Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
(ان سے) کہو کہ اگر کہیں تم لوگ مالک ہوگئے ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے، تو یقیناً تم ان کو روک رکھتے خرچ ہوجانے کے اندیشے سے، واقعی انسان بڑا ہی تنگ دل ہے،2
185۔ انسان کی تنگ ظرفی کا ایک نمونہ ومظہر :۔ اگر تم لوگ رب کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو روک اور بند کرکے رکھتے اور ایسے میں تم لوگ کسی کو دینے اور بلاعوض دینے کا نام تک نہ لیتے۔ اور خود بھی رک رک کر خرچ کرتے کہ یہ خزانے کہیں خرچ اور ختم نہ ہوجائیں۔ مگر یہ اس واہب مطلق جل جلالہ۔ کا ایک عظیم الشان کرم واحسان ہے کہ اس نے ان خزانوں کو اپنے ہی قبضہ قدرت واختیار میں رکھا اور ان کو اپنی مخلوق پر اس بےمثال فیاضی اور بےنہایت کرم کے ساتھ تقسیم فرمایا اور لگا تار تقسیم فرما رہا ہے اور اس قدر کہ اس کا علم و احاطہ بھی اس وحدہ لاشریک کے سو اور کسی کے بس میں نہیں۔ فلک الحمدیا ربی حمدا یلیق لجلال وجھک و عظیم سلطانک۔ سو یہ انسان کی تنگ ظرفی کا ایک مظہر و نمونہ ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو ایسے تنگ ظرف انسان کو نبوت و رسالت کے شرف سے آخر کس طرح نوازا جاسکتا تھا ؟ سو اس میں ان کفار و مشرکین پر رد ہے جو کہا کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اور یہ دین اللہ کی طرف سے ہے تو اس کو ہم میں سے کسی بڑے سردار پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ اس کو عبداللہ کے یتیم پر ہی کیوں اتارا گیا۔ لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم۔ سو اس کے جواب میں اور ان لوگوں کی تردید کیلئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم جیسے کوتاہ نظر اور تنگ ظرف اس کے اہل کہاں اور کیسے ہوسکتے تھے۔ تم دنیا کے جن خزف ریزوں کے حق دار تھے وہ تم کو دے دیئے گئے۔ جبکہ قرآن اور دین کی نعمت سے سرفرازی کے جو اصل حقدار تھے ان کو اس سے نوازا گیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کے شرف سے کس کو نوازے۔ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ۔
Top