Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 257
اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ۬ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓئُهُمُ الطَّاغُوْتُ١ۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠ ۧ
اَللّٰهُ
: اللہ
وَلِيُّ
: مددگار
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے
يُخْرِجُهُمْ
: وہ انہیں نکالتا ہے
مِّنَ
: سے
الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں (جمع)
اِلَى
: طرف
النُّوْرِ
: روشنی
وَ
: اور
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
كَفَرُوْٓا
: کافر ہوئے
اَوْلِيٰٓئُھُمُ
: ان کے ساتھی
الطَّاغُوْتُ
: گمراہ کرنے والے
يُخْرِجُوْنَھُمْ
: وہ انہیں نکالتے ہیں
مِّنَ
: سے
النُّوْرِ
: روشنی
اِلَى
: طرف
الظُّلُمٰتِ
: اندھیرے (جمع)
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
اَصْحٰبُ النَّارِ
: دوزخی
ھُمْ
: وہ
فِيْهَا
: اس میں
خٰلِدُوْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی اور مددگار اللہ ہے ۔ اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کا حامی و مددگار طاغوت ہے ۔ اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “
اب سلسلہ کلام اور آگے بڑھتا ہے ۔ ایک متحرک اور محسوس انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے ۔ ہدایت کا صراط مستقیم اور گمراہی اور ضلالت کے راستے صاف صاف آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیسی ہے ؟ اسکرین پر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہاتھ سے پکڑ کر اندھیروں سے نکالتے ہیں اور روشنی میں لاتے ہیں جبکہ طاغوت جو کفار کے مددگار ہیں اہل کفر کا ہاتھ تھامے ہوئے انہیں نور ایمان سے ظلمات کفر میں لے جاتے ہیں ۔ یہ ایک عجیب پر کیف زندہ منظر ہے ۔ رہوار خیال کبھی ایک منظر کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اور کبھی دوسرے کی طرف ۔ ادہر سے واپس ہوتا ہے تو ادہر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہ انداز گفتگو ایسے جامد اور غیر متحرک انداز میں کلام کی جگہ اختیار کرتا ہے جو را ہوار خیال کو مہمیز نہیں دے سکتا ۔ نہ اس سے انسانی احساس لطف اندوز ہوسکتا ہے نہ شعور ووجدان میں طلاطم آتا ہے۔ اور جو صرف ذہن انسانی سے بذریعہ الفاظ ہی خطاب کرسکتا ہے ۔ اگر ہم کلام الٰہی کی عظمت کا صحیح اندازہ کرنا چاہیں تو اسی مفہوم کو ہم مختلف الفاظ میں لفظ اور معانی کا اظہار کرسکتے ہیں مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ مسلمانوں کا دوست ہے وہ انہیں راہ ایمان کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر اختیار کرتے ہیں ، وہ انہیں راہ کفر کی طرف کھینچتے ہیں ۔ “ دیکھئے یہ الفاظ اور انداز کلام ہمارے سامنے مردہ پڑا ہے ۔ اس میں وہ گرمی ، وہ حرکت اور القاء نہیں ہے جو کلام الٰہی میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی فصل طریقہ قرآن) لیکن اس حسی اور القائی تصویر کشی کے ساتھ قرآن کریم کا حسن تعبیر اور حقیقت پسندانہ اظہار مفہوم دیکھئے ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ................ ” جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ “ حقیقت یہ ہے ایمان نور ہے ۔ وہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے ایک منفرد نور ہے ۔ اور بیشک کفر اندھیرے ہیں اور یہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے متعدد اور متنوع ہیں لیکن ہیں سب کے سب اندھیرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی تعبیر نور کے ساتھ اور کفر کی تعبیر ظلمات کے ساتھ ایک بہترین تعبیر ہے ۔ یہ نہایت ہی حقیقت پسندانہ انداز تعبیر ہے ۔ جب دل مومن میں پہلے پہل ایمان کی چنگاری سلگتی ہے تو اس کے ذریعہ مومن کی پوری شخصیت نور سے بھرجاتی ہے ۔ اس کی روح روشن ہوتی ہے اور اسے تشفی ہوجاتی ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن کی روح اپنے ماحول میں روشنی پھیلاتی ہے ۔ اس کا ماحول روشن اور واضح ہوجاتا ہے ۔ اس نور سے تمام موجودات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ تمام اقدار کی تشریح ہوجاتی ہے ۔ تمام تصورات حیات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے ۔ مومن کا دل و دماغ ان تمام حقائق کو بغیر کسی ملاوٹ کے واضح طو رپر پالیتا ہے ۔ وہ ہر قدر کو اپنی جگہ دیکھتا ہے اور اسے اس کا صحیح مقام دیتا ہے۔ ایمان ایک ایسا نور ہوتا ہے جس کے ذریعہ ایک مومن اس کائنات میں رائج قانون قدرت کو پالیتا ہے ۔ اب یہ مومن اپنے طرز عمل کو اس کائنات میں رائج قانون قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلیتا ہے ۔ جو اس کے ارد گرد جاری وساری ہوتا ہے ۔ اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ پروقار طریقے سے اپنی راہ پر آگے بڑھتا ہے ۔ وہ اپنی راہ کو چونکہ اچھی طرح پالیتا ہے اس لئے وہ نہ کہیں گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی راہ میں غیر اہم رکاوٹوں کے ساتھ الجھتا ہے ۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو صرف ایک اور منفرد راستہ دکھاتی ہے ۔ کفر کی گمراہیاں تو وہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں ۔ شہوت وخود سری کی تاریکی ، فسق وفجور کی تاریکی ، کبر و غرور اور سرکشی کی تاریکی ، غلامی اور ضعیفی کی تاریکی ، ریاکاری اور نفاق کی تاریکی ، لالچ اور نفع اندوزی کی تاریکی ، شک اور بےچینی کی تاریکی ، غرض بیشمار اور لاتعداد ظلمات ہیں جو سب کے سب کفر وگمراہی کی تاریکیاں ہیں اور سب کا مزاج یہ ہے کہ ان میں گھرا ہوا انسان اللہ کی راہ سے بےطرف ہوجاتا ہے۔ وہ غیر اللہ سے ہدایت حاصل کرتا ہے اور غیر اسلامی نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جونہی ایک انسان اللہ کے اس منفرد نور اس واحد حقیقت پسندانہ اور واضح روشنی کو ترک کردیتا ہے ، وہ کفر کے مختلف اندھیروں میں سے کسی اندھیرے میں پھنس جاتا ہے ۔ یہ اندھیرے متنوع ہیں اور سب ہپی اندھیرے ہیں ۔ اور ان اندھیروں کا انجام کیا ہے ؟ جو لوگ ان اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ................ ” یہ لوگ آگ والے ہیں اور یہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں ۔ “ اگر یہ لوگ اسلام کی روشنی میں راہ پانے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہمیشہ آگ میں رہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی ایک اور منفرد حقیقت ہے ۔ سچائیاں دو نہیں ہوسکتیں اور گمراہی کی مختلف انواع و اقسام ہیں اور حق وصداقت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب گمراہی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کرکے آگے بڑھیں ، مناسب یہ ہے کہ ہم اس قاعدے یعنیلاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے بارے میں ایک اصولی بات کردیں ۔ اس قاعدہ کلیہ کے ساتھ ساتھ اسلام میں فرضیت جہاد کا بھی حکم دیا گیا ہے اور ایسے مواقع پیش آئے ہیں جن میں اسلام نے جہاد میں حصہ لیا ہے ۔ حالانکہ ایک سابقہ آیت میں کہا گیا ہے ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ (بقرہ 193) ” اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور نظام زندگی اللہ کا ہوجائے ۔ “ اسلام کے بعض مفاد پرست دشمنوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ لاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے اصولی قاعدہ کے ساتھ ساتھ جہاد کی فرضیت کا حکم دینا ایک متضاد بات ہیں۔ اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے بظاہر اسلام کی مدافعت کرتے ہوئے اور بباطن اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شعور سے جذبہ جہاد ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگ فریضہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام کے قیام اور اس کی نشرواشاعت میں فریضہ جہاد نے بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔ ایسے لوگ بڑی مکاری سے ، نہایت ہی نرم انداز سے اور نہایت ہی حکیمانہ انداز سے مسلمانوں کے دل میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ آج جہاد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور نہ آئندہ کبھی فریضہ جہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ بظاہر یہ لوگ یہ بات اسلام کی مدافعت میں کرتے ہیں (دیکھئے آرنلڈ کی کتاب ” دعوت اسلامی “ ترجمہ ڈاکٹر ابراہیم حسن وبرادرز) یہ دونوں قسم کے لوگ مستشرقین ہیں ۔ جو ایک ہی میدان میں کام کرتے ہیں ۔ یہ دونوں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ یہ اسلامی منہاج میں تحریف کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ اس شعور کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نظام جہاد ایک مسلمان کے نفس میں پیدا کردیتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے شعور جہاد سے خائف ہیں ۔ اس لئے کہ میدان جہاد میں وہ کبھی بھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے ۔ اس لئے اس شعور کو مٹاکر یہ اپنے لئے امن و اطمینان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جب سے انہوں نے دل مسلم سے جہاد ختم کیا ہے یا اسے الجھا دیا ہے ، انہوں نے امت مسلمہ کے جسم پر مختلف پہلوؤں سے ضرب ہائے کاری لگائی ہیں اور ہر میدان میں اسے شکست دے دی ہے ۔ یہ لوگ امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم اقوام اور استعماری قوم کی جنگ فقط معاشی اور تجارتی منڈیوں کی جنگ ہے ۔ لہٰذا اس جنگ میں امت مسلمہ کو جذبہ جہاد کو بیچ میں نہیں لاناچا ہئے جو فقط نظریاتی جنگ میں کارآمد ہوتا ہے ۔ اس لئے اس دور جدید میں جہاد کی بات بلاجواز ہے ۔ اسلام نے پہلے پہل جہاد اس وقت شروع کیا جس وقت مسلمانوں پر مظالم توڑے جارہے تھے تاکہ ان کی جان ، مال اور نظریہ حیات کو محفوظ کیا جاسکے ۔ یعنی جہاد برائے قیام امن ۔ اس تفسیر کے حصہ دوئم میں اس اصول کی تشریح آیت وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ................ ” اور فتنہ و فساد قتل سے زیادہ شدید ہیں “ کی تفسیر کے موقع پر کرچکے ہیں ۔ اس اصول کے مطابق اسلام نے نظریاتی تشدد اور اس کی وجہ سے جسمانی اذیت اور اہل نظریہ پر بوجہ نظریہ ظلم وتشدد کو قتل سے زیادہ شدید قرار دیا ۔ اس اصول کے مطابق نظریات کی قدر و قیمت انسانی زندگی سے بھی زیادہ ہے ۔ اگر ایک مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی جان کی حفاظت میں ہتھیار اٹھاسکتا ہے تو اسے بطریق اولیٰ اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے دین ، عقیدے اور نظریہ کی حفاظت اور دفاع میں ہتھیار اٹھائے ۔ اس وقت مسلمان محض اپنے عقیدے کی وجہ سے ظلم وتشدد کی چکی میں پس رہے تھے ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ وہ اپنی عزیز ترین دولت یعنی دولت ایمان کی مدافعت میں ہتھیار اٹھائیں ۔ ان پر یہ تشدد محض ان کے عقیدے کی وجہ سے ہورہا تھا اور کرہ ارض کے مختلف حصوں میں ان پر یہ مظالم ڈھائے جارہے تھے ۔ سرزمین اندلس نے ان وحشیانہ مظالم کو دیکھا ہے ۔ وہ اس اجتماعی قتل و غارت کی گواہ ہے ۔ جو مسلمانوں پر محض ان کے دین اور عقیدے کی وجہ سے ڈھائے گئے ۔ پھر یہ سرزمین ان مظالم کی بھی گواہ ہے جو وہاں عیسائیوں کے کیتھولک فرقے نے دوسرے فرقوں کے خلاف روا رکھے تاکہ انہیں زبردستی کیتھولک بنایاجائے۔ آج اسپین کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے مسلمان اور دوسرے عیسائی فرقوں کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے ۔ پھر بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے اسلامی علاقے صلیبی حملوں سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ جن کا ہدف صرف اسلامی نظریہ حیات اور دین اسلام پر غلبہ پانا تھا ۔ ان جنگوں کا دفاع بھی اہل اسلام نے اسلامی نظریہ حیات کے پلیٹ فارم سے کیا اور وہ اس میں بہت اچھی طرح کامیاب رہے ۔ اور اس علاقے کو اندلس کے انجام بد سے بچالیا ۔ آج بھی اشتراکی علاقوں ، بت پرست علاقوں ، یہودی علاقوں اور مسیحی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور یہ محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ لہٰذا اگر صحیح معنوں میں مسلمان ہیں تو آج بھی ان پر جہاد فرض ہے جس طرح پہلے فرض تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف ان مظالم کو بند کیا جاسکے ۔ اسلام کے نظریہ جہاد کی پشت پر دوسرا محرک یہ تھا کہ نظریاتی آزادی کے بعد نظریاتی دعوت وتبلیغ کی آزادی کے لئے بھی مواقع پیدا کئے جائیں ۔ اس لئے اسلام انسانی زندگی اور اس کائنات کا ایک بہترین حل پیش کرتا ہے ۔ وہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی نشوونما کے لئے ایک بہترین نظام تجویز کرتا ہے ۔ وہ اس بہترین عقیدے اور مکمل نظام کو پوری انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ تاکہ وہ اسے سنیں اور سمجھیں ۔ اور سننے اور سمجھنے کے بعد پھر وہ آزاد ہیں کہ وہ اسے قبول کرلیں یا رد کردیں ۔ اس لئے کہ دین وہ عقیدے کے بارے میں وہ کسی جبر واکراہ کا قائل نہیں ہے ۔ لیکن مکمل نظریاتی آزادی سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام انسانوں تک اسلامی پیغام کے پہنچنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے یہ پیغام تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ لہٰذا وہ تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں جو عوام الناس کو اس پیغام کے سننے ، اسے قبول کرنے اور اگر وہ چاہیں تو قافلہ ہدایت یافتگان میں شامل ہونے کی راہ میں حائل ہیں ۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کرہ ارض پر قائم طاغوتی نظام زندگی ہوتا ہے ۔ یہ نظام عوام الناس اور اس پیغام کی راہ میں حائل ہوتا ہے ۔ اور جو لوگ کسی طرح اس عقیدے اور پیغام کو سن کر اپنالیتے ہیں۔ یہ طاغوتی نظام ان پر تشدد شروع کردیتا ہے ۔ لہٰذا اسلام نے جب بھی جہاد کیا ہے اس نے ایسے باطل اور طاغوتی نظامہائے زندگی کا قلع قمع کیا ہے ۔ اور اس نے ایسے نظاموں کی جگہ ایسا عادلانہ نظام زندگی قائم کیا ہے جس میں ہر جگہ دعوت حق اور داعی حق کو پوری پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ مقصد اور ہدف آج بھی قائم ہے ۔ لہٰذا آج بھی مسلمانوں پر جہاد فرض ہے تاکہ وہ اس پیغام کو عام کرسکیں بشرطیکہ مسلمان ، مسلمان ہوں۔ ایک دوسرا مقصد جس کے لئے اسلام نے جہاد کو روا رکھا ہے وہ اسلامی نظام زندگی کا قیام اور اس کی حفاظت ہے۔ یہ واحد نظام زندگی ہے جو ایک انسان کو اپنے دوسرے انسان بھائی تک رسائی حاصل کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اور اس میں ہر انسان دوسرے انسان کی نسبت سے بالکل آزاد بھی ہے ۔ اس نظام میں بندگی صرف خدائے واحد بلندو برتر کے لئے مخصوص ہے ۔ اور یہ نظام اس دنیا سے انسان کی جانب سے دوسرے انسان کے لئے ہر قسم کی غلامی کا قلع قمع کردیتا ہے ۔ اس نظام میں کوئی فرد ، کوئی طبقہ اور کوئی قوم دوسرے انسان کے لئے قانون سازی کا کام نہیں کرسکتی ۔ اور نہ اس قانون سازی کے ذریعہ انسانوں کو کوئی اپنا غلام اور زیر دست بناسکتا ہے ۔ اس نظام میں سب انسانوں کا ایک ہی رب ہے ۔ وہ تمام انسانوں کے قانون وضع کرتا ہے بالکل مساوات کے ساتھ ۔ اور تمام انسان صرف اس رب کی بارگاہ میں خضوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں ، صرف اس رب واحد کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ اس نظام میں انسان کی جانب سے کسی دوسرے انسان کی اطاعت صرف ایک ہی صورت میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کا نافذ کنندہ ہو۔ اور امت کی جانب سے نفاذ شریعت کا کام اس کے سپرد کردیا گیا ہو ۔ نفاذ شریعت کا کام بھی کوئی از خود نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ قانون سازی صرف اللہ کا کام ہے ۔ انسانی زندگی میں شریعت شان خداوندی کا اظہار ہے ۔ اس لئے کوئی انسان اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے شریعت سازی کا کام مخصوص کرسکے حالانکہ وہ صرف ایک بندہ اللہ ہے ۔ یہ اسلامی نظام حیات کا اصل الاصول ہے اور اس اصول ودستور کے نتیجے میں ایک ایسا پاک اخلاقی نظام زندگی پرورش پاتا ہے جس میں تمام بنی نوع انسان کو کامل حریت اور آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ان انسانوں کو بھی جو اسلامی عقیدہ حیات کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے ۔ اس نظام میں ہر شخص کی عزت محفوظ ہوتی ہے ، یہاں تک کہ جو لوگ اسلامی نظام زندگی کو قبول ہی نہیں کرتے ہر اس باشندے کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں جو کسی اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہوتا ہے ۔ چاہے اس کا عقیدہ جو بھی ہو ۔ اس نظام میں کسی بھی شخص کو اسلامی عقیدہ اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں دین کے بارے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں صرف تبلیغ کی آزادی ہوتی ہے۔ محض اسلام نے جہاد کو اس لئے فرض کیا ہے کہ وہ دنیا میں مذکورہ بالا ارفع اور اکمل نظام زندگی کو قائم کرے اور اس کی حمایت اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے ۔ یہ اسلام کا حق تھا کہ وہ بذریعہ جہاد باطل اور فاسد نظام ہائے زندگی کا قلع قمع کردے جو اس اصول پر قائم تھے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کے غلام ہیں اور جن میں بعض انسان خدائی کے مقام کے مدعی ہوتے ہیں جو خدائی فرائض سنبھالتے ہیں ، حالانکہ یہ ان کا حق نہیں ہوتا ۔ اور ظاہر ہے کہ جب اسلام اس نصب العین کو لے کر اٹھتا ہے تو باطل نظامہائے زندگی بھی اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ اسلام ان طاغوتی نظاموں کا قلع قمع کرکے ان کی جگہ اس کرہ ارض پر اپنے ارفع اور اکمل نظام کا اعلان کردے ۔ اور پھر اس نظام کے زیر سایہ انہیں اپنے مخصوص عقائد کے اندر آزادی عطاکردے اور ان پر صرف اسلام کے اجتماعی سول کوڈ ، اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو ۔ رہے دینی اور قلبی عقائد ورجحانات تو وہ ان میں مکمل طور پر آزاد ہیں ۔ ان کے شخصی قوانین ومعاملات میں بھی وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اپنے عقائد کے مطابق اپنے معاملات طے کریں لیکن اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہو جو ان کی حفاظت کرے ۔ ان کی آزادی اس کے سایہ میں محفوظ ہو ۔ ان کو مکمل آزادی رائے حاصل ہو ۔ ان کی عزت محفوظ ہو اور ان کے مکمل اساسی حقوق انہیں حاصل ہوں لیکن اس نظام کے دائرے کے اندر۔ یہ جہاد اب بھی باقی ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے اس جہاد کو قائم رکھیں ۔ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ ” یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور جنس دین اللہ کا ہوجائے۔ “ اور اس دنیا سے انسان کی خدائی ختم ہو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی اور غلامی دنیا میں نہ رہے ۔ (مسئلہ جہاد کی زیادہ وضاحت کے لئے ملاحظہ فرمائیے کتاب الجہاد فی الاسلام مصنفہ المسلم العظیم سید ابوا لاعلیٰ مودودی ۔ نیز میری کتاب ” السلام العالمی فی الاسلام “ (سید قطب) غرض اسلام نے تلوار اس لئے نہیں اٹھائی کہ وہ لوگوں کو اسلامی اعتقادات اور تصورات اپنانے پر مجبور کردے ۔ نہ دنیا میں اسلام کا پھلاؤ تلوار کے بل بوتے پر ہوا ہے جیسا کہ اسلام کے بعض اعداء اسلام یہ الزام لگاتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جہاد اس لئے شروع کیا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پر امن نظام زندگی قائم کردے جس کے سائے میں تمام عقائد اور مختلف دینی تصورات رکھنے والے لوگ امن وآشتی کی زندگی بسر کرسکیں ۔ ہاں وہ اسلام کے سیاسی دائرے عمل میں رہتے ہوئے اپنے عقائد محفوظ رکھیں اور آزادی سے رہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی عقائد قبول نہ کریں۔ اسلامی نظام کے وجود ، اس کے پھیلاؤ اور اہل اسلام کے امن و سکون کے لئے اور ان لوگوں کے امن و اطمینان کے لئے جو لوگ اس نظام زندگی میں داخل ہونا چاہتے تھے اسلام کی مسلح قوت کی اشد ضرورت تھی ۔ نیز اقامت دین اور حفاظت دین کے لئے بھی مسلح قوت کا وجود از بس ضروری تھا ۔ اسلامی جہاد کا ادارہ کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہ تھا ۔ نہ وہ ایسا تھا کہ اس کی اس وقت کوئی ضرورت نہ ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو یا یہ کہ مستقبل میں اس کی ضرورت نہ ہو ۔ مسلمانوں کا بدترین دشمن یہ بات ان کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے ۔ اس نظام کو ایک اجتماعی قوت کی ضرورت ہے ۔ اور یہ قوت اسلام کے جذبہ جہاد میں مضمر ہے ۔ یہ اسلام کا مزاج ہے جس کے بغیر نہ اسلام قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................” دین میں جبر نہیں ہے “ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید یہ حکم بھی دیتا ہے وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ” اور تم لوگ ، جہاں تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ “ اسلام کی نظر میں یہ بنیادی نقطہ ہے اور اسی کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنا چاہئے اور اسی نقطہ نظر سے اہل اسلام کو اپنی تاریخ پڑھنا چاہئے ۔ اسلام کے نظریہ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو ایسا موقف اختیارنہ کرنا چاہئے جس میں وہ ایک ملزم کی طرح کھڑے ہوں اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ اس سلسلے میں انہیں ایک پر اعتماد ، پر عزم اور خود دار شخص کا موقف اختیار کرنا چاہئے جسے یہ یقین ہو کہ وہ اس دنیا کے تمام تصورات سے بلند تر ہے ۔ اسلامی نظام تمام نظاموں کے مقابلے میں بلند تر ہے ۔ دین اسلام تمام ادیان سے بالاتر ہے۔ اہل اسلام کو ان لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے جو بظاہر دین اسلام کا دفاع کررہے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان کے دل و دماغ سے تصور جہاد کھرچ کھرچ کر نکال رہے ہیں تاکہ وہ خود اسلام دشمن اقوام کو محفوظ کرسکیں ۔ جہاد دراصل ظالم طاغوت کی برتری کو ریزہ ریزہ کرنے والا عمل ہے ۔ اور جہاد میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے ۔ اور انسانیت کا سب سے بڑ دشمن وہ شخص ہے جو اسے جہاد سے محروم کرتا ہے اور انسانیت اور جہاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ۔ لہٰذا یہ شخص انسانیت کا دشمن نمبر ایک قرار پاتا ہے۔ اور انسانیت میں اگر رشد وہدایت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس عظیم دشمن انسانیت کا پیچھا کرے ۔ اس لئے کہ اہل ایمان امت مختار ہیں ۔ انہیں دولت ایمان سے برگزیدہ بنایا گیا ہے ۔ اس لئے خود ان کے اپنے نفوس کے لئے بھی اور پوری انسانیت کی خاطر بھی یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ منکر جہاد کا تعاقب کریں اور یہ ان کا ایسا فریضہ ہے جس کے بارے میں ازروئے شریعت وہ عنداللہ مسئول ہیں۔
Top