Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
سو فرعون نے چاہا تھا کہ اکھاڑ پھینکے ان سب کو اس سرزمین سے، مگر اس کے نتیجے میں ہم نے غرق کردیا خود فرعون کو اور ان سب کو جو اس کے ساتھ تھے یکجا طور پر،2
190۔ فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کو اکھاڑ پھینکنے کا مصوبہ :۔ سو اس کے بعد فرعون نے چاہا کہ اکھاڑ پھینکے ان سب کو اس سرزمین سے۔ یعنی سرزمین مصر سے طرح طرح کے مظالم ڈھا کر اور قسما قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے کام لے کر تاکہ اس طرح اس کیخلاف کہیں سے کوئی آواز نہ اٹھنے پائے۔ مگر اس کی ان سازشوں اور مکر وکید کا وبال الٹا اسی پر پڑا اور وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق قلزم ہو کر فی النار والسقر ہوگیا۔ اور ایسا کہ اس کا نام ونشان بھی ہمیشہ کیلئے مٹ گیا۔ سو سب پر غالب قوت قاہرہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنے ترکی بہ ترکی جواب سے فرعون کے سامنے اس بات کو واضح کردیا کہ آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف سے اتاری گئی ان عظیم الشان نشانیوں سے بھی اگر تیری آنکھیں نہیں کھلتیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تجھ پر اللہ کی حجت تمام ہوگئی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب تیری ہلاکت کا وقت اے فرعون آپہنچا ہے تو اس کے بعد اس ملعون نے اپنا پورا زور اس پر لگا دیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے قدم سرزمین مصر سے اکھاڑ پھینکے اور ان کا وہاں سے خاتمہ کردے مگر وہ خود ہی فی النار والسقر ہو کر رہا۔ 191۔ فرعون کا آخری انجام اور اس کی غرقابی :۔ سو اپنے اس مکروہ پروگرام اور مذموم منصوبہ بندی سے فرعون نے خود اپنی ہی ہلاکت اور تباہی کا سامان کیا۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ” ہم نے غرق کردیا فرعون کو اور اس کے ساتھیوں سب کو “ پس ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اور بس۔ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے اور اس کی طرف سے باغیوں اور سرکشوں کو جو ڈھیل ملتی ہے اس سے کبھی بھی کسی کو غلط فہمی اور غفلت میں نہیں پڑنا چاہئے کہ وہ بہرحال ایک مہلت اور ڈھیل ہی ہوتی ہے جس نے اپنے وقت پر بہرحال ختم ہوجانا ہوتا ہے۔ پھر اس کی پکڑ بڑی ہی سخت اور انتہائی ہولناک ہوتی ہے۔ ان اخذہ الیم شدید (ہود : 102) سو فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو نکالنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن اس کے نتیجے میں وہ خود ہی غرقاب ہو کر ہمیشہ کیلئے مٹ گیا۔ سو بری چال اپنے چلنے والوں ہی کو اپنی گرفت میں لے کر رہتی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ولا یحیق المکر السییء الا باہلہ (فاطر : 43) یعنی بری سازش اس کے گھڑنے اور بنن والے ہی کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے والعیاذ باللہ جل وعلابکل حال من الاحوال۔
Top