Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 101
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دیں مُوْسٰي : موسیٰ تِسْعَ : نو اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : کھلی نشانیاں فَسْئَلْ : پو پوچھ تو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اِذْ : جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا فَقَالَ : تو کہا لَهٗ : اس کو فِرْعَوْنُ : فرعون اِنِّىْ : بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ مَسْحُوْرًا : جادو کیا گیا
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ ! میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔
ذکر معجزات موسویہ برائے تحقیق رسالت محمدیہ ﷺ قال اللہ تعالیٰ ولقد اتینا موسیٰ تسع ایت .... الیٰ .... ویزیدھم خشوعا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں مخالفین کے معاندانہ سوالات کا ذکر تھا اب ان آیات میں معجزات موسویہ یعنی ان نشانیوں کو ذکر کرتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی تہدید کے لیے عطا کی تھیں مگر باوجود اس کے وہ ایمان نہیں لائے اور بالآخر ہلاک ہوئے اور غرق ہوئے اسی طرح تم محمد رسول اللہ ﷺ سے معجزات طلب کرتے ہو اور تمہارا حال یہ ہے کہ اگر تمہاری سفارش کے مطابق وہ معجزات ظاہر کر بھی دئیے جائیں تب بھی تم محمد رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کروگے۔ جس طرح وہ متکبر اور جبار (فرعون) خدا تعالیٰ کے درویش نبی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ نہ کرسکا اسی طرح سمجھ لو کہ تم ہمارے کملی والے نبی کا مقابلہ نہ کرسکو گے یہ رسول بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ہے اور بنی اسرائیل کے بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل) میں سے مبعوث ہوا ہے اس کا عصا قرآن ہے سب کفروں کو نگل جائے گا اور ڈکار بھی نہ لے گا تم اپنے انجام کو سوچ لو موسیٰ (علیہ السلام) کوئی فرشتہ نہ تھے بلکہ ظاہر صورت کے لحاظ سے ایک بےسروسامان بشر تھے مگر درپردہ فرشتہ سے بڑھ کر نہ کھاؤ اس لباس بشری میں خداوند ذوالجلال کی پیغمبری مستور ہے کوئی فرعون اور ہامان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور جس طرح فرعون اور فرعونیوں کے غرق کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سرزمین مصر کا وارث بنایا اسی طرح عنقریب مکہ فتح ہوگا اور اس نبی آخر الزمان کے اصحاب اول سر زمین عرب کے وارث ہوں گے اور پھر سر زمین شام کے وارث ہوں گے جو بنی اسرائیل کا آبائی مسکن ہے غرض یہ کہ اس تمام کلام سے اثبات رسالت مقصود ہے چناچہ فرماتے ہیں۔ اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو روشن نشانیاں دیں جو ان کی نبوت و رسالت کی روشن دلیلیں تھیں جن کا ذکر نویں پارہ کے چھٹے رکوع میں گزر چکا ہے اور اگر تم کو کچھ شک ہو تو بنی اسرائیل کے علماء سے پوچھ لو کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس یہ معجزات لے کر آئے ہیں جن کا ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور پھر ان کے بعد وہ معجزات تم تک بطریق تواتر پہنچے جس میں شک اور شبہ کی گنجائش نہیں اس لیے کہ تواتر بھی بمنزلہ مشاہدہ کے ہے آپ علماء بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے وہ آپ کے قول کی تصدیق کریں گے اور وہ نو معجزے تمہارے ان فرمائشی معجزات کے برابر یا اس سے بڑھ کر تھے ہم اب بھی اس قسم کے معجزات عطا کرنے پر قادر ہیں مگر اس وقت ہماری مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ فی الوقت اس قسم کے معجزات کا ظاہر کرنا سودمند نہیں۔ (تفسیر کبیر ص 463 ج 5) آیت مذکورہ ولقد اتینا موسیٰ تسع ایات بینات میں علماء تفسیر کے دو قول ہیں۔ قول اول : یہ ہے کہ تسع ایات بینات سے موسیٰ (علیہ السلام) کے نو معجزے مراد ہیں وہ نو بینات یہ ہیں۔ (1) عصا اور (2) بدبیضا اور (3) قبطیوں پر قحط شدید اور (4) طوفان باراں اور (5) جراد یعنی ٹڈیاں اور (6) قمل یعنی چچڑیاں اور (7) صفادع یعنی مینڈک اور (8) دم یعنی خون اور (9) نقص ثمرات یعنی پھلوں کی کمی۔ یہ نو آیات بینات اور مفصلات ہیں اور آیات و اضحات ہیں جن کا فرعونیوں نے مشاہدہ کیا مگر ان ظالموں پر ان آیات واضحات نے کچھ اثر نہ کیا اسی طرح اگر ہم ان لوگوں کے سوالات پورے کردیں کہ چشمے اور نہریں جاری کردیں تو یہ ظالم بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے والے نہیں جیسے فرعون نے باوجود مشاہدہ آیات بینات موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ انی لاظنک یموسی مسجورا اے موسیٰ میں تم کو جادو گر گمان کرتا ہوں اسی طرح یہ ظالم ان معجزات کے ظاہر ہونے پر آنحضرت ﷺ کو جادو گر بتلائیں گے لیکن قوم فرعون کو تو ان آیات بینات پر ایمان نہ لانے کے بعد غرق کردیا گیا مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ آپ ﷺ کی قوم کو ہلاک کرنے کا نہیں اس لیے ان کے یہ سوالات پورے نہیں کئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان نو نشانیوں کے سوا اور بھی نشانیاں عطا ہوئیں مثلا (1) دریا کا شق ہونا۔ (2) عصا کے پتھر پر مارنے سے پتھر سے پانی نکل آنا۔ (3) پتھر سے بارہ چشموں کا جاری ہوجانا۔ (4) بنی اسرائیل پر من وسلویٰ نازل ہونا۔ (5) بنی اسرائیل برابر کا سایہ کرنا وغیر ذالک یہ نشانیاں موسیٰ (علیہ السلام) کو بلاو مصر سے نکلنے کے بعد عطا ہوئی تھیں لیکن اس جگہ انہیں نو نشانیوں کا ذکر ہے جن کا مشاہدہ فرعون لعین نے کیا تھا اور قوم فرعون نے مصر میں ان کو دیکھا تھا اس لیے یہی آیات ان پر حجت تھیں کن کا ازراہ عناد انہوں نے مخالفت کی اور تباہ و برباد ہوئے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ تسع آیات بینات سے نو معجزات مراد ہیں جو سورة اعراف میں مذکور ہیں آیت کی تفسیر میں یہ پہلا قول ہوا اب دوسرا قول سنئے۔ قول دوم : دوسرا قول یہ ہے کہ تسع ایات بینات سے آیات احکام مراد ہیں یعنی نو آیات سے تورات کے نو احکام مراد ہیں جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے دو عالموں نے آنحضرت ﷺ سے تسع آیات کے متعلق سوال کیا آپ ﷺ نے فرمایا وہ احکام یہ ہیں۔ (1) خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ (2) چوری مت کرو۔ (3) زنا مت کرو (4) ناحق خون مت کرو۔ (5) سود مت کھاؤ۔ (6) جادو مت کرو (7) کسی بےگناہ کو مت پکڑو (8) کسی عفیف عورت پر تہمت نہ لگاؤ (9) جہاد سے مت بھاگو۔ یہ نو احکام تو عام ہیں یعنی سب کے لیے ہیں اور ایک حکم اے یہود خاص تمہارے لیے ہے کہ سبت یعنی شنبہ کے دن حدود الٰہی سے تجاوز نہ کرنا یہود نے سن کر آپ ﷺ کی تصدیق کی اور ان دونوں یہودیوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ نبی ہیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ پھر تم میرا اتباع کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ داؤد (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی تھی کہ آئندہ نبوت ہمیشہ انہی کے خاندان میں رہے (یہ ان کا داؤد (علیہ السلام) پر افتراء تھا) اور یہ کہا کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم آپ کا اتباع کریں گے تو یہودی ہم کو قتل کر ڈالیں گے۔ محققین کے نزدیک راجح پہلا قول ہے کہ تسع آیات سے نو معجزات مراد ہیں اور وہ کلمات جو حدیث میں مذکور ہوئے وہ مراد نہیں کیونکہ وہ احکام اور وصایائے توریت ہیں ان میں سے فرعون پر کوئی چیز حجت نہیں لفظ بصائر بھی اسی معنی پر ہی چسپاں ہوتا ہے یعنی یہ میرے معجزات ایسی چیز ہیں جن کو دیکھ کر آنکھیں کھل جائیں اور ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے نو معجزات کے علاوہ توریت کے ان نو احکام کو بھی بیان کیا ہو مگر راوی نے احکام کا تو ذکر کردیا اور معجزات کو حذف کردیا۔ واللہ اعلم۔ اور آیات قرآنیہ میں تسع آیات بینات سے وہ نشانات مراد ہیں کہ جو بطور دلائل و حجج فرعونیوں کو دکھلائے گئے تاکہ ان پر حجت قائم ہو حافظ ابن کثیر (رح) کا خیال یہ ہے کہ اسی روایت میں راوی کو اشتباہ ہوا کہ اس نے کلمات عشر کی جگہ تسع آیات کو ذکر کردیا بہرحال سیاق وسباق کا مقتضی یہ ہے کہ تسع آیات بینات سے وہ معجزات مراد لیے جائیں جو فرعونیوں پر حجت قائم کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کو اور فرعونیوں کو ان آیات بینات سے ڈرایا تو فرعوں نے ازراہ تکبر و غرور موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا کہ اے موسیٰ میں بلاشبہ تجھ کو جادو کا مارا ہوا خیال کرتا ہوں جس کی وجہ سے تعبیر مخبوط الحواس ہوگیا ہے اور ایسی بہکی ہوئی باتیں کرتا ہے جب فرعون نے ان آیات بینات کو باوجود واضح ہونے کے نہ مانا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا البتہ تحقیق تو ضرور جان چکا ہے اور دل سے مان چکا ہے کہ ان نشانیوں کو سوائے آسمانوں اور زمینوں کے پروردگار کے اور کسی نے نہیں اتارا مگر تو ضد اور عناد سے انکا انکار کرتا ہے اور یہ ایسے نشانات ہیں کہ جن کو سوائے پروردگار عالم کے کوئی اتار ہی نہیں سکتا پروردگار ہی نے ان نشانیوں کو اتارا ہے درآں حالیکہ وہ سامان بصیرت ہیں کہ جن کو دیکھنے سے چشم بصیرت روشن ہوجاتی ہے اور دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور حق نظر آنے لگتا ہے اور انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ خدائی کرشمہ ہے کوئی جادو نہیں مگر ضد اور عناد کی پٹی بصارت اور بصیرت سب کو معطل کر ڈالتی ہے چناچہ فرعون اور اس کی قوم ان بصائر اور عبر کے باوجود ایسی اندھی بنی کہ بنی اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا ارادہ کیا پس فرعون نے یہ ارادہ کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے سرزمین مصر سے قدم اکھاڑ دے کہ بنی اسرائیل اس سرزمین میں رہنے نہ پائیں جب اس نے چاہاتو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو دریائے قلزم میں غرق کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی اور اس کے غرق کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ جاؤ اسی سرزمین میں بسوجہاں سے وہ تم کو نکالنا چاہتا تھا اسی طرح اللہ کی قدرت ہے کہ مزرکین مکہ کو تباہ کرکے مسلمانوں کو ان کی سرزمین کا وارث بنائے اور اسی میں ان کو بسائے اسی آیت میں فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے اور جو لفظ اس آیت میں فرعون کے متعلق لایا گیا ہے فاراد ان یستفرھم من الارض بعینہٖ اسی قسم کا لفظ اسی سورت میں تین رکوع قبل آنحضرت ﷺ کے متعلق گزر چکا ہے وان کادوا یستفزونک من الارض لیخرجوک منھا یعنی اہل مکہ آپ ﷺ کو اس سرزمین سے نکالنا چاہتے ہیں اور اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ عنقریب آپ کو اس سرزمین کا وارث بنائے جس سے مشرکین مکہ آپ کو نکالنا چاہتے ہیں۔ بہرحال فرعون اور فرعونیوں کا غرق اور موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات کا ذکر و ماجرا تو اس دنیا میں ہوا پھر آخرت کا وعدہ آپہنچے گا تو ہم سب کو گڈمڈ یعنی خلط ملط میدان حشر میں لاموجود کریں گے مومن اور کافر اور نیک اور بد سب گڈمڈ اور مخلوط ہوں گے اور سب کو جمع کرکے فیصلہ کردیا جائے اور جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت کو حق کے ساتھ اتارا اسی طرح ہم نے اس قرآن کو آپ ﷺ پر حق کے ساتھ اتارا اور حق ہی کے ساتھ آپ ﷺ پر نازل ہوا از اول تا آخر شیاطین سے محفوظ ہے، ازاول تا آخر حق ہی حق ہے اور صدق ہی صدق ہے جس طرح خدا کے پاس سے چلا تھا اسی طرح محفوظ و محروس بلاکم وکاست آپ کے پاس پہنچ گیا غیر کا کلام اس سے مخلوط نہیں ہوا اور جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا کہ لوگوں کو اللہ کے احکام پہنچا دیں مگر ہدایت ان کے اختیار میں نہ تھی اسی طرح ہم نے آپ کو فقط بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ایمان پر ثواب اور نجات کی بشارت دیدینا اور کفر و معصیت