Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 244
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
مسلمانو ! اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور جان رکھو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
قرض حسنہ تشریح : اس آیت میں قرض حسنہ کا حکم دیا گیا ہے۔ قرض حسنہ اس قرض کو کہتے ہیں جو بغیر احسان اور بغیر معاوضہ کے کسی کو صرف مدد کے طور پر خوشی سے دیا جائے اور واپسی کے لئے مطالبہ بھی نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو تو کسی سے قرض لینے کی ہرگز ضرورت نہیں، یہ تو انسان کے لئے ایک نیک کام کرنے کا راستہ بتایا گیا ہے کہ اگر انسان بغیر لالچ کے صرف اللہ کی خوشی حاصل کرنے کیلئے اپنا روپیہ پیسہ جہاد کے لئے یا کسی بھی فلاحی کام کے لئے خرچ کرے گا تو اللہ اس کو اس سے کئی گنا زیادہ ثواب اور اجر دے گا۔ اس لئے اللہ نے حکم دیا کہ دین اسلام کی خاطر دشمنوں سے لڑو، مرنے سے ہرگز نہ ڈرو جیسا کہ پچھلی آیت میں بتایا گیا ہے یہودیوں کی مثال دے کر کہ موت سے بچانے والا اور مارنے والا صرف اللہ ہی ہے اس لئے جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مرجائیں ان کے لئے بیشمار انعامات اللہ نے تیار کر رکھے ہیں۔ اس لئے ویسے ہی مرجانے سے کئی درجہ بہتر ہے کہ جہاد میں شہید ہو کر بڑے رتبے حاصل کریں اور اسی طرح اپنا مال و دولت بھی جہاد کیلئے خرچ کریں تو وہ بھی ہمیں کئی گنا زیادہ ہو کر ملے گا ویسے بھی مال و دولت تو اللہ ہی کی طرف سے ملتا ہے۔ وہ چاہے تو کم کر دے، چاہے تو مال بڑھا دے۔ ہر وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم نے تو آخر مرجانا ہے اور مر کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے پھر کیوں نہ اللہ ہی کی خوشی کے لئے زندہ رہیں اسی کی خوشی کے لئے مریں اور اسی کی خوشی کے لئے مال و دولت خرچ کریں۔ تاکہ دنیا میں بھلائی اور آخرت میں نجات حاصل کریں۔ علامہ اقبال نے مومن کی شہادت یوں بیان کی ہے۔ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن قرض حسنہ
Top