Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 47
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَا : جس غرض سے يَسْتَمِعُوْنَ : وہ سنتے ہیں بِهٖٓ : اس کو اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ : جب وہ کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَاِذْ : اور جب هُمْ : وہ نَجْوٰٓى : سرگوشی کرتے ہیں اِذْ يَقُوْلُ : جب کہتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : سحر زدہ
ہم خوب جانتے ہیں جس واسطے وہ سنتے ہیں جس وقت کان رکھتے ہیں تیری طرف اور جب وہ مشورہ کرتے ہیں جبکہ کہتے ہیں یہ بےانصاف جس کے کہے پر تم چلتے ہو وہ نہیں ہے مگر ایک مرد جادو کا مارا
معارف و مسائل
پیغمبر پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے
کسی نبی اور پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسا بیماری کا اثر ہوجانا اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے بخار اور درد ہوسکتا ہے ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی خاص اسباب طبیعہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے اور حدیث میں ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ پر سحر کا اثر ہوگیا تھا آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو مسحور کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی اس کا حاصل وہ ہے جس کی طرف خلاصہ تفسیر میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ ان کی مراد درحقیقت مسحور کہنے سے مجنون کہنا تھا اسی کی تردید قرآن نے فرمائی ہے اس لئے حدیث سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔
آیات مذکورہ میں سے پہلی ودوسری آیت میں جو مضمون آیا ہے اس کا ایک خاص شان نزول ہے جو قرطبی نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ جب قرآن میں سورة تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی جس میں ابولہب کی بیوی کی بھی مذمت مذکور ہے تو اس کی بیوی رسول کریم ﷺ کی مجلس میں گئی اس وقت صدیق اکبر مجلس میں موجود تھے اس کو دور سے دیکھ کر آنحضرت محمد ﷺ سے عرض کیا کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ عورت بڑی بدزبان ہے یہ ایسی باتیں کہے گی جس سے آپ کو تکلیف پہنچنے گی آپ نے فرمایا نہیں اس کے اور میرے درمیان اللہ تعالیٰ پردہ حائل کردیں گے چناچہ وہ مجلس میں پہنچی مگر رسول کریم ﷺ کو نہ دیکھ سکی تو صدیق اکبر سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آپ کے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے صدیق اکبر نے فرمایا کہ واللہ وہ تو کوئی شعر ہی نہیں کہتے جس میں عادۃ ہجو کی جاتی ہے تو وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ تم بھی ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو اس کے چلے جانے کے بعد صدیق اکبر نے عرض کیا کہ کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا آپ نے فرمایا کہ جب تک وہ یہاں رہی ایک فرشتہ میرے اور اس کے درمیان پردہ کرتا رہا۔
دشمنوں کی نظر سے مستور رہنے کا ایک عمل
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مشرکین کی آنکھوں سے مستور ہونا چاہتے تو قرآن کی تین آیتیں پڑھ لیتے تھے اس کے اثر سے کفار آپ کو نہ دیکھ سکتے تھے وہ تین آیتیں یہ ہیں ایک آیت سورة کہف میں یعنی اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا (57) دوسری آیت سورة نحل میں ہے اولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ (108) اور تسیری آیت سورة جاثیہ میں ہے اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً (23)
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا یہ معاملہ میں نے ملک شام کے ایک شخص سے بیان کیا اس کو کسی ضرورت سے رومیوں کے ملک میں جانا تھا وہاں گیا اور ایک زمانہ تک مقیم رہا پھر رومی کفار نے اس کو ستایا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا ان لوگوں نے اس کا تعاقب کیا اس شخص کو وہ روایت یاد آگئی اور مذکورہ تین آیتیں پڑھیں قدرت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ جس راستہ پر یہ چل رہے تھے اسی راستہ پر دشمن گذر رہے تھے مگر وہ ان کو نہ دیکھ سکتے تھے۔
امام ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت کعب سے جو روایت نقل کی گئی ہے میں رئے کے رہنے والے ایک شخص کو بتلائی اتفاق سے ویلم کے کفار نے اس کو گفتار کرلیا کچھ عرصہ ان کی قید میں رہا پھر ایک روز موقع پا کر بھاگ کھڑا ہوا یہ لوگ اس کے تعاقب میں نکلے مگر اس شخص نے بھی یہ تین آیتیں پڑھ لیں اس کا یہ اثر ہوا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکے حالانکہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جاتے تھے۔
امام قرطبی کہتے ہیں کہ ان تینوں کے ساتھ وہ آیات سورة یسین کی بھی ملالی جائیں جن کو آنحضرت محمد ﷺ نے ہجرت کے وقت پڑھا تھا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا آپ نے یہ آیات پڑھیں اور ان کے درمیان سے نکلتے ہوئے چلے گئے بلکہ ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے گئے ان میں سے کیسی کو خبر نہیں ہوئی وہ آیات سورة یسین کی یہ ہیں يٰسۗ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ مجھے خود اپنے ملک اندلس میں قرطبہ کے قریب قلعہ منثور میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میں دشمن کے سامنے بھاگا اور ایک گوشہ میں بیٹھ گیا دشمن نے دو گھوڑے سوار میرے تعاقب میں بھیجے اور میں بالکل کھلے میدان میں تھا کوئی چیز پردہ کرنے والی نہ تھی مگر میں سورة یسین کی یہ آیتیں پڑھ رہا تھا یہ دونوں سوار میری برابر سے گذرے پھر جہاں سے آئے تھے یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ یہ شخص کوئی شیطان ہے کیونکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے اللہ تعالیٰ نے ان کو مجھ سے اندھا کردیا تھا (قرطبی)
Top