓئُهُمُ الطَّاغُوْتُ١ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ وَلِيُّ : مددگار الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے يُخْرِجُهُمْ : وہ انہیں نکالتا ہے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں (جمع) اِلَى : طرف النُّوْرِ : روشنی وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْٓا : کافر ہوئے اَوْلِيٰٓئُھُمُ : ان کے ساتھی الطَّاغُوْتُ : گمراہ کرنے والے يُخْرِجُوْنَھُمْ : وہ انہیں نکالتے ہیں مِّنَ : سے النُّوْرِ : روشنی اِلَى : طرف الظُّلُمٰتِ : اندھیرے (جمع) اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخی ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اللہ ان کا ساتھی ہے جو ایمان لائے،994 ۔ اور انہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال کر لاتا ہے،995 ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے ساتھی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں،996 ۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں اس میں ہمیشہ پڑے رہیں گے،997 ۔
994 ۔ (آیت) ” ولی “۔ ولی کا ترجمہ بھی کسی ایک لفظ سے مشکل ہی ہے۔ ، رفیق، دوست، پشت پناہ، سر پرست سب کے مفہوم اس میں شامل ہیں۔ اور اہل تفسیر سے یہ سب معنی منقول ہیں۔ محبھم ومتولی امورھم (بیضاوی) نصیرھم وظھیرھم یتولاھم بعونہ (ابن جریر) الولی المتکفل بالمصالح (کبیر) معینھم ومحبھم اومتولی امورھم (روح) اہل ایمان کے بگڑے کام بنانے والا۔ آڑے وقت ان کے کام آنے والا اللہ ہی ہے نہ کہ ابن اللہ یا کوئی دیوی دیوتا۔ خفی رد مسیحیوں اور مشرکوں کا یہاں بھی کیا گیا۔ بعض صوفیہ نے آیت سے ولایت عامہ کے اثبات پر استدال کیا ہے، 995 ۔ (اور یہی مومنین کے حق میں سب سے بڑی اور کارآمد نصرت وپشت پناہی ہے) (آیت) ” الظلمت “ سے مراد کفر، انواع کفر اور متعلقات وملحقات کفر ہیں۔ مثلا شک وارتیاب شہوت ممنوع میں غلووغیرہا۔ (آیت) ” النور “ سے مراد ایمان وانوار ایمان ہیں۔ عقل سلیم وذوق شوق وغیرہا کفر وظلمات کی قسمیں بیشمار ہیں اس لیے ظلمات کو صیغہ جمع میں لائے۔ انواع کفر واسباب کفر بہت زائد ہیں۔ دو نقطوں کے درمیان منحنی یا ٹیڑھے خط بیشمار ہوسکتے ہیں۔ سیدھا خط ایک ہی ہوسکتا ہے۔ راہ راست ایک ہی ہے اس لیے (آیت) ” النور “۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی آیا ہے صیغہ واحد ہی میں آیا ہے۔ 996 ۔ (ترغیب، تحریص و تخویف کے ہر ممکن حربہ سے کام لے کر) طاغوت پر حاشیہ اوپر گزر چکا ہے۔ اس کا اطلاق واحد جمع دونون پر ہوتا ہے۔ یہاں معنی میں جمع ہی مراد ہے۔ اور جب فضا ہی ساری کی ساری ظلمات ہو تو ظاہر ہے کہ شیطنت اور بدی کے محرکات کتنے بڑھ جاتے اور ایمان وتقوی کے محرکات کتنے گھٹ جاتے ہیں۔ شیطان بدی کے چہرہ پر طرح طرح کے خوشنما نقاب ڈال، اس کے نام طرح طرح کے خوبصورت رکھ اسے سامنے لانے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ جو اہل ایمان، اہل تقوی ہیں وہی نکوبن کر رہ جاتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی۔ 997 ۔ (کہ انہوں نے اپنی قوت فیصلہ سے کام نہ لے کر راہ کفر وضلالت اختیار کی)
Top