Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 105
وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِيَقُوْلُوْا : اور تاکہ وہ کہیں دَرَسْتَ : تونے پڑھا ہے وَلِنُبَيِّنَهٗ : اور تاکہ ہم واضح کردیں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں کیلئے تشریح کردیں۔
وکذلک نصرف الآیات، یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد ﷺ کسی سے بڑھ کر اور سیکھ کر آتا ہے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ وما انت علیھم بوکیل، مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کو صرف داعی اور مبلغ بنا کر بھیجا گیا ہے کو توال نہیں، آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ لوگوں کے سامنے اظہار حق کردیں اور اظہار حق میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، اب اگر کوئی قبول نہیں کرتا تو نہ کرے، اس کا بار آپ کے اوپر نہیں اور نہ آپ کی یہ ذمہ داری، اگر فی الواقع حکمت الہیٰ کا تقاضہ یہ ہوتا کہ دنیا میں کوئی باطل پرست نہ رہے تو اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست بنانے کیلئے کافی ہوسکتا تھا مگر حکمت الہیٰ کا تو مقصد ہی کچھ اور ہے وہ یہ کہ انسان کو حق و باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور حق کی روشنی ان کے سامنے پیش کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ حق و باطل میں سے وہ کس کو پسند کرتا ہے۔
Top