Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور (اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں میرے بندوں سے کہ وہ کہیں وہ بات جو بہتر ہے بیشک شیطان جھگڑا ڈالتا ہے ان کے درمیان بیشک شیطان انسان کے لیے کھلا دشمن ہے ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں عقیدے کے بارے ہیں اہم مضامین کا ذکر ہوچکا ہے ، اللہ نے مشرکین کا رد فرمایا ، کفار کی مذمت بیان فرمائی اور رسالت کے متعلق شکوک و شبہات کے جوابات دیے اس کے بعد قیامت کا مسئلہ بیان کیا کہ لوگ اس کو بعید خیال کرتے ہو مگر ممکن ہے یہ قریب ہی ہو پھر فرمایا جب قیامت برپا ہوگی اور اللہ تعالیٰ ان کو بلائے گا تو یہ خدا کی تعریف کرتے ہوئے اس کی طرف دوڑ کر آئیں گے مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کی بات کو قبول کرنے اور اس کی حمد بیان کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ (شائستہ بات) اب آج کی آیات میں حضور نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے اہل ایمان کو اچھا اخلاق اختیار کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے مشرکین اکثر ناشائستہ باتیں کرتے تھے اور عمل سے بھی مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے اور عمل سے بھی مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے ، ان حالات میں خدشہ تھا کہ کہیں مسلمان بھی مشرکین کے جواب میں غیر اخلاقی اور ناشائستہ راستہ اختیار نہ کرلیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اخلاقی تعلیم کا پابند بنایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وقل لعبادی “۔ اور اے پیغمبر ! ﷺ آپ میرے بندوں سے کہہ دیں (آیت) ” یقولوا التی ھی احسن “۔ کہ وہ ایسی بات کریں جو بہتر ہے ، اخلاق کے منافی ناشائستہ بات یا گالی گلوچ سے اجتناب کریں اور اس ضمن میں مشرکون کی روش اختیار نہ کریں ، اللہ تعالیٰ نے سورة الانعام میں گالی گلوچ کی صریح الفاظ میں ممانعت کردی ہے (آیت) ” ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم “۔ غیر اللہ کو پکارنے والے مشرکین کو گالی گلوچ نہ دو ‘ اور نہ ان کے معبودوں کے متعلق کوئی ایسی بات کرو ، کہیں وہ تمہارے معبود برحق کو گالیاں نہ دینے لگیں اور تم اس قبیح حرکت کا ذریعہ بن جاؤ ، سورة آل عمران میں ہے کہ اہل ایمان ! تم اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے بڑی تکلیف دہ باتیں سنو گے (آیت) ” وان تصبروا وتتقوا فان ذلک میں عزم الامور “۔ (آیت 186) اور برائی کا جواب برائی سے دینے کی بجائے اگر تم صبر کرو گے اور تقوے کا راستہ اختیار کرو گے تو یہ پختہ بات ہے اور اسی کا نتیجہ اچھا ہوگا ۔ (شیطان دشمن انسان) فرمایا اگر مشرکین کی دیکھا دیکھی تم بھی ویسی ہی باتیں کرنے لگے تو اس سے شیطان کا کام بن جائے گا کیونکہ (آیت) ” ان الشیطن ینزغ بینھم “۔ شیطان تو ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے ، وہ تو چاہتا ہے کہ معاملہ مزید الجھ جائے اور فریقین کے درمیان فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے لہذا تمہارا کام یہ ہے کہ شیطان کو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دو یاد رکھو ! شیطان انسان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کیونکہ (آیت) ” ان الشیطن کان للانسان عدوا مبینا “۔ وہ تو انسان کا کھلا دشمن ہے اور اس نے اس دشمنی کو بروئے کار لانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لیے مہلت لے رکھی ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ مشرکین کی طعن وتشنیع ، تمسخر اور دل آزاری سے تنگ دل ہو کر ان کا رویہ نہ اختیار کرلو ، بلکہ بہتر بات کہو ، اور بہتر بات وہی ہے جس میں نصیحت کا پہلو نمایاں ہو ، آگے اللہ کا یہ فرمان بھی آرہا ہے کہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ مشرک لوگ ضرور ہی ایمان لے آئیں ، دوسری جگہ موجود ہے کہ مشرکین کی تکلیف دہ باتوں کے مقابلے میں تم اگر اچھی بات کہو گے تو نتیجتا تمہارے اور ان کے درمیان دوستی کا امکان پیدا ہوگا اور اس طرح انہیں تمہاری بات سننے ، سمجھنے اور ایمان قبول کرنے کا موقع میسر آجائے گا اور اگر تم سختی سے بات کرو گے تو ان کی ضد اور عناد میں اضافہ ہو کر ہدایت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے ۔ (اچھی بات کیا ہے) فرمایا ایک اچھی بات تو یہ ہے کہ مشرکین کی اشتغال انگیزیوں کے جواب میں تم اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھی بات کرو ، اور دوسری یہ کہ تم اپنی زبانوں سے ہر موقع اور محل پر اچھی اور بہتر بات ہی کہو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سب سے اچھی بات اللہ تعالیٰ وحدانیت اور پیغمبر خدا کی رسالت کو گواہی دینا ” شھادۃ ان الا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ “۔ اس کے بعدامر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم کرنا اور نہی عن المنکر یعنی برائی سے روکنا بھی اچھی بات میں شامل ہے ، بداخلاقی کے مقابلے میں اخلاق کا مظاہرہ کرو ، اور بدخواہی کے مقابلے میں خیر خواہی کی بات بھی اچھی بات ہے فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” ربکم اعلم بکم “۔ تمہارا پروردگار تمہاری حالت کو خوب جانتا ہے اگر تمہاری حالت اچھی ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور ہدایت نصیب کرے گا اور اگر حالت بری ہوئی تو وہ ہدایت سے محروم ہی رکھے گا سارا اختیار اس کے پاس ہے (آیت) ” ان یشایرحمک “ وہ اگر چاہے تو تم پر رحم فرمائے ، ایمان ، نیکی اور اطاعت کی توفیق فرمائے اعمال صالحہ انجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائے ، (آیت) ” اوان یشایعذبکم “ یا اگر چاہے تو تمہیں سزا دے دے یہ بھی اس کی طرف سے سزا ہی ہے کہ کسی شخص کی ضد اور عناد کی وجہ سے اسے ہدایت سے محروم رکھے جیسے اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” ختم اللہ تعالیٰ قلوبھم “۔ (البقرۃ ، 7) اللہ نے کافروں کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں سورة النساء میں ہے (آیت) ” بل طبع اللہ علیھا بکفرھم “۔ (آیت 155) ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا دیے ہیں ، اب یہ ہدایت قبول نہیں کرسکیں گے سورة نساء ہی میں ہے کہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد جو شخص رسول دشمنی پر قائم رہتا ہے اور مومنوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے (آیت) ” نولہ ما تولی “۔ تو پھر جدھر وہ جانا چاہتا ہے ہم ادھر ہی کی توفیق دے دیتے ہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا (آیت) ” ونصلہ جھنم وساء ت مصیرا “۔ (آیت) ’ کہ وہ جہنم میں داخل ہوں گے جو کہ بدترین ٹھکانا ہے ۔ (نبی کی ذمہ داری) فرمایا اے نبی ﷺ (آیت) ” وما ارسلنک علیھم وکیلا “۔ ہم نے آپ کو ان کفار ومشرکین پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ضرور ہی انہیں راہ راست پر لے آئیں ، آپ کا یہ کام نہیں ہے بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے راہ ہدایت پیش کریں ، ان کے لیے تعلیم وتبلیغ کا کام کریں ، کسی کو راہ راست پر لانا یا گمراہی میں مبتلا رکھنا اللہ کا کام ہے اسی لیے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی ہدایت کے لیے نبی کو ذمہ دار نہیں بنایا تو امت کے لوگوں کو بھی زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں شخص یا جماعت ہدایت کو قبول کیوں نہیں کرتے انہیں حتی الامکان کوشش کرکے نتیجہ اللہ جل جلالہ پر چھوڑ دینا چاہئے مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ تبلیغ وتعلیم کے معاملے میں دو فیصد کام بھی انجام نہیں دے رہے ہیں ، عام لوگ ذاتی کاروبار اور معاملات میں مصروف ہیں اور دن کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے مشرک کافر تو دنیا کی زندگی تک محدود ہیں اور وہ اس کے لیے تگ ودو میں لگے رہتے ہیں مگر مومن کی دعا ہمیشہ یہ ہوتی ہے (آیت) ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ “۔ (البقرۃ ۔ 201) اے پیغمبر ! ﷺ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی ، یہ دنیا تو آخرت کا ایک ذریعہ اور پل ہے جس سے گزر کر آخرت کی دائمی زندگی میں پہنچنا ہے ، یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے ، اس سے غفلت برتنا تباہ کن ہے اور آخرت سے غافل ہونا ابدی خسران اور بدنصیبی کی علامت ہے ۔ بہرحال فرمایا کہ کسی کو راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے (آیت) ” انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء “۔ (القصص) آپ اپنی خواہش پر کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ منزل مقصود تک پہنچانا اللہ کا کام ہے یہ اہل ایمان کے لیے تسلی بھی ہے کہ آپ تبلیغ وتعلیم کا کام کرتے رہیں ، انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا برتاؤ کریں ، اگر یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے (آیت) ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “َ (البقرۃ ، 119) جہنم والوں کے متعلق آپ سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیوں دوزخ میں گئے ؟ بلکہ یہ ان سے سوال ہوگا کہ تمہارا یہاں کیسے آنا ہوا ؟ تم سے صرف یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے انہیں صحیح راستہ بتایا یا نہیں ، انہیں دین کو قبول کرنے ترغیب دی یا عمر بھر کھیل تماشے اور گانے بجانے میں ہی لگے رہے عمارات کی تزئین ہی کرتے رہے یا انسانیت کی بہتری کے لیے بھی کوئی کام کیا فرمایا (آیت) ” وربک اعلم بمن فی السموت والارض “ اور تیرا پروردگار آسمان و زمین کی تمام مخلوق ملائکہ ، جن اور انسان سب کی حالت کو خوب جانتا ہے ، جب اللہ ہی بہتر جانتا ہے تو پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کون شخص اس قابل ہے کہ اسے ہدایت نصیب ہو اور کون ہے جو گمراہی کے قابل ہے ، بہرحال ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہی اس کا فیصلہ کرتا ہے یہ کسی نبی یا امتی کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ (انبیاء کے درجات) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی ہے مشرکین کا اعتراض تھا کہ نبوت کا دعویدار تو ہمارے جیسا انسان ہے ہم اسے نبی کیسے مان لیں ، اگر اللہ کسی انسان کو ہی نبی بناتا تو کسی بڑے آدمی کو بناتا ، کہتے تھے (آیت) ” لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم “۔ (الزخرف ، 31) یہ قرآن مکہ اور طائف کی دو بڑی بستیوں کے کسی سردار پر کیوں نہیں اترتا کیا ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی اس کام کے لیے رہ گیا ہے ، اس اعتراض کا ایک جواب تو پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک کی حالت ، کیفیت اور استعداد کو جانتا ہے اور اسی کے مطابق کوئی فیصلہ کرتا ہے ، وہ جس کو چاہتا ہے اس کی استعداد کے مطابق منصب نبوت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے ، اس میں کسی دوسرے کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ، اور اب دوسرا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ اللہ نے بعض انبیاء کو بعض پر ان کے کمال اور شرف کی بنا پر فضیلت بخشی ہے نبوت کی تقسیم کسی ظاہری تعلقات کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ روحانی اور نفسانی کیفیت کی بنیاد پر ہوتی ہے ، ظاہری طور پر خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے نبی کا تعلق ساری مخلوق سے ہوتا ہے ، مگر اس کے باوجود وہ اللہ کا نبی ہے ، کیونکہ اس کی روحانی ، اخلاقی اور نفسانی حالت کمال درجے کی ہے جیسے اللہ نے داؤد (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” یداؤد انا جعلنک خلیفۃ فی الارض “۔ (ص ، 26) اے داؤد (علیہ السلام) ! ہم نے آپ کو زمین میں خلافت عطا کی خلیفہ ہونے کے باوجود آپ بڑے عبادت گزار تھے اور اللہ نے آپ کو کمال درجے کی روحانیت بھی عطا فرمائی تھی آپ بطور خلیفہ جہاد بھی کرتے تھے اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ کتاب زبور کی تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے ، آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے کبھی نصف رات عبادت کرتے تھے کبھی چھٹا حصہ اور کبھی تیسرا حصہ اور اس طرح آپ عبادت بھی کرتے اور آرام بھی کرتے ، اور جب جہاد کا موقع آتا ” وکان لا یفر اذا لاقی “۔ جب دشمنوں سے مڈبھیڑ ہوجاتی تو پھر پشت پھیر کر نہیں بھاگتے تھے بلکہ ثابت قدم رہتے تھے ۔ اب یہی چیز اللہ نے نبی آخر الزمان میں بھی رکھی ہے آپ جہاد بھی کرتے تھے اور قرآن کے ذریعہ تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ۔ (آیت) ” وجاھدھم بہ جہادا کبیرا “۔ (الفرقان) آپ اس قرآن پاک کے ذریعے لوگوں کے ساتھ بڑا جہاد کریں جب تک دنیا میں کفر ، شرک اور گمراہی موجود ہے جہاد بذریعہ قرآن جاری ہے ، آپ خلیفۃ اللہ بھی ہیں اور خداداد استعدادا اور اعلی درجے کی انسانی کیفیت کی بناء پر تبلیغ دین کا کام بھی انجام دے رہیں اللہ نے دونوں صلاحیتیں آپ کو عطا فرمائی تھیں آپ کمال درجے کے عبادت گزار اور خوف خدا سے معمور تھے ، اللہ کے پانچ نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور خاتم النبیین ﷺ اولوالعزم رسول شمار ہوتے ہیں ، لہذا آپ ﷺ کو بھی حکم ہوا (آیت) ” فاصبر کما صبر اولو العزم من الرسل “۔ (الاحقاف ، 35) آپ بھی اولوالعزم رسولوں کی طرح صبر کا دامن تھامے رکھیں ، غرضیکہ اولوالعزم رسولوں میں سے بلند ترین مرتبہ حضور ﷺ کو حاصل ہے آپ صاحب کتاب ، صاحب جہاد ، صاحب عبادب اور صاحب معاملہ ہیں اللہ نے آپ کو تمام انبیاء پر فضلیت بخشی ہے اسی لیے تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے مگر ان کے درجات بہرحال متفاوت ہیں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” واتخذ اللہ ابرھیم خلیلا “۔ (النسآئ) اللہ نے آپ کو اپنا دوست بنایا ، اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ (النسآئ) اور موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف تکلم بخشا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہوا (آیت) ” واتینا عیسیٰ ابن مریم البینت وایدنہ بروح القدس (البقرۃ ؛ 87) کہ ہم نے انہیں نشانیاں دے کر بھیجا اور روح القدس کے ساتھ ان کی تائید فرمائی ، اسی طرح نوح (علیہ السلام) کو بھی اللہ نے خاص فضلیت عطا فرمائی (آیت) ” ان اللہ اصطفی ادم ونوحا وال ابرھیم وال عمران علی العلمین “۔ (آل عمران) اللہ نے ان انبیاء کو جہاں بھر میں منتخب فرمایا اور پھر حضور خاتم النبیین ﷺ کو خلت (دوستی کے ساتھ محبوبیت کا درجہ بھی عطا فرمایا ” انا حبیب اللہ “ میں اللہ کا محبوب ہوں ، الغرض ! اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو بعض پر شرف عطا فرمایا ہے ، لہذا یہ مشرکین اعتراض کرنے والے کون ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے ہم اس کی اتباع کیسے کریں ؟ (زبور کا خصوصی ذکر) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو عطا کی گئی کتاب زبور خاص طور پر ذکر فرمایا (آیت) ” واتینا داؤد زبورا “ اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ زبور کے ذکر کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں آخری دور کے نبی اور آپ کی امت کی خلافت ارضی کا ذکر ہے سورة الانبیاء میں ہے (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “۔ (آیت : 105) ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی کہ زمین کے وراث میرے نیک بندے ہوں گے اور نیک بندوں کی تشریح میں حضور خاتم النبین ﷺ اور آپ کی امت کے لوگ آتے ہیں ، چناچہ اللہ نے اس پیشنگوئی کو خلافت راشدہ کی صورت میں پورا فرما دیا دن کو مستحکم کیا اور خوف کو امن میں تبدیل کردیا ، نظام اسلام کو تمام باطل قوتوں حتی کہ قیصر و کسری پر بھی غالب کردیا ، یہ سلسلہ صدیوں تک قائم رہا ، پھر مسلمانوں کی نالائقی کی وجہ سے ان پر زوال آگیا انہوں نے خلافت کو ترک کر کے ملوکیت اختیار کرلی تو ذلیل ہو کر رہ گئے جس بیماری کو مسلمانوں نے ختم کیا تھا خود اسی میں مبتلا ہو کر رسوا ہوئے مگر ان کی ترقی کا زمانہ بھی دنیا نے دیکھا ، بہرحال زبور میں مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کی پیشین گوئی تھی ، اس واسطے اس کا خصوصی ذکر کیا ، (تلاوت زبور اور قرآن) اس مقام پر زبور کے خصوصی ذکر کی ایک وجہ یہ بھی مفسرین بیان کرتے ہیں کہ زبور اور قرآن کی تلاوت کے سلسلے میں دونوں کتابوں کو ایک خاص شان حاصل ہے زبور کی ایک سو پچاس سورتیں ہیں جن میں زیادہ تر خدا تعالیٰ کی حمد وثنا اور اخلاقی تعلیمات