پر عذاب سے ڈرانا یہ آپ کا کام ہے باقی کسی کو ہدایت دینا وہ سب ہمارے اختیار میں ہے لہٰذا آپ کسی کے کفر اور معصیت سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں اور علاوہ ازیں کہ ہم نے اس قرآن کو حق اور صدق کے ساتھ نازل کیا ہے بمقتضائے رحمت ہم نے اس میں ایک رعایت یہ بھی رکھی ہے کہ ہم نے اس قرآن کو ٹکڑے کرکے اتارا ہے تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ سکیں اور لوگوں کو اس کے یاد کرنے اور سمجھنے میں آسانی ہو اور ہم نے اس کو حسن حالات و واقعات تدریجا اتارا ہے تاکہ وہ واقعہ سامنے ہونے سے حقیقت خوب واضح ہوجائے اور آیت اور حکم کا مصداق نظروں کے سامنے آجائے اور ہر آیت اور ہر حکم کا محل اور موقعہ خوب اچھی طرح دل نشین ہوجائے تو گھبرا جاتے۔ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کے احکام ہیں جس کو خدا نے بندوں کی مصلحت سے تھورا تھوڑا اتارا ہے اس تدریجی نزول میں تمہاری مصلحت ملحوظ ہے لہٰذا تم کو چاہئے کہ اس کتاب پر ایمان لاؤ تاکہ تم کو فائدہ ہو ورنہ خدا تعالیٰ بےنیاز ہے اسے کسی کے ایمان کی ضرورت نہیں اے نبی ﷺ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم اس پر ایمان لاؤ۔ خدا کے یہاں سب برابر ہے تحقیق جن لوگوں کو قرآن کے نزول سے پہلے علم دیا گیا یعنی حق شناس اور نیک دل علماء اہل کتاب ان کا یہ حال ہے کہ جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو کلام خداوندی کی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ٹھوریوں کے بل سجدہ میں گر جاتے ہیں کیونکہ جب انسان پر کسی کی عظمت وہیبت کا غلبہ ہوتا ہے تو اکثر وہ زمین پر اوندھا گر جاتا ہے اور اذقان پر گرنا یہ کنایہ ہے غلبہ خوف اور جذبہ شوق سے اور مطلب یہ ہے کہ غلبہ شوق کی بناء پر اس کی تعظیم کے بجالانے میں جلدی کرتے ہیں حتی کہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار وعدہ خلافی سے پاک ہے یہ ناممکن ہے کہ اس نے جو اپنی پہلی کتابوں میں وعدہ کیا ہے وہ پورا نہ کرے بیشک ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہونا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی توریت کتاب استثناء میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ” اے بنی اسرائیل ! میں تیرے بھائیوں (یعنی حضرت اسماعیل) میں سے ایک نبی اٹھاؤں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالو نگا اس بشارت اور وعدہ کی تفصیل ہم نے اپنی کتاب بشائر النبیین میں لکھ دی ہے وہاں دیکھ لی جائے۔ اس آیت میں ان حق شناس اور طالب حق علماء اہل کتاب کا ذکر ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے ان کو توریت اور انجیل کا علم دیا گیا تھا جیسے زید بن عمرو بن نفیل ؓ اور سلمان فارسی ؓ اور ابوذر غفاری ؓ وغیرہم۔ یہ لوگ انبیائے سابقین اور کتب سماویہ کی خبروں کی وجہ سے نبی آخر الزمان ﷺ اور قرآن کے منتظر تھے وہ اس قرآن کے منتظر تھے وہ اس قرآن کو سن کر خوش ہوتے اور سجدہ شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی کے عیب سے پاک ہے کتب سماویہ مقدسہ میں جو اس نے نبی آخر الزمان ﷺ کے مبعوث کرنے اور قرآن کے نازل کرنے کا وعدہ فرمایا وہ تو ضرور پورا ہونا ہی تھا خدا تعالیٰ نے کتب سابقہ میں جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا فرما دیا قرآن کو سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ اس وعدہ کا ایفاء ہے اور ایمان لے آئے اور قرآن سننے کے وقت ان پر ایسی رقت اور کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ قرآن کی موعظت ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر گئی ہے اور یہ قرآن کا سننا بارگاہ خداوندی میں ان کی فروتنی اور عاجزی کو اور زیادہ کرتا ہے یعنی وہ بڑے نرم دل ہیں قرآن سن کر ان پر عیب رقت طاری ہوجاتی ہے یہ حال تو اہل علم کا ہے اور جاہل اور نادان اس قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں۔
Top