Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
حکم کرتا ہے تم کو اللہ تمہاری اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے پھر اگر صرف عورتیں ہی ہوں دو سے زیادہ تو ان کے لئے دو تہائی اس مال سے جو چھوڑا مرا اور اگر ایک ہی ہو تو اس کیلئے آدھا ہے، اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کیلئے دونوں میں سے چھٹا حصہ ہے اس مال سے جو کہ چھوڑ مرا اگر میت کے اولاد ہے اور اگر اس کے اولاد نہیں اور وارث ہیں اس کے ماں باپ تو اس کی ماں کا ہے تہائی پھر اگر میت کے کئی بھائی ہیں تو اس کی ماں کا ہے چھٹا حصہ بعد وصیت کے جو کر مرا یا بعد ادائے قرض کے تمہارے باپ اور بیٹے تم کو معلوم نہیں کون نفع پہنچائے تم کو زیادہ حصہ مقرر کیا ہوا اللہ کا ہے، بیشک اللہ خبردار ہے حکمت والا۔
ربط آیات
پچھلے رکوع میں للرجال نصیب مماترک الوالدن الخ میں میراث کا استحقاق رکھنے والے لوگوں کا اجمالاً ذکر تھا، اس رکوع میں انہی مستحقین میراث کی بعض اقسام کی تفصیل مذکور ہے اور ان کے مختلف حالات کے اعتبار سے ان کے حصص بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ کی کچھ تفصیل سورت کے آخر میں آ رہی ہے اور باقی ماندہ حصوں کو احادیث کے اندر بیان کیا گیا ہے، فقہاء نے نصوص شرعیہ سے اس کی تمام تفصیلات اخذ کر کے مستقل فن ”فرائض“ کی شکل میں مدون کردیئے ہیں۔
مندرجہ آیت میں اولاد اور والدین کے حصص بیان کئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ میراث کے کچھ اور مسائل بھی مذکور ہیں۔
خلاصہ تفسیر
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے (میراث پانے) کے باب میں (وہ یہ کہ) لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر (یعنی لڑکا لڑکی ایک ایک یا کئی کئی مل جلی ہوں تو ان کے حصوں میں باہم یہ نسبت ہوگی کہ ہر لڑکے کو دوہرا اور ہر لڑکی کو اکہرا) اور اگر (اولاد میں) صرف لڑکیاں ہی ہوں، گو دو سے زیادہ ہوں تو ان لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا اس مال کا جو کہ مورث چھوڑ مرا ہے (اور اگر دو لڑکیاں ہوں تب تو دو تہائی ملنا بہت ہی ظاہر ہے، کیونکہ اگر ان میں ایک لڑکی کی جگہ لڑکا ہوتا تو اس لڑکی کا حصہ باوجودیکہ بھائی سے کم ہے ایک تہائی سے نہ گھٹتا، پس جب دوسری بھی لڑکی ہے، تب تو تہائی سے کسی طرح گھٹ نہیں سکتا اور دونوں لڑکیاں یکساں حالت میں ہیں، پس اس کا بھی ایک تہائی ہوگا، دونوں کا مل کردو تہائی ہوا، البتہ تین لڑکیوں میں شبہ تھا کہ شاید ان کو تین تہائی یعنی کل مل جاوے، اس لئے فرمایا کہ گو لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں گی مگر دو تہائی سے نہ بڑھے گا) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کو (کل ترکہ کا) نصف ملے گا (اور پہلی صورت میں ایک ثلث بچا ہوا اور دوسری صورت کا ایک نصف بچا ہوا دوسرے خاص خاص اقارب کا حق ہے، یا اگر کوئی نہ ہو تو پھر اسی کو دے دیاجاوے گا، جیسا کہ کتب فرائض میں مذکور ہے) اور ماں باپ (کو میراث ملنے میں تین صورتیں ہیں، ایک صورت تو ان) کے لئے یعنی دونوں میں سے ہر ایک کے لئے میت کے ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ (مقرر) ہے، اگر میت کے کچھ اولاد ہو (خواہ مذکر یا مونث خواہ ایک یا زیادہ اور بقیہ میراث اولاد اور دوسرے خاص خاص ورثہ کو ملے گی اور پھر بھی بچ جاوے تو پھر سب کو دی جاوے گی) اور اگر اس میت کے کچھ اولاد نہ ہو اور (صرف) اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں (یہ دوسری صورت ہے اور ”صرف“ اس لئے کہا کہ بھائی بہن بھی نہ ہو، جیسا آگے آتا ہے) تو (اس صورت میں) اس کی ماں کا ایک تہائی ہے (اور