Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Waaqia : 27
وَ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْیَمِیْنِؕ
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ
: اور دائیں ہاتھ والے
مَآ
: کیا ہیں
اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ
: دائیں ہاتھ والے
اور داہنے ہاتھ والے (سبحان الله) داہنے ہاتھ والے کیا (ہی عیش میں) ہیں
اصحاب یمین اور ان پر انعامات الٰہی سابقین کا حال بیان کر کے اللہ تعالیٰ اب ابرار کا حال بیان فرماتا ہے جو سابقین سے کم مرتبہ ہیں۔ ان کا کیا حال ہے کیا نتیجہ ہے اسے سنو، یہ ان جنتوں میں ہیں جہاں بیری کے درخت ہیں لیکن کانٹے دار نہیں۔ اور پھل بکثرت اور بہترین ہیں دنیا میں بیری کے درخت زیادہ کانٹوں والے اور کم پھلوں والے ہوتے ہیں۔ جنت کے یہ درخت زیادہ پھلوں والے اور بالکل بےخار ہوں گے، پھلوں کے بوجھ سے درخت کے تنے جھکے جاتے ہوں گے حضرت ابو بر احمد بن نجار ؒ نے ایک روایت وارد کی ہے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ اعرابیوں کا حضور کے سامنے آنا اور آپ سے مسائل پوچھنا ہمیں بہت نفع دیتا تھا ایک مرتبہ ایک اعرابی نے آ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ قرآن میں ایک ایسے درخت کا بھی ذکر ہے جو ایذاء دیتا، آپ نے پوچھا وہ کونسا اس نے کہا بیری کا درخت، آپ نے فرمایا پھر تو نے اس کے ساتھ ہی لفظ مخضود نہیں پڑھا ؟ اس کے کانٹے اللہ تعالیٰ نے دور کردیئے ہیں اور ان کے بدلے پھل پیدا کردیئے ہیں ہر ایک بیری میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے جن کا رنگ و مزہ مختلف ہوگا، یہ روایت دوسری کتابوں میں بھی مروی ہے اس میں لفظ طلح ہے اور ستر ذائقوں کا بیان ہے۔ طلح ایک بڑا درخت ہے جو حجاز کی سرزمین میں ہوتا ہے، یہ کانٹے دار درخت ہے اس میں کانٹے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ چناچہ ابن جریر نے اس کی شہادت عربی کے ایک شعر سے بھی دی ہے۔ (منضود) کے معنی تہ بہ تہ پھل والا، پھل سے لدا ہوا۔ ان دونوں کا ذکر اس لئے ہوا کہ عرب ان درختوں کی گہری اور میٹھی چھاؤں کو پسند کرتے تھے، یہ درخت بظاہر دنیوی درخت جیسا ہوگا لیکن بجائے کانٹوں کے اس میں شیرین پھل ہوں گے۔ جوہری فرماتے ہیں طلح بھی کہتے ہیں اور طلع بھی، حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے، تو ممکن ہے کہ یہ بھی بیری کی ہی صفت ہو، یعنی وہ بیریاں بےخاسر اور بکثرت پھلدار ہیں واللہ اعلم۔ اور حضرات نے طلح سے مراد کیلے کا درخت کہا ہے، اہل یمن کیلے کو طلح کہتے ہیں اور اہل حجاز موز کہتے ہیں۔ لمبے لمبے سایوں میں یہ ہوں گے۔ صحیح بخاری میں رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت کے درخت کے سائے تلے تیز سوار سو سال تک چلتا رہے۔ گا لیکن سایہ ختم نہ ہوگا۔ اگر تم چاہو اس آیت کو پڑھو، مسلم میں بھی یہ روایت موجود ہے اور مسند احمد، مسند ابو یعلی میں بھی مسند کی اور حدیث میں شک کے ساتھ ہے یعنی ستر یا سو اور یہ بھی ہے کہ یہ شجرۃ الخلد ہے، ابن جریر اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے پس یہ حدث متواتر اور قطعاً صحیح ہے اس کی اسناد بہت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے، حضرت ابوہریرہ نے جب یہ روایت بیان کی اور حضرت کعب کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے تورات حضرت موسیٰ پر اور قرآن حضرت محمد ﷺ پر اتارا کہ اگر کوئی شخص نوجوان اونٹنی پر سوار ہو کر اس وقت چلتا رہے جب تک وہ بڑھیا ہو کر گرجائے تو بھی اس کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے اور خود آپ اس میں اپنے پاس کی روح پھونکی ہے اس کی شاخیں جنت کی دیواروں سے باہر نکلی ہوئی ہیں۔ ابو حصین کہتے ہیں کہ ایک موضع میں ایک دروازے پر ہم تھے ہمارے ساتھ ابو صالح اور شفیق جہنی بھی تھے اور ابو صالح نے حضرت ابوہریرہ والی اوپر کی حدیث بیان کی اور کہا کیا تو ابوہریرہ کو جھٹلاتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں، انہیں تو نہیں تجھے جھٹلاتا ہوں۔ پس یہ قاریوں پر بہت گراں گذرا۔ میں کہتا ہوں اس ثابت، صحیح اور مرفوع حدیث کو جو جھٹلائے وہ غلطی پر ہے۔ ترمذی میں ہے جنت کے ہر درخت کا تنہ سونے کا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر طرف سو سو سال کے راستے تک سایہ پھیلا ہوا ہے۔ جنتی لوگ اس کے نیچے آکر بیٹھتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ کسی کو دنیوی کھیل تماشے اور دل بہلاوے یاد آتے ہیں تو اسی وقت ایک جنتی ہوا چلتی ہے اور اس درخت میں سے تمام راگ راگنیاں باجے گاجے اور کھیل تماشوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند قوی ہے۔ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں یہ سایہ ستر ہزار سال کی طولانی میں ہوگا۔ آپ سے مرفوع حدیث میں ایک سو سال مروی ہے یہ سایہ گھٹتا ہی نہیں نہ سورج آئے نہ گرمی ستائے، فجر کے طلوع ہونے سے پیشتر کا سماں ہر وقت اس کے نیچے رہتا ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں جنت میں ہمیشہ وہ وقت رہے گا جو صبح صادق کے بعد سے لے کر آفتاب کے طلوع ہونے کے درمیان درمیان رہتا ہے سایہ کے مضمون کی روایتیں بھی اس سے پہلے گذر چکی ہیں، جیسے آیت (وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِيْلًا 57) 4۔ النسآء :57) اور آیت (اُكُلُهَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّهَا 35۔) 13۔ الرعد :35) اور آیت (اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ ظِلٰلٍ وَّعُيُوْنٍ 41ۙ) 77۔ المرسلات :41) وغیرہ پانی ہوگا بہتا ہوا مگر نہروں کے گڑھے اور کھدی ہوئی زمین نہ ہوگی، اس کی پوری تفسیر آیت (فِيْهَآ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ 15) 47۔ محمد :15) میں گذر چکی ہے۔ ان کے پاس بکثرت طرح طرح کے لذیر میوے ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے نہ کسی کان نے سنے نہ کسی انسانی دل پر ان کا وہم و خیال گذرا۔ جیسے اور آیت میں ہے جب وہاں پھلوں سے روزی دیئے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو ہم پہلے بھی دئے گئے تھے کیونکہ بالکل ہم شکل ہوں گے، لیکن جب کھائیں گے تو ذائقہ اور ہی پائیں گے۔ بخاری و مسلم میں سدرۃ المنتہی کے ذکر میں ہے کہ اس کے پتے مثل ہاتھی کے کانوں کے ہوں گے اور پھل مثل ہجر کے بڑے بڑے مٹکوں کے ہوں گے، حضرت ابن عباس کی اس حدیث میں جس میں آپ نے سورج کے گہن ہونے کا اور حضور ﷺ کا سورج گہن کی نماز ادا کرنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے یہ بھی ہے کہ بعد فراغت آپ کے ساتھ کے نمازیوں نے آپ سے پوچھا حضور ﷺ ہم نے آپ کو اس جگہ آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے دیکھا کیا بات تھی ؟ آپ نے فرمایا میں نے جنت دیکھی جنت کے میوے کا خوشہ لینا چاہا اگر میں لے لیتا تو رہتی دنیا تک وہ رہتا اور تم کھاتے رہتے۔ ابو یعلی میں ہے ظہر کی فرض نماز پڑھاتے ہوئے حضرت ابی کعب نے پوچھا کہ حضور ﷺ آگے بڑھ گئے اور ہم بھی پھر آپ نے گویا کوئی چیز لینی چاہی، پھر پیچھے ہٹ آئے، نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابی کعب نے پوچھا کہ حضور ﷺ آج تو آپ نے ایسی بات کی جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی، آپ نے فرمایا میرے سامنے جنت لائی گئی اور جو اس میں تروتازگی اور سبزی ہے میں نے اس میں سے ایک انگور کا خوشہ توڑنا چاہا تاکہ لا کر تمہیں دوں پس میرے اور اس کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا اور اگر اس میں اسے تمہارے پاس لے آتا تو زمین و آسمان کے درمیان کی مخلوق اسے کھاتی رہتی تاہم اس میں ذرا سی بھی کمی نہ آتی۔ اسی کے مثل حضرت جابر ؓ سے صحیح مسلم شریف میں بھی مروی ہے، مسند امام احمد میں ہے کہ ایک اعرابی نے آ کر آنحضرت ﷺ سے حوض کوثر کی بابت سوال کیا اور جنت کا بھی ذکر کیا پوچھا کہ کیا اس میں میوے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہاں طوبیٰ نامی درخت بھی ہے ؟ پھر کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں پھر پوچھا وہ درخت ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرے ملک کی زمین میں کوئی درخت اس کا ہم شکل نہیں۔ کیا تو شام میں گیا ہے ؟ اس نے کہا نہیں، فرمایا شام میں ایک درخت ہوتا ہے جسے جوزہ کہتے ہیں ایک ہی تنہ ہوتا ہے اور اوپر کا حصہ پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ البتہ اس کے مشابہ ہے، اس نے پوچھا جنتی خوشے کتنے بڑے ہوتے ہیں ؟ فرمایا کالا کوا مہینہ بھر تک اڑتا رہے اتنے بڑے۔ وہ کہنے لگا اس درخت کا تنہ کس قدر موٹا ہے آپ نے فرمایا اگر تو اپنی اونٹنی کے بچے کو چھوڑ دے اور وہ چلتا رہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر گرپڑے تب بھی اس کے تنے کا چکر پورا نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا اس میں انگور بھی لگتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں پوچھا کتنے بڑے ؟ آپ نے جواب دیا کہ کیا کبھی تیرے باپ نے اپنے ریوڑ میں سے کوئی موٹا تازہ بکرا ذبح کر کے اس کی کھال کھینچ کر تیری ماں کو دے کر کہا ہے کہ اس کا ڈول بنا لو ؟ اس نے کہا ہاں، فرمایا بس اتنے ہی بڑے بڑے انگور کے دانے ہوتے ہیں۔ اس نے کہا پھر تو ایک ہی دانہ مجھ کو اور میرے گھر والوں کو کافی ہے آپ نے فرمایا بلکہ ساری برادری کو، پھر یہ میوے بھی ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ نہ کبھی ختم ہوں نہ کبھی ان سے روکا جائے۔ یہ نہیں کہ جاڑے میں ہیں اور گرمیوں میں نہیں، یا گرمیوں میں ہیں اور جاڑوں میں ندارد بلکہ یہ میوے دوام والے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں جب طلب کریں پالیں اللہ کی قدرت ہر وقت وہ موجود رہیں گے، بلکہ کسی کانٹے اور کسی شاخ کو بھی آڑ نہ ہوگی نہ دوری ہوگی نہ حاصل کرنے میں تکلف اور تکلیف ہوگی۔ بلکہ ادھر پھل توڑا ادھر اس کے قائم مقام دوسرا پھل لگ گیا، جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذر چکا۔ ان کے فرش بلند وبالا نرم اور گدگدے راحت و آرام دینے والے ہوں گے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں ان کی اونچائی اتنی ہوگی جتنی زمین و آسمان کی یعنی پانچ سو سال کی (ترمذی) یہ حدیث غریب ہے، بعض اہل معانی نے کہا ہے کہ مطلب اس حدیث شریف کا یہ ہے کہ فرش کی بلندی درجے کی آسمان و زمین کے برابر ہے یعنی ایک درجہ دوسرے درجے سے اس قدر بلند ہے۔ ہر دو درجوں میں پانچ سو سال کی راہ کا فاصلہ ہے، پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ روایت صرف رشد بن سعد سے مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں۔ یہ روایت ابن جرید ابن ابی حاتم وغیرہ میں بھی ہے۔ حضرت حسن سے مروی ہے کہ ان کی اونچائی اسی سال کی ہے۔ اس کے بعد ضمیر لائی جس کا مرجع پہلے مذکور نہیں اس لئے کہ قرینہ موجود ہے۔ بستر کا ذکر آیا جس پر جنتیوں کی بیویاں ہوں گی پس ان کی طرف ضمیر پھیر دی۔ جیسے حضرت سلیمان کے ذکر میں تورات کا لفظ آیا ہے اور شمس کا لفظ اس سے پہلے نہیں پس قرینہ کافی ہے۔ لیکن ابو عبیدہ کہتے ہیں پہلے مذکورہ ہوچکا آیت (وَحُوْرٌ عِيْنٌ 22 ۙ) 56۔ الواقعة :22) پس فرماتا ہے کہ ہم نے ان بیویوں کو نئی پیدائش میں پیدا کیا ہے، اس کے بعد کہ وہ باکل پھوس بڑھیا تھیں ہم نے انہیں نو عمر کنواریاں کر کے ایک خاص پیدائش میں پیدا کیا۔ وہ اپنے ظفافت و ملاحت، حسن صورت و جسامت سے خوش خلقی اور حلاوت کی وجہ سے اپنے خاوندوں کی بڑی پیاریاں ہیں، بعض کہتے ہیں عرباء کہتے ہیں ناز و کرشمہ والیوں کو حدیث میں ہے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا میں بڑھیا تھیں اور اب جنت میں گئی ہیں تو انہیں نو عمر وغیرہ کردیا ہے اور روایت میں ہے کہ خواہ یہ عورتیں کنواری تھیں یا ثیبہ تھیں اللہ ان سب کو ایسی کر دے گا، ایک بڑھیا عورت رسول مقبول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتی ہے کہ یارسول اللہ ﷺ میرے لئے دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر دے آپ نے فرمایا ام فلاں جنت میں کوئی بڑھیا نہیں جائے گی، وہ روتی ہوئی واپس لوٹیں تو آپ نے فرمایا جاؤ انہیں سمجھا دو ، مطلب یہ ہے کہ جب وہ جنت میں جائیں گی بڑھیا نہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم انہیں نئی پیدائش میں پیدا کریں گے پھر باکرہ کردیں گے شمائل ترمذی وغیرہ طبرانی میں ہے حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ حورعین کی خبر مجھے دیجئے آپ نے فرمایا وہ گورے رنگ کی ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں سخت سیاہ اور بڑے بڑے بالوں والی ہیں جیسے گدھ کا پر ،۔ میں نے کہا (اللُّؤْلُـہ الْمَكْنُوْنِ 23ۚ) 56۔ الواقعة :23) کی بابت خبر دیجئے آپ نے ارشاد فرمایا دن کی صفائی اور جوت مثل اس موتی کے ہے جو سیپ سے ابھی ابھی نکلا ہو جسے کسی کا ہاتھ بھی نہ لگا ہو، میں نے کہا خیرات حسان کی کیا تفسیر ہے ؟ فرمایا خوش خلق خوبصورت میں نے کہا (كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ 49) 37۔ الصافات :49) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ان کی نذاکت اور نرمی انڈے کی اس جھلی کی مانند ہوگی جو اندر ہوتی ہے، میں نے عرباء اترابا کے معنی دریافت کئے، فرمایا اس سے مراد دنیا کی مسلمان جنتی عورتیں ہیں جو بالکل بڑھیا پھوس تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں نئے سرے سے پیدا کیا اور کنواریاں اور خاوندوں کی چہیتیاں اور خاوندوں سے عشق رکھنے والیاں اور ہم عمر بنادیں، میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ دنیا کی عورتیں افضل ہیں جیسے استر سے ابرا بہتر ہوتا ہے، میں نے کہا اس فضیلت کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا نمازیں روزے اور اللہ تعالیٰ کی عبادتیں، اللہ نے ان کے چہرے نور سے ان کے جسم ریشم سے سنوار دیئے ہیں، سفید ریشم، سبز ریشم اور زرد سنہرے ریشم اور زرد سنہرے زیور بخوردان موتی کے کنگھیاں سونے کی یہ کہتی رہیں گی نحن الخالدات فلا نموت ابدا ونحن الناعمات فلا نباس ابدا ونحن المقیمات فلا نطعن ابدا ونحن الراضیات فلا نسخط ابدا طوبی لمن کنا لہ وکان لنا یعنی ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی مریں گی نہیں، ہم ناز اور نعمت والیاں ہیں کہ کبھی سفر میں نہیں جائیں گی ہم اپنے خاوندوں سے خوش رہنے والیاں ہیں کہ کبھی روٹھیں گی نہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے لئے ہم ہیں اور خوش نصیب ہیں ہم کہ ان کے لئے ہیں۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ بعض عورتوں کے دو دو تین تین چار چار خاوند ہوجاتے ہیں اس کے بعد اسے موت آتی ہے مرنے کے بعد اگر یہ جنت میں گئی اور اس کے سب خاوند بھی گئے تو یہ کسے ملے گی ؟ آپ نے فرمایا اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ چاہے رہے چناچہ یہ ان میں سے اسے پسند کرے گی جو اس کے ساتھ بہترین برتاؤ کرتا رہا ہو، اللہ تعالیٰ سے کہے گی پروردگار یہ مجھ سے بہت اچھی بودوباش رکھتا تھا اسی کے نکاح میں مجھے دے، اے ام سلمہ حسن خلق دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو لئے ہوئے ہے۔ صور کی مشہور مطول حدیث میں ہے کہ رسول ﷺ تمام مسلمانوں کو جنت میں لے جانے کی سفارش کریں گے جس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے آپ کی شفاعت قبول کی اور آپ کو انہیں جنت میں پہنچانے کی اجازت دی، آپ فرماتے ہیں پھر میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا اللہ کی قسم تم جس قدر اپنے گھر بار اور اپنی بیویوں سے واقف ہو اس سے بہت زیادہ اہل جنت اپنے گھروں اور بیویوں سے واقف ہوں گے۔ پس ایک ایک جنتی کی بہتر بہتر بیویاں ہوں گی جو اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور دو دو بیویاں عورتوں میں سے ہوں گی کہ انہیں بوجہ اپنی عبادت کے ان سب عورتوں پر فضیلت حاصل ہوگی جنتی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا یہ اس بالا خانے میں ہوگی جو یاقوت کا بنا ہوا ہوگا اس پلنگ پر ہوگی جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا ہوگا اور جڑاؤ جڑا ہوا ہوگا، ستر جوڑے پہنے ہوئے ہوں گے جو سب باریک اور سبز چمکیلے خالص ریشم کے ہوں گے، یہ بیوی اس قدر نازک نورانی ہوگی کہ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سینے کی طرف سے دیکھے گا تو صاف نظر آجائے گا، کہ کپڑے گوشت ہڈی کوئی چیز روک نہ ہوگی اس قدر اس کا جسم صاف اور آئینہ نما ہوگا جس طرح مروارید میں سوراخ کر کے ڈورا ڈال دیں تو وہ ڈورا باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح اس کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا۔ ایسا ہی نورانی بدن اس جنتی کا بھی ہوگا، الغرض یہ اس کا آئینہ ہوگی، اور وہ اس کا یہ اس کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول ہوگا نہ یہ تھکے نہ وہ اس کا دل بھرے نہ اس کا۔ جب کبھی نزدیکی کرے گا تو کنواری پائے گا نہ اس کا عضو سست ہو نہ اسے گراں گذرے مگر خاص پانی وہاں نہ ہوگا جس سے گھن آئے، یہ یونہی مشغول ہوگا جو کان میں ندا آئے گی کہ یہ