Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 100
وَ مَنْ یُّهَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً١ؕ وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يُّھَاجِرْ : ہجرت کرے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يَجِدْ : وہ پائے گا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُرٰغَمًا كَثِيْرًا : بہت (وافر) جگہ وَّسَعَةً : اور کشادگی وَمَنْ : اور جو يَّخْرُجْ : نکلے مِنْ : سے بَيْتِهٖ : اپنا گھر مُھَاجِرًا : ہجرت کر کے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول ثُمَّ : پھر يُدْرِكْهُ : آپکڑے اس کو الْمَوْتُ : موت فَقَدْ وَقَعَ : تو ثابت ہوگیا اَجْرُهٗ : اس کا اجر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو کوئی وطن چھوڑے اللہ کی راہ میں پاوے گا اس کے مقابلہ میں جگہ بہت اور کشائش اور جو کوئی نکلے اپنے گھر سے ہجرت کرکے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف پھر آپکڑے اس کو موت تو مقرر ہوچکا اس کا ثواب اللہ کے ہاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔
معارف و مسائل
ہجرت کی تعریف۔ ان چار آیتوں میں ہجرت کے فضائل، برکات اور احکام کا بیان ہے لغت میں ہجرت، ہجران اور ہجر کے معنی ہیں کسی چیز سے بیزار ہو کر اس کو چھوڑ دینا اور محاورات عامہ میں ہجرت کا لفظ ترک وطن کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، اصطلاح شرع میں دارالکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں (روح المعانی)
اور ملا علی قاری نے شرح مشکوة میں فرمایا کہ کسی وطن کو دینی وجوہ کی بناء پر چھوڑ دینا بھی ہجرت میں داخل ہے (مرقاة صفحہ 93 جلد 1)
سور حشر کی آیت الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم جو مہاجرین صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک کے کافر مسلمانوں کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیں تو یہ بھی ہجرت میں داخل ہے۔
اس تعریف سے معلوم ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف منتقل ہونے والے مسلمان جو دارالکفر سے بیزاری کے سبب باختیار خود اس طرف آئے ہیں یا جن کو غیر مسلموں نے محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیا ہے، یہ سب لوگ شرعی معنی کے اعتبار سے مہاجر ہیں، البتہ جو تجارتی ترقی یا ملازمت کی سہولتوں کی نیت سے منتقل ہوئے وہ شرعاً مہاجر کہلانے کے مستحق نہیں۔
اور صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے
”یعنی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔“
سو اس کا مطلب اسی حدیث کے پہلے جملے سے ظاہر ہوجاتا ہے جس میں یہ ارشاد ہے
”یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے سب مسلمان محفوظ اور سلامت رہتے ہوں“
مراد اس کی ظاہر ہے کہ سچا اور پکا مسلمان وہی ہے جو دوسروں کو ایذاء نہ پہونچائے، اسی طرح سچا اور کامیاب مہاجر وہی ہے جو صرف ترک وطن کر کے فارغ نہ ہوجائے، بلکہ جتنی چیزیں شریعت نے حرام و ناجائز قرار دی ہیں ان سب کو بھی چھوڑ دے۔
اپنے دل کو بھی بدل جامہ احرام کے ساتھ
ہجرت کے فضائل۔
قرآن کریم میں جس طرح جہاد کے متعلق آیات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اسی طرح ہجرت کا ذکر بھی قرآن کریم کی اکثر سورتوں میں متعدد مرتبہ ہے، سب آیات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہا آیت ہجرت میں تین قسم کے مضامین ہیں، اول ہجرت کے فضائل، دوسرے اس کے دنیاوی اور اخروی برکات، تیسرے باوجود قدرت کے دارالکفر سے ہجرت نہ کرنے پر وعیدیں۔
پہلے مضمون یعنی ہجرت کے فضائل کی ایک آیت سورة بقرہ میں ہے
”یعنی وہ جوا یمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔“
”یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑے درجہ میں ہیں اور یہی لوگ کامیاب بامراد ہیں۔“
”یعنی جو شخص اللہ اور رسول کے لئے اپنے گھر سے بہ نیت ہجرت نکل کھڑا ہوا پھر اس کو راستہ ہی میں موت آگئی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہوگیا۔“
یہ آیت بعض روایات کے مطابق حضرت خالد بن حزام کے بارے میں ہجرت حبشہ کے زمانہ میں نازل ہوئی، یہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت پر نکلے تھے، راستہ میں ان کو سانپ نے کاٹ لیا، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، بہرحال ان تینوں آیتوں میں دارالکفر سے ہجرت کی ترغیب اور اس کے بڑے فضائل کا بیان واضح طور پر آ گیا۔
ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہےالھجرة تھدم ماکان قبلھا ”یعنی ہجرت ان سب گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔“
ہجرت کی برکات۔
برکات کے متعلق سورة نحل کی ایک آیت میں ارشاد ہے
”یعنی جن لوگوں نے اللہ کے لئے ہجرت کے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا ثواب تو بہت بڑا ہے، کاش یہ لوگ سمجھ لیتے۔“
سورة نساء کی چار آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں ان میں سے چوتھی آیت کا بھی تقریباً یہی مضمون ہے جس میں ارشاد ہے
”یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ پائے گا زمین میں جگہ بہت اور کشائش“
