Tafseer-e-Madani - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
(آخر کار) نوح نے (نہایت درد بھرے انداز میں اپنے رب کے حضور) عرض کیا کہ اے میرے رب بیشک میں نے بلایا اپنی قوم کو (حق و ہدایت کی طرف) دن کو بھی اور رات کو بھی
7 ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا استغاثہ اپنے رب کے حضور : سو ارشاد فرمایا گیا کہ سیدنا نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور عرض کیا، یعنی آنجناب نے اپنی قوم کا استغاثہ اپنے رب کے حضور پیش کیا اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت دینے کے فورا بعد ہی ان لوگوں کے بارے میں اس طرح کا اظہار فرما دیا نہیں، بلکہ یہاں پر دراصل کم و بیش ایک ہزار برس کی طویل تاریخ کو قرآن حکیم کی بےمثل اعجاز اور ایجاز بیان کی بناء پر ان مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا گیا، جس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہم نے یہاں پر اپنے ترجمے میں بین القوسین کے یہ لفظ بڑھا دیے ہیں، والحمدللہ رب العالمین جل وعلا۔ اور یہاں سے دراصل حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا دوسرا مرحلہ بیان فرمایا جارہا ہے جبکہ آپ دیکھا کہ اتنے طویل عرصے کی محنت اور دن رات کی لگاتار دعوت کے باوجود اس بدبخت قوم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا اور وہ بدستور اپنے کفر و انکار پر اڑی ہوئی ہے، تو آپ نے اپنے رب کے حضور استغاثہ پیش کرتے ہوئے اس طرح عرض کیا۔ واضح رہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جتنا طویل عرصہ اپنی قوم کو دعوت دی اس کی دوسری کوئی مثال پوری تاریخ انسانیت میں نہیں مل سکتی۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام۔
Top