Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
بھلی بات (کہہ دینا) اور (کسی ناگواری کی صورت میں) درگزر کرلینا، کہیں بہتر (اور بڑھ کر) ہے ایسے صدقہ (و خیرات) سے، جس کے بعد ستایا جائے، اور اللہ بڑا ہی بےنیاز، نہایت ہی بردبار ہے،
759 اللہ تعالیٰ کی صفت غنا اور حلم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ بڑا ہی بےنیاز نہایت ہی بردبار ہے۔ پس اس غنی مطلق ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کے نام پاک پر دینے کو تم لوگ اپنی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی جانو اور احسان جتلانے کی بجائے اپنے اوپر اس کا احسان مانو کہ وہ تم کو ایسے مواقع فراہم فرماتا ہے جن میں خرچ کرنے سے خود تمہاری ہی سعادت و بھلائی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہان میں بھی۔ اور وہ غنی مطلق اور بےنیاز ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا ہی حلیم اور بردبار بھی ہے۔ پس وہ اگر کسی کو اس کے جرم و گناہ پر فوراً نہیں پکڑتا تو اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ یہ اس حلیم مطلق کے حلم بیکراں کا ایک مظہر اور تقاضا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور یہ اس کے حلم و کرم ہی کا ایک مظہر ہے کہ نیکو کار اور بدکار سب ہی اس کے خزانے سے رزق پا رہے ہیں۔ ورنہ وہ اگر اپنے بندوں کو ان کی کوتاہیوں اور نافرمانیوں پر اپنے فضل و کرم سے محروم کردیا کرے تو پھر کون ہے جو کسی فضل کا مستحق قرار پا سکے ؟۔ پس اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بندوں کے اندر بھی ان صفات کا عکس واظہار ہو۔ سو جن کو اس نے غنی بنایا ہو ان کے اندر ان کے غنا کے بقدر حلم اور بردباری بھی ہونی چاہئے۔ وباللہ التوفیق ۔ بہر کیف وہ غنی مطلق جب تم لوگوں سے مانگتا ہے اور اپنے نادار بندوں کے لئے مانگتا ہے تو اس سے تمہیں یہ سبق لینا چاہئے کہ تم اپنے ان نادار بھائیوں کیلئے از خود اپنے مال خرچ کرو ـ۔
Top