آیت کا لفظ مراغم مصدر ہے جس کے معنی ہیں ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف منتقل ہونا اور منتقل ہونے کی جگہ کو بھی مراغم کہہ دیا جاتا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں ہجرت کی برکات ظاہرہ وہ باطنہ کا بیان ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ جو شخص اللہ اور رسول کے لئے ہجرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا میں راہیں کھول دیتے ہیں اور اس کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا دیتے ہیں اور آخرت کے ثواب درجات تو وہم و گمان سے بالاتر ہیں۔
اچھے ٹھکانے کی تفسیر مجاہد نے رزق حلال سے اور حسن بصری نے عمدہ مکان سے اور بعض دوسرے مفسرین نے مخالفین پر غلبہ اور عزت و شرف سے کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آیت کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، چناچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ جب کسی نے اللہ کے لئے وطن چھوڑا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو وطن کے مکان سے بہتر مکان وطن کی عزت و شرف سے زیادہ عزت، وطن کے آرام سے زیادہ آرام عطا کیا ہے، حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے عراقی وطن کو چھڑ کر شام کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے یہ سب چیزیں ان کو نصیب فرمائیں، حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل نے اللہ کے لئے اپنے وطن مصر کو چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر وطن ملک شام کا عطا فرمایا اور پھر مصر بھی ان کو مل گا، ہمارے آقا حضرت خاتم النبیاء ﷺ اور آپ کے صحابہ نے اللہ و رسول کے لئے مکہ کو چھوڑا تو مہاجرین کو مکہ سے بہترین ٹھکانا مدینہ میں نصیب ہوا، ہر طرح کی عزت و غلبہ اور راحت و ثروت عطا ہوئی، ہجرت کے ابتدائی دور میں چند روزہ تکلیف و مشقت کا اعتبار نہیں، اس عبوری دور کے بعد جو نعمتیں حق تعالیٰ کی ان حضرات کو عطا ہوئیں اور ان کی کئی نسلوں میں جاری رہیں اسی کا اعتبار ہوگا۔
صحابہ کرام کے فقر و فاقہ کے جو واقعات تاریخ میں مشہور ہیں وہ عموماً ہجرت کے ابتدائی دور کے ہیں یا وہ فقہ اختیاری کے ہیں کہ انہوں نے دنیا و مال و دولت کو پسند ہی نہیں کیا اور جو حاصل ہوا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا، جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ کا اپنا حال یہی تھا کہ آپ کا فقر و فاقہ محض اختیاری تھا، آپ نے غناء و مال داری کو اختیار نہیں فرمایا اور اس کے باوجود ہجرت کے چھٹے سال میں فتح خیبر کے بعد آنحضرت ﷺ کے سب اہل و عیال کے گذارہ کافی انتظام ہوگیا تھا، اسی طرح خلفائے راشدین میں سب کا یہی حال تھا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دیا تھا لیکن اسلامی ضرورت پیش آنے پر حضرت صدیق اکبر نے اپنے گھر کا پورا مال لا کر پیش کردیا، ام المومنین حضرت زینب کو جو کچھ وظیفہ ملتا وہ سب فقراء و مساکین میں تقسیم کر کے خود فقیرانہ زندگی گذارتی تھیں اسی وجہ سے ان کا لقب ام المساکین ہوگیا تھا اور اس کے باوجود اغنیاء صحابہ جنہوں نے بڑی مقدار میں مال و جائیداد چھوڑی ان کی مقدار بھی صحابہ کرام میں کم نہیں، بہت سے حضرات صحابہ ایسے بھی تھے جو اپنے وطن مکہ مکرمہ میں مفلس و نادار تھے، ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دلت اور ہر طرح کی رفاہیت عطا فرمائی، حضرت ابوہریرہ ؓ جب ایک صوبہ کے والی بنا دیئے گئے تو بڑے لطف سے اپنی سابقہ زندگی کا نقشہ اتارا کرتے تھے اور اپنے نفس کو خطاب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ ابوہریرہ ! تو وہی ہے کہ فلاں قبیلہ کا نوکر تھا اور تیری تنخواہ صرف پیٹ بھرائی روٹی تھی اور تیری ڈیوٹی یہ تھی کہ جب وہ لوگ سفر میں جائیں تو پیدل ان کے ساتھ چلے اور جب وہ کسی منزل پر اتریں تو تو ان کے لئے جلانے کی لکڑیاں چن کر لائے، آج اسلام کی بدولت تو کہاں سے کہاں پہنچا، تجھ کو امام اور امیر المومنین کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ مہاجرین کے لئے قرآن میں فرمایا اس کو دنیا نے پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، البتہ اسی آیت میں شرط یہ ہے کہ ہاجروا لفی اللہ کے مصداق ہوں، دنیا کے مال و دولت یا حکومت و سلطنت یا عزت وجاہ کی طلب میں ہجرت نہ کی ہو ورنہ صحیح بخاری کی حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نیت سے ہجرت کرتا ہے تو ان کی ہجرت اللہ اور رسول ہی کے لئے ہے یعنی یہ صحیح ہجرت ہے جس کے فضائل و برکات قرآن میں مذکور ہیں اور جس شخص نے کسی مال کی طلب یا کسی عورت کے نکاح کے خیال سے ہجرت کی ہو تو اس کی ہجرت کا معاوضہ وہی چیز ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔
آج جو بعض مہاجرین پریشان حال ہیں یا تو ابھی وہ اس عبوری دور میں ہیں جس میں ابتدائی ہجرت کے وقت پریشانی پیش آیا کرتی ہے، یا پھر وہ صحیح معنی میں مہاجر نہیں ان کو اپنی نیت اور حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے، نیت اور عمل کی اصلاح کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی سچائی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے۔
Top