Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 135
وَ قَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا١ؕ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ هُوْدًا۔ اَوْ : یہودی۔ یا نَصَارٰی : نصرانی تَهْتَدُوْا : ہدایت پالوگے قُلْ : کہہ دو بَلْ : بلکہ مِلَّةَ : دین اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک وَمَا : اور نہیں کَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اور کہتے ہیں کہ ہوجاؤ یہودی یا نصرانی تو تم پالو گے راہ راست کہہ دے کہ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے اختیار کی راہ ابراہیم کی جو ایک ہی طرف کا تھا اور نہ تھا شرک کرنیوالوں میں
خلاصہ تفسیر
اور یہ (یہودی و نصرانی) لوگ (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی ہوجاؤ (یہ تو یہود نے کہا تھا) یا نصرانی ہوجاؤ (یہ نصاریٰ نے کہا تھا) تم بھی راہ (حق) پر پڑجاؤ گے (اے محمد ﷺ آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ ہم تو (یہودی یا نصرانی کبھی نہ ہوں گے بلکہ) ملت ابراہیم (یعنی اسلام) پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں (بخلاف یہودیت ونصرانیت کے جس میں علاوہ محرف ہونے کے اس کے منسوخ ہو چکنے کے سبب اب اس میں کجی آگئ) اور ابراہیم ؑ مشرک بھی نہ تھے (مسلمانو ! یہود و نصاریٰ کے جواب میں جو تم نے اجمالاً کہا ہے کہ ہم ملت ابراہیمی پر رہیں گے اس ملت کی تفصیل بیان کرنے کے لئے) کہہ دو کہ (اس ملت پر رہنے کا حاصل یہ ہے کہ) ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس (حکم) پر بھی جو ہمارے پاس (بواسطہ رسول اللہ ﷺ کے) بھیجا گیا اور اس (حکم) پر بھی جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گذرے ہیں ان) کی طرف (بواسطہ وحی کے) بھیجا گیا اور اس (حکم اور معجزہ) پر بھی جو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو دیا گیا اور اس پر بھی جو کچھ اور انبیاء (علیہم السلام) کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے (سو ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان بھی) اس کیفیت سے کہ ہم ان (حضرات) میں سے کسی ایک میں بھی (دوسرے سے ایمان لانے میں) تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان رکھیں کسی پر نہ رکھیں) (اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں (انہوں نے ہم کو یہ دین بتلایا) ہم نے اختیار کرلیا (پس یہ حاصل ہے اس ملت کا جس پر ہم قائم ہیں جس میں کسی کو اصلاً انکار و سرتابی کی گنجائش نہیں)
معارف و مسائل
اولاد یعقوب ؑ کو قرآن کریم نے لفظ اسباط سے تعبیر فرمایا ہے یہ جمع ہے سبط کی جس کے معنی قبیلہ اور جماعت کے ہیں ان کو سبط کہنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یعقوب ؑ کے صلبی لڑکے بارہ تھے پھر ہر لڑکے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی نسل میں یہ برکت دی کہ جب حضرت یوسف ؑ کے پاس مصر گئے تو بارہ بھائی تھے اور جب فرعون کے مقابلہ کے بعد موسیٰ ؑ کے ساتھ ان کی اولاد بنی اسرائیل نکلے تو ہر بھائی کی اولاد ہزاروں افراد پر مشتمل قبیلے تھے اور دوسری برکت اولاد یعقوب ؑ میں اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی کہ دس انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ باقی سب انبیاء ورسل ان کی اولاد میں پیدا ہوئے بنی اسرائیل کے علاوہ باقی انبیاء (علیہم السلام) حضرت آدم ؑ کے بعد نوح، شیث، ہود، صالح، لوط، ابراہیم، اسحق، یعقوب، اسماعیل، اور محمد مصطفٰے ﷺ ہیں۔
Top