Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 72
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا
وَمَنْ : اور جو كَانَ : رہا فِيْ هٰذِهٖٓ : اس (دنیا) میں اَعْمٰى : اندھا فَهُوَ : پس وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اَعْمٰى : اندھا وَاَضَلُّ : اور بہت بھٹکا ہوا سَبِيْلًا : راستہ
اور جو کوئی اندھا بن کر رہا ہوگا، اس (دنیا کی زندگی) میں تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا، بلکہ اس سے بھی زیادہ گمراہ،
131۔ نورحق و ہدایت سے منہ موڑنے والے اندھے اور اوندھے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور جو کوئی اندھا بن کر رہا ہوگا دنیا میں “ حق کے دیکھنے اور اس کے ماننے اور قبول کرنے سے اور اس نے اپنی زندگی کی پونجی اپنے پیٹ کو بھرنے اور خواہشات نفس کی تکمیل ہی میں صرف کردی ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس طرح اس نے اپنے آپ کو انسانیت کے منصب شرف و امتیاز سے گرا کر حیوانیت کے قعر مذلت میں ڈال دیا ہوگا۔ جس کے نتیجہ میں وہ بڑے ہی ہولناک خسارے میں مبتلا ہوگیا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو نور حق و ہدایت سے منہ موڑنے والے اندھے اور اوندھے ہیں اگرچہ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے والے ہوں۔ کیونکہ وہ نہ اپنے انجام اور حقیقی منزل سے آگاہ ہیں اور نہ ان کو اپنے مقصد زندگی کا پتہ اور نہ راہ حق و ہدایت سے کوئی آگہی۔ سو ایسے بدنصیب اور محروم لوگ انسانیت کے منصہ شرف سے گر کر حیوان محض بلکہ بدترین حیوان اور ” شرالبریہ “ بن کر رہ جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 132۔ نورحق و ہدایت سے محروموں کیلئے دنیا وآخرت کی دائمی محرومی ،۔ والعیاذ باللہ العظیم :۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ نور حق و ہدایت سے محروم ایسا بدبخت انسان آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ سو وہ محروم رہے گا راہ جنت اور شرف نجات سے کہ ایسوں کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا طبعی اور لازمی نتیجہ یہی تھا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ” وما الثمر الا بحسب الشجر “ یعنی پھل ویسے ہی ملے گا جیسا کہ درخت ہوگا۔ سو دنیا کی اس کھیتی میں انہوں نے جو کاشت کی ہوگی اسی کا پھل ان کو وہاں اس صورت میں ملے گا۔ والعیاذ باللہ پس جو لوگ ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہیں اور وہ آخرت کو بھول کر صرف دنیا ہی کیلئے جی رہے ہیں وہ یقینا اندھے اوندھے اور پرلے درجے کے محروم ہیں اگرچہ دنیاوی اعتبار سے وہ کتنے ہی تیز کیوں نہ ہوں اور دنیا ان کو کیا کچھ کہتی اور مانتی کیوں نہ ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس ارشاد سے اصحاب الیمین کے بالمقابل اصحاب الشمال کا حال اور ان کا انجام ومآل بیان فرما دیا گیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ تاکہ اس کی روشنی میں انسان اپنے ارادہ واختیار سے راہ حق وصواب کو اپنائے۔ 133۔ منکرین و مکذبین کی آخرت کی محرومی و بدحالی بدرجہا زیادہ ہوگی :۔ سو اس روز ان کی یہ محرومی اتنی بڑی اور اس قدر ہولناک ہوگی کہ اس کے بیان کا احاطہ و ادراک بھی کسی کے لئے ممکن نہیں۔ سو فرمایا گیا کہ اس سے بھی کہیں زیادہ گمراہ ہوں گے۔ کیونکہ اس کے بعد ایسوں کیلئے راہ نجات اور دولت ہدایت پانے کا سرے سے کوئی موقع اور کوئی امکان ہی نہیں ہوگا۔۔ والعیاذ باللہ۔ حیات دنیا کی جو فرصت محدود انکو ملی تھی وہ ان کے ہاتھ سے جا چکی ہوگئی۔ روح ان سے نکل چکی ہوگی۔ اب جو کچھ دنیا میں کمایا تھا وہ ہی ان کا سرمایہ ہوگا۔ خیر ہوگا تو بھی اور شر ہوگا تو بھی۔ اب ایسے کسی شخص کیلئے نہ کسی نیکی کے اضافے کا کوئی موقعہ اور نہ توبہ واستغفار وغیرہ سے کسی گناہ کے مٹانے اور معاف کرانے کی کوئی گنجائش۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو نور حق و ہدایت سے منہ موڑنے والے ان بدبخت اور محروم لوگوں کی اپنی اصل اور حقیقی منزل سے جو دوری آج ہے اس روز ان کی یہ دوری اس کی نسبت کہیں زیادہ ہوگی کہ آخرت کے اس جہان غیب کے ظہور وبروز کے بعد ان کیلئے صراط مستقیم کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس آیت کریمہ سے واضح فرما دیا گیا کہ اصحاب شمال کی وہ محرومی ان کے اپنے عمل و کردار کی بناء پر ہوگی کہ وہ دنیا میں اندھے بن کر رہے تھے۔ اس لیے اس روز اندھے ہی اٹھیں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس کے مقابلے میں اصحاب الیمین کی یہ سعادت مندی اور سرفرازی ان کے اپنے عمل و کردار کی بناء پر ہوگی کہ انہوں نے نور حق و ہدایت سے سرفرازی کیلئے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھا۔ اور راہ حق کو روشن کرنے کیلئے قدرت کی قائم فرمودہ ایک ایک نشانی کو انہوں نے صحیح طور پر دیکھا اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اور اس طرح وہ سعادت دارین سے سرفراز و سرخرو ہوئے، والحمد للہ جل وعلا۔
Top