Jawahir-ul-Quran - Al-Hijr : 7
اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَمُغْرَمُوْنَ : البتہ تاوان ڈالے گئے ہیں
(کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے
انا لمغر مون۔ ابوبکر اور مفضل نے ائنا دو ہمزہ کے ساتھ استفہام کی صورت میں پڑھا ہے عاصم نے اسے زربن حبیش سے روایت کیا ہے باقی قراء نے ایک ہمزہ کے ساتھ خبر کی صورت میں پڑھا ہے یعنی وہ کہتے ہیں : ہم عذاب میں ہیں (1) حضرت ابن عباس اور قتادہ نے کہا : غرام سے مراد عذاب ہے، اس معنی میں ابن محلم کا قول ہے : وثقت بان الفظ منی سجیۃ وان قوادی متبل بک مغوم (2) مجھے اعتماد ہے کہ میری طرف سے یاد کھنا خصلت ہے اور میرا دل تیری وجہ سے پریشان اور عذاب میں ہے۔ مجاہد اور عکرمہ نے کہا : ہمیں شوق اور جوش دلایا گیا تھا : اس معنی میں نمربن تو لب کا قول ہے : کان رھینا بھا مغرما وہ اس کے بدلہ میں رہن رکھا گیا ہے اور اسے جوش دلایا گیا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : اغرم فلان بفلانۃ فلاں فلاں سے بہت محبت کرتا ہے : اسی سے غرام ہے یہ ایسی شر ہے جو لازم ہے۔ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے : وہ شر کو پانے والے ہیں۔ مقاتل نن حیان نے کہا : وہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ نحاس نے کہا : ان المغرمون یہ لفظ غرام سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہلاکت ہے جس طرح شاعر نے کہا : یوم النسار ویوم الجفا وکانا عذابا، کا نا غراما (3) یوم نسار ( چشمہ کا نام) اور یوم جفار ( جگہ کا نام) دونوں عذاب اور ہلاکت تھے۔ ضحاک اور ابن کسی ان نے کہا : یہ غرم سے مشتق ہے مغرم اسے کہتے ہیں جس کا مال بغیر عوض کے چلا جائے یعنی ہمارا وہ دانہ بھی ضائع ہوگیا جو ہم نے بویا تھا۔ مرہ ہمدانی نے کہا : ہمارا محاسبہ کیا جائے گا۔ بل نحن محرومون۔ یعنی ہم نے جس شادابی کا مطالبہ کیا تھا اس سے ہمیں محروم کردیا گیا۔ محروم اسے کہتے ہیں جس کو رزق سے روک دیا گیا ہو محروم، مرزوق کی ضد ہے۔ قتادہ کے قول میں یہی محارف ہے۔ حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ انصار کی زمین کے پاس سے گزرے پوچھا :” کس چیز نے تمہیں کھیت کو کاشت کرنے سے روکا “ انہوں نے عرض کی : زمین کے بنجر ہونے نے۔ فرمایا :” ایسا نہ کہا کروکیون کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے انا الزارع میں کھیتوں کو اگانے والا ہوں، میں چاہوں گا تو میں پانی کے ساتھ کھیتی کو اگائوں، چاہوں تو ہوا کے ساتھ اگائوں اور چاہوں تو بیچ کے ساتھ اگائوں “۔ پھر اس آیت کی تلاوت کی :” افرء یتم ما تحرثون۔ ء انتم تزرعونہٗ ام نحن الوزرعون۔ “ ( الواقعہ) میں کہتا ہوں : اس حدیث میں اور اس سے قبل کی حدیث میں وہ دلیل موجود ہے جو اس کے قول کی صحت کو ثابت کرتی ہے جس نے زارع کو لفظ کو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں داخل کیا۔ اکثر علماء نے اس کا انکار کیا ہے ہم نے اس کی وضاحت الکتاب الاسنی فی شرح اسماء اللہ الحسنی میں کردی ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 461 2 ؎۔ ایضاً 3 ؎۔ ایضاً
Top