Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور کہو میرے بندوں سے (اے پیغمبر ! ) کہ وہ بات ہمیشہ وہی کریں جو ہر لحاظ سے اچھی ہو، کہ شیطان (ناروا بات کے ذریعے) ان کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش میں رہتا ہے، بلاشبہ شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے،
93۔ مسلمانوں کو حسن تخاطب کی تعلیم و تلقین :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” میرے بندوں سے کہو کہ وہ ہمیشہ وہی بات کہا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ “ جس میں حق کا بیان واظہار وہ اور جو حق کیلئے اور حق کے ذریعے کہی جائے اور اس سے مقصود نصیحت وخیر خواہی ہو۔ فایاک نسئال اللہم التوفیق لذالک والسداد والثبات علیہ بہرکیف بھلی بات کہنے کی تعلیم ایک بڑی اہم اور بنیادی تعلیم ہے جس سے بسا اوقات بڑے بڑے فساد ٹل جاتے ہیں اور حالات کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ جبکہ غلط بات سے آگ لگ جاتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اس لئے حکم وارشاد فرمایا گیا کہ ” میرے بندوں سے کہو کہ وہ ہمیشہ وہی بات کہا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ “ مخالفین کی بیہودہ باتوں سے متاثر ہو کر اور اشتعال میں آکر انہی کی زبان میں ان کا جواب نہ دیں بلکہ صحیح اور سچی بات کہنے اور پہچانے ہی کو اپنا شیوہ اور طریقہ بنائیں۔ سو حسن تخاطب اور ملاطفت کا نتیجہ وانجام بہرحال بہت اچھا اور عمدہ ہوتا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید بکل حال من الاحوال۔ وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 94۔ شیطان کے شر اور فساد سے محتاط رہنے کی ضرورت :۔ سو اس اہم حقیقت سے خبردار کرنے اور آگہی بخشنے کیلئے ارشاد فرمایا گیا کہ ” بیشک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈالونے کی کوشش کرتا ہے۔ “ اور اس کیلئے وہ لعین ایسے مواقع کی تاڑ اور تاک میں رہتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اس لیے تمہیں اے مسلمانوں اس کی شرانگیزی سے ہمیشہ محتاط رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ایسی ہر بات سے گریز کرنا چاہئے جو فتنے اور فساد کا باعث بن سکتی ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو تمہیں ہمیشہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تمہارا وہ کھلا دشمن ایسے کسی مواقع سے فائدہ اٹھا کر فتنہ و فساد برپا کردے اور تمہارے سارے کام کو بگاڑ کر رکھ دے کہ وہ اس طرح کے مواقع کی تاک میں رہتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم من الشیطان ومکرہ وشرہ فی کل موطن المواطن فی الحیاۃ، 95۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن۔ والعیاذ باللہ العظیم :۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور کلمہ تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ ” بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ “ اور اپنی اس دشمنی کا اعلان وہ حضرت حق۔ جل مجدہ کے سامنے کرچکا ہے کہ ” میں جہاں تک میرا بس چلا آدم کی اولاد کو گمراہ کرکے اور دوزخ کی راہ پر ڈال کر چھوڑوں گا۔ “۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے تم لوگ اندازہ کرسکتے ہو کہ وہ تم سے کس قدر دشمنی رکھتا ہے اور کس طرح تمہارے تعاقب میں رہتا ہے۔ لہذا تمہیں ہمیشہ اور ہر موقع پر اس کے مکروفریب سے محتاط اور چوکنا رہنا ہوگا۔ وہ ہمیشہ اور ہر موقعہ پر تمہیں نقصان پہنچانے کی تاک میں رہے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے ہتھیار کے ذریعے دوسرے کی طرف اشارہ نہ کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان اس کے ہاتھ سے ہتھیار چھھین کر اگلے کو نقصان پہنچا دے اور اس کے نتیجے میں یہ سیدھا جاکر دوزخ کے گڑھے میں جاگرے۔ (صحیح بخاری ومسلم وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top