باقی دو تہائی باپ کا اور چونکہ صورت مفروضہ میں یہ ظاہر تھا، اس لئے تصریح کی حاجت نہیں ہوئی) اور اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہن (کسی قسم کے) ہوں (خواہ ماں باپ دونوں میں شریک جس کو عینی کہتے ہیں، خواہ صرف باپ ایک ماں الگ الگ جس کو علاقی کہتے ہیں خواہ صرف ماں ایک باپ الگ الگ جس کو اخیافی کہتے ہیں، غرضیکہ کسی طرح کے بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں اور اولاد نہ ہو اور ماں باپ ہوں اور یہ تیسری صورت ہے) تو (اس صورت میں) اس کماں کو (ترکہ کا) چھٹا حصہ ملے گا (اور باقی باپ کو ملے گا ........ یہ سب حصے) وصیت (کے قدر مال) نکال لینے کے بعد کہ میت اس کی وصیت کر جاوے یا دین (اگر ہو تو اس کو بھی نکال لینے) کے بعد (تقسیم ہوں گے) تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم (ان کے متعلق) پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو کہ ان میں کا کونسا شخص تم کو (دنیوی یا اخروی) نفع پہنچانے میں (باعتبار توقع کے) نزدیک تر ہے (یعنی اگر تمہاری رائے پر یہ قصہ رکھا جاتا تو بغالب احوال تم لوگ تقسیم میں مدار ترجیح و تفصیل کا اس شخص کے نفع رسانی پر رکھتے اور اس مدار کے تیقن کا خود کوئی طریقہ کسی کے پاس نہیں ہے تو اس کا مدار تجیز ٹھہرانا ہی صحیح نہ تھا پس جب نفع میں مدار بننے کی قابلیت نہ تھی اس لئے دوسرے مصالح اور اسرار کو گو وہ تمہارے ذہن میں نہ آویں اس حکم کا منبی اور مدار ٹھہرا کر) یہ حکم منجانب اللہ مقرر کردیا گیا (اور یہ امر) بالیقین (مسلم ہے کہ) اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں (پس جو حکمتیں انہوں نے اپنے علم سے اس میں مرعی رکھی ہیں وہی قابل اعتبار ہیں، اس لئے تمہاری رائے پر نہیں رکھا۔)
معارف و مسائل
حقوق متقدمہ علی المیراث۔
شریعت کا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے مال سے پہلے شریعت کے مطابق اس کے کفن دفن کے اخراجات پورے کئے جائیں، جن میں نہ فضول خرچی ہو نہ کنجوسی ہو، اس کے بعد اس کے قرضے ادا کئے جائیں، اگر قرضے اتنے ہی ہوں جتنا اس کا مال ہے یا اس سے بھی زیادہ تو نہ کسی کو میراث ملے گی نہ کوئی وصیت نافذ ہوگی اور اگر قرضوں کے بعد مال بچ جائے یا قرضے بالکل ہی نہ ہوں تو اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اور وہ کسی گناہ کی وصیت نہ ہو، تو اب جو مال موجود ہے اس کے ایک تہائی میں سے اس کی وصیت نافذ ہوجائے گی، اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کر دے تب بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی ........ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا مناسب بھی نہیں ہے اور وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے وصیت کرنا گناہ بھی ہے۔
اداء دین کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے شرعی وارثوں میں تقسیم کردیا جائے جس کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں، اگر وصیت نہ کی ہو تو اداء دین کے بعد پورا مال میراث میں تقسیم ہوگا۔
اولاد کا حصہ۔
جیسا کہ گزشتہ رکوع میں گزر چکا ہے کہ میراث کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوگی، مرنے والے کی اولاد اور اس کے والدین چونکہ اقرب ترین ہیں، اس لئے ان کو ہر حال میں میراث ملتی ہے، یہ دونوں رشتے انسان کے قریب ترین اور بلاواسطہ رشتے ہیں، دوسرے رشتے بالواسطہ ہوتے ہیں، قرآن شریف میں پہلے انہی کے حصے بیان فرمائے اور اولاد کے حصہ سے شروع فرمایا، چناچہ ارشاد ہے۔
