Tadabbur-e-Quran - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
نوح نے اپنے رب سے دعا کی، اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا
حضرت نوحؑ کی دعوت کا دوسرا مرحلہ: یہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے دوسرے مرحلہ کا بیان آ رہا ہے جب آپ نے اپنے رب سے استغاثہ کیا ہے کہ ان کی شب و روز کی ساری تگ و دو جو دعوت کی راہ میں انھوں نے کی وہ قوم پر بالکل بے اثر رہی۔ یہ امر واضح رہے کہ جتنی طویل مدت تک حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی ہے اس کی کوئی مثال معلوم نہیں ہے۔ قرآن میں تصریح ہے کہ ’فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَۃٍ إِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا‘ (العنکبوت ۲۹: ۱۴) (پس وہ اپنی قوم کے اندر پچاس سال کم ایک ہزار سال رہا)۔ ’دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْْلاً وَنَہَارًا‘ کے الفاظ میں بھی ظاہر ہے کہ کسی مبالغے کا شائبہ نہیں ہو سکتا۔ رسول چونکہ اپنی قوم کے لیے عدالت بن کر آتا ہے، اس کی تصدیق یا تکذیب ہی پر اس کی قوم کی زندگی یا موت کا انحصار ہوتا ہے اس وجہ سے یوں تو ہر رسول نے دعوت کی راہ میں اپنے رات دن ایک کر دیے ہیں اور اپنی طاقت کا ایک ایک قطرہ نچوڑ دیا ہے لیکن حضرت نوح علیہ السلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ نے جتنی طویل مدت تک اپنی قوم کو جھنجھوڑا اور جگایا، اس کی کوئی مثال، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا جو حاصل رہا وہ خود آپؑ ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَاءِیْ إِلَّا فِرَاراً‘ (جتنا ہی زیادہ میں نے ان کو پکارا وہ اتنا ہی زیادہ مجھ سے بھاگے)۔ یہ گریز و فرار ظاہر ہے کہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں کوئی بات عقل و فطرت کے خلاف تھی یا ان کی قوم کے لوگوں کو ان کے خلوص اور ان کی راست بازی میں کوئی شبہ تھا۔ ان کی دعوت کی معقولیت بھی ہر شخص پر واضح تھی اور ان کی صداقت کا بھی ہر شخص اپنے دل میں معترف تھا لیکن ان کی دعوت چونکہ نفس کی خواہشوں کے خلاف تھی اور اس کے قبول کرنے سے قوم کے لیڈروں کے استکبار پر چوٹ پڑتی تھی اس وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے جتنا ہی ان کا تعاقب کیا اتنا ہی وہ بھاگے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ حضرت نوحؑ کی باتوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اپنی زندگی کو بدلنا ان کے لیے ناممکن ہے تو سلامتی گریز و فرار ہی میں ہے تاکہ اپنے مجرم ضمیر کو احساس جرم کی اذیت سے بچا سکیں۔ اگرچہ یہ تدبیر ایک اوچھی تدبیر ہے لیکن حقیقت سے فرار اختیار کرنے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر اور کیا ہو سکتی ہے۔
Top