ہیں ، جب آپ زبور کی تلاوت خوش الحانی کے ساتھ کرتے تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کے ساتھ اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے ، آپ کو تلاوت زبور کا اتنا ذوق وشوق تھا کہ خادم کو گھوڑا تیار کرنے کا حکم دیتے ، جب تک خادم گھوڑا اصطبل سے لا کر اس پر کاٹھی ڈالتا ، آپ اتنے عرصہ میں پوری زبور کی تلاوت فرما لیتے اللہ نے آپ کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ چار پانچ منٹ میں پوری زبور پڑھ جاتے اسی طرح قرآن پاک کی تلاوت کے ضمن میں بھی بعض حضرت کو غیر معمولی توفیق حاصل رہی ہے ، جیسے حضرت عثمان ؓ ایک رات میں پورا قرآن پاک ختم کرلیتے تھے حضرت سیعد ابن جبیر (رح) خانہ کعبہ کے قریب نماز شروع کرتے تو ایک رکعت میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرلیتے ، خواجہ نظام الدین اولیا (رح) نے قاضی حمید الدین ناگوری کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ایک بزرگ کو دیکھا جو طواف کر رہے تھے آپ انکی روحانیت سے متاثر ہوئے اور طواف میں ان کے نقش قدم پر چلنے لگے وہ بزرگ فرمانے لگے طواف میں میرے نقش قدم پر کیا چلتے ہو اگر کچھ کرنا ہے تو میرے والا کام کرو اور وہ کام یہ تھا کہ آپ رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو دو رکعت میں پورا قرآن پاک اور چار پارے تلاوت کر گئے حضرت شاہ اسماعیل شہید (رح) کو بھی اللہ خاص توفیق بخشی تھی کہ عصر اور مغرب کے درمیان پورا قرآن پاک تلاوت کرلیتے یا صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھتے اور طلوع آفتاب تک تلاوت مکمل کرلیتے ، یہ ان بزرگوں کی خاص کرامت تھی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) ہر روز دس پارے تلاوت فرماتے تھے امام محمد (رح) کا بھی یہی دستور تھا حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی (رح) بھی دس پارے روزانہ پڑھتے ، ہمارے شیخ حضرت مدنی (رح) تمام تر مصروفیات کے باوجود رمضان میں ہر روز سات پارے تلاوت کرلیتے تاہم عام ایام میں نوافل میں دو اڑھائی پارے ضرور پڑھ لیتے تھے امام ابوحنیفہ (رح) ہر رات ایک قرآن نماز میں ختم کرتے ، البتہ رمضان المبارک میں ایک قرآن پاک دن کو اور ایک رات کو تلاوت کرتے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رح) فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جو کرامت کے طور پر ہر روز سات سو مرتبہ قرآن پاک ختم کرتے کسی نے پوچھا کہ پھر وہ خیال ہی کرتے ہوں گے ، تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ ” ملفوظا لا موھوما “۔ یعنی وہم سے نہیں بلکہ لفظ بلفظ تلاوت فرماتے ہیں ظاہر ہے کہ جو بات عقل میں نہیں آسکتی اس کا تعلق کرامت سے ہوتا ہے بہرحال زبور اور قرآن میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں کتابوں کی تلاوت غیر معمولی طور پر قلیل وقت میں کرلی جاتی ہے ۔ تلاوت زبور کو واقعہ معراج سے بھی نسبت ہے جس طرح داؤد (علیہ السلام) زبور کی تلاوت چند منٹ میں مکمل کرلیتے تھے ، اسی طرح اللہ نے حضور ﷺ کو ارض وسما کی سیر بھی چند منٹ میں کرا دی ، اس کا ذکر اس سورة کی پہلی آیت میں گزر چکا ہے اور آگے بھی آرہا ہے ، تو گویا زبور کے ذکر کی ایک مناسبت بھی ہوسکتی ہے ۔ (فضیلت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام میں احتیاط) فرمایا کہ اللہ نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے تاہم حضور کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی نبی کی فضیلت کا ذکر ا س انداز میں نہ کرو کہ کسی دوسرے نبی کی تحقیرکا پہلو نکلتا ہو ، حتی کہ آپ نے فرمایا ” لا تفضلونی بین الانبیآئ “۔ مجھے باقی انبیاء کرام پر اس انداز میں فضلیت نہ دو کہ کسی دوسرے نبی کی تحقیر ظاہر ہوتی ہو مثلا حضرت یونس (علیہ السلام) کی لغزش کے مقابلے میں حضور ﷺ کا ذکر کیا جائے کسی نبی کی شان میں تحقیر کا کوئی پہلو روا نہیں ایسا کرو گے تو ایمان سلب ہوجائے گا ہر نبی کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے درجے اور مرتبے کے لحاظ سے بات کرنی چاہئے کسی ایک نبی کی تعریف اور دوسرے کی توہین کفر کی بات ہے ۔
Top