Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 56
ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ : پھر ہم نے تمہیں زندہ کیا مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ : تمہاری موت کے بعد لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تم کو از سر نو زندہ کردیا تاکہ احسان مانو
ثُمَّ بَعْثَنَاکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، یعنی پھر ہم نے (موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی دعائ) سے تم کو زندہ کو اٹھایا تمہارے مرجانے کے بعد اس توقع پر کہ تم احسان مانو گے۔ فائدہ : '' موت '' کے لفظ سے ظاہر ہے کہ : یہ لوگ بجلی سے مرگئے تھے، اس مرنے کا قصہ اور سبب یہ ہوا کہ : جب موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام نے کوہ طور سے تورات لاکر پیش کی اور اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی کی خوشخبری سنائی تو بعض گستاخ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ خود ہم سے کہہ دے کہ یہ ہماری کتاب ہے، تو بیشک ہم کو یقین آجائے گا، بنی اسرائیل نے اس کام کے لئے ستر آدمی منتخب کر کے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے ہمراہ کوہ طور پر روانہ کئے، وہاں پہنچ کر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو اس وقت کہنے لگے، ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ پس پردہ اللہ بول رہا ہے، نہ معلوم کون بول رہا ہوگا، اگر ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو مان لیں گے، چونکہ دنیا میں کوئی شخص اللہ کو دیکھنے کی قوت نہیں رکھتا، اس لئے اس گستاخی پر ان پر بجلی آن پڑی، اور سب ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام نے اللہ سے عرض کیا کہ بنی اسرائیل یوں ہی بدگمان رہتے ہیں اب وہ یہ سمجھیں گے کہ میں نے ان کو لے جاکر کہیں ہلاک کردیا ہوگا، مجھ کو اس تمہت سے محفوظ رکھئے اس دعاء کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا۔ (معارف ملخصا) رؤیت باری کا مسئلہ : معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ رؤیت باری ممکن نہیں ہے، اگر رؤیت باری ممکن اور جائز ہوتی تو اس سوال پر سرداران بنی اسرائیل کو اتنی سخت سزا نہ ملتی، لیکن اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ رویت باری جنت میں تو مومنین کو ہوگی ہی دنیا میں بھی مخصوص افراد کو بطور فضل خاص ممکن ہے، البتہ ہر جہت جسم اور مادی کم و کیف سے پاک۔ (بیضاوی، قرطبی، بحوالہ ماجدی)
Top