Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
پھر دی ہم نے175 موسیٰ کو کتاب واسطے پورا کرنے نعمت کے نیک کام والوں پر اور واسطے تفصیل ہر شے کے اور ہدایت اور رحمت کے تاکہ وہ لوگ اپنے رب کے ملنے کا یقین کریں
175 سورت کے دونوں مضمونوں یعنی نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک فعلی کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں دونوں مضمونوں پر ایک دلیل نقلی اور ایک دلیل وحی ذکر کی گئی۔ اس آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دلیل نقلی پیش کی گئی ہے ثُمَّ یہاں تعقیب ذکری کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مذکور بیان کے بعد یہ بھی سن لو یہ مطلب نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اس کے بعد دی گئی۔ تَمَامًا بمعنی اتماماً ۔ اٰتَیْنَا کا مفعول لہ ہے یعنی نعمت دین کے اتمام کے لیے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی یا تماماً بمعنی تاما الکتاب سے حال ہے۔ یعنی وہ کتاب (تورات) کامل و مکمل تھی اور اس میں یہ دونوں مضمون مذکور تھے۔ نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی (تحریمات غیر اللہ ناجائز اور نذر و غیر اللہ حرام ہیں) عَلَی الَّذِیْ اَحْسَنَ یعنی اس شخص کے لیے جو نیک روی اختیار کرے۔ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ اور اس (تورات) میں وہ تمام ضروری احکام و مسائل مذکور تھے جن کی دین میں ضرورت تھی۔ فائدہ : ایک حدیث میں آتا ہے فتجلی لی کل شیء یعنی میرے لیے ہر چیز روشن ہوگئی اہل بدعت اس سے آنحضرت ﷺ کے علم غیب کلی پر استدلال کرتے ہیں۔ ان کے استدلال کی بنیاد اس پر ہے کہ یہاں لفظ کل استغراق حقیقی کے لیے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف اور ساقط الاعتبار ہے۔ دوم اگر بالغرض اسے مان لیا جائے تو یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہاں کل استغراق حقیقی کے لیے ہے بلکہ یہاں استغراق اضافی مراد ہے۔ اگر اس کو استغراق حقیقی پر محمول کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تمام ماکان ومایکون اور تمام شرائع اور احکام کا علم آپ پر منکشف ہوگیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن مجید کا نازل کرنا عبث اور بےفائدہ ہے۔ عیاذا باللہ العظیم قرآن مجید میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ چناچہ زیر تفسیر آیت میں بھی لفظ کل استغراق اضافی کے لیے ہے اور اس سے مراد وہ احکام ہیں جن کی دین میں ضرورت تھی علامہ آلوسی لکھتے ہیں ای بیانا مفصلا لکل ما یحتاج الیہ فی الدین (روح ج 8 ص 60) امام نفسی فرماتے ہیں بیانا مفصلا لکل ما یحتاجون الیہ فی دینھم (مدارک ج 2 ص 32) امام بغوی اور خازن رقمطراز ہیں یعنی وفیہ بیان لکل شیء یحتاج الیہ من شرائع الدین واحکامہ (معالم و خازن واللفظ لہ ج 2 ص 166) ۔
Top