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثین، یہ ایک ایسا قاعدہ کلیہ ہے جس نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو میراث کا مستحق بھی بنادیا اور ہر ایک کا حصہ بھی مقرر کردیا اور یہ اصول معلوم ہوگیا کہ جب مرنے والے کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ان کے حصہ میں جو مال آئے گا اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا مل جائے، مثلاً کسی نے ایک لڑکا دو لڑکیاں چھوڑے تو مال کے چار حصے کر کے 4/2 لڑکے کو اور 4/1 ہر لڑکی کو دے دیا جائے گا۔
لڑکیوں کو حصہ دینے کی اہمیت۔
قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر (دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ........ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرما شرمی معاف کردیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو یوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہوتی، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گنہگار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں، ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے ایک گناہ وارث شرعی کے حصہ کو دبانے کا اور دوسرا یتیم کے مال کو کھانے کا۔
اس کے بعد مزید تشریح فرماتے ہوئے لڑکیوں کا حصہ یوں بیان فرمایا
فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک یعنی اگر نرینہ اولاد نہ ہوں اور صرف لڑکیاں ہوں اور ایک سے زائد ہوں تو ان کو مال موروث سے دو تہائی مال ملے گا، جس میں سب لڑکیاں برابر کی شریک ہوں گی اور باقی ایک تہائی دوسرے ورثاء مثلاً میت کے والدین، بیوی یا شوہر وغیرہ میراث کے حق داروں کو ملے گا، دو لڑکیاں اور دو سے زائد سب دو تہائی میں شریک ہوں گی۔
دو لڑکیوں سے زائد کا حکم تو قرآن کی آیت میں صراحتہ مذکور ہے، جیسا کہ فوق اثنین کے الفاظ اس پر دلالت کر رہے ہیں، اور لڑکیاں دو ہوں تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دو سے زیادہ کا حکم ہے، اس کا ثبوت حدیث شریف میں مذکور ہے
ترجمہ۔ ”جابر ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت ﷺ کے ہمراہ باہر نکلے، اتنے میں ہمارا گذارا سواف میں ایک انصاری عورت پر ہوا، وہ عورت اپنی دو لڑکیوں کو لے کر آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول یہ دونوں لڑکیاں ثابت بن قیس (میرے شوہر) کی ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں، ان لڑکیوں کا چچا ان کے پورے مال اور ان کی پوری میراث پر خود قابض ہوگیا ہے اور ان کے واسطے کچھ باقی نہیں رکھا، اس معاملہ میں آپ کیا فرماتے ہیں، خدا کی قسم اگر ان لڑکیوں کے پاس مال نہ ہوگا تو کوئی شخص ان کو نکاح میں رکھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوگا، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے حق میں فیصلہ فرما دے گا، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر جب سورة نساء کی یہ آیت ”یوصیکم اللہ فی اولادکم“ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس عورت اور اس کے دیور کو (لڑکیوں کا وہ چچا جس نے سارے مال پر قبضہ کرلیا تھا) بلایا آپ نے لڑکیوں کے چچا سے فرمایا کہ لڑکیوں کو کل مال کا دو تہائی حصہ دو ، ان کی ماں کو آٹھواں حصہ اور جو بچے وہ تم خود رکھ لو۔“
اس حدیث میں جس مسئلہ کا ذکر ہے اس میں آپ نے دو لڑکیوں کو بھی دو تہائی حصہ لے دیا۔ جس طرح دو سے زیادہ کا یہی حکم خود قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں منصوص ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایاوان کانت واحدة فلھا النصف ”یعنی اگر مرنے والے نے اپنی اولاد میں صرف ایک لڑکی چھوڑی اور اولاد نرینہ بالکل نہ ہو، تو اس کو اس کے والد یا والدہ کے چھوڑے ہوئے مال موروث کا آدھا حصہ ملے گا، باقی دوسرے ورثاء لے لیں گے۔“
والدین کا حصہ۔
اس کے بعد خداوند قدوس نے مرنے والے کے ماں باپ کا حصہ بتایا اور تین حالتیں ذکر فرمائیں۔
اول یہ کہ والدین دونوں زندہ چھوڑے ہوں اور اولاد بھی چھوڑی، خواہ ایک ہی لڑکا یا لڑکی ہو اس صورت میں ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا، دیگر ورثہ اولاد اور بیوی یا شوہر لے لیں گے اور بعض حالات میں کچھ بچا ہوا پھر والد کو پہنچ جاتا ہے جو اس کے لئے مقرر چھٹے حصہ کے علاوہ ہوتا ہے علم فرائض کی اصطلاح میں اس طرح کے استحقاق کو استحقاق تعصیب کہتے ہیں۔
دوسری حالت یہ بتائی کہ مرنے والے کی اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں اور ماں باپ موجود ہوں اس صورت میں مال موروث کا تہائی 3/1 ماں کو اور باقی دو تہائی والد کو مل جائیں گے، یہ اس صورت کا حکم ہے جب کہ مرنے والے کے ورثہ میں اس کا شوہر یا اس کی بیوی بھی موجود نہ ہو، اگر شوہر یا بیوی موجود ہے تو سب سے پہلے ان کا حصہ الگ کیا جاوے گا اور باقی میں 3/1 والدہ کو اور 3/2 والد کو مل جائے گا۔
تیسری حالت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد تو نہ ہوں لیکن بھائی بہن ہوں جن کی تعداد دو ہو، خواہ دو بھائی ہوں، خواہ دو بہنیں ہوں، یا دو سے زیادہ ہوں، اس صورت میں ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اور کوئی وارث نہیں تو بقیہ 6/5 حصہ باپ کو مل جائیں گے، بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی سے ماں کا حصہ کم ہوگیا، لیکن بھائی بہن کو بھی کچھ نہ ملے گا کیونکہ باپ بہ نسبت بھائی بہن کے اقرب ہے، جو بچے گا باپ کو مل جائے گا، اس صورت میں ماں کا حصہ 3/1 کے بجائے 6/1 ہوگیا، ”فرائض“ کی اصطلاح میں اس کو حجب نقصان کہتے ہیں اور یہ بہن بھائی جن کی وجہ سے والدین کا حصہ کٹ رہا ہے، خواہ حقیقی ہوں خواہ باپ شریک ہوں، خواہ ماں شریک ہوں، ہر صورت میں ان کے وجود سے ماں کا حصہ گھٹ جائے گا، بشرطیکہ ایک سے زیادہ ہوں۔
حصص مقررہ بیان کرنے کے بعد فرمایااباؤ کم وابنآؤ کم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیماً ”یعنی اولاد اور ماں باپ کے یہ حصے خداوند عالم نے اپنے طور پر مقرر کردیئے ہیں اور اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ حکیم ہے جو حصے مقرر کئے گئے ہیں ان میں بڑی حکمتیں ہیں، اگر تمہاری رائے پر تقسیم میراث کا قصہ رکھا جاتا تو مدار تقسیم تم لوگ نفع رساں ہونے کو بناتے، لیکن نفع رساں کون ہوگا ؟ اور سب سے زیادہ نفع کس سے پہنچ سکتا ہے ؟ اس کا یقینی علم حاصل کرنا تمہارے لئے مشکل تھا، اس لئے بجائے نافع ہونے کے اقربیت کو مدار حکم بنایا۔“
قرآن کریم کی اس آیت نے بتلا دیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمہیں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے تمہارے خالق ومالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، تمہارے نفع کا کوئی پہلو اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے اور جو کچھ حکم وہ کرتا ہے کسی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، تمہیں خود اپنے نفع و نقصان کی حقیقی پہچان نہیں ہو سکتی، اگر تقسیم میراث کا مسئلہ خود تمہاری رائے پر چھوڑ دیا جاتا تو تم ضرور اپنی کم فہمی کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہ کر پاتے اور میراث کی تقسیم میں بےاعتدالی ہوجاتی، اللہ جل شانہ نے یہ فریضہ اپنے ذمہ لے لیا، تاکہ مال کی تقسیم میں عدل و انصاف کی پوری پوری رعایت ہو اور میت کا سرمایہ منصفانہ طریقہ سے مختلف مستحقین کے ہاتھوں میں گردش کرے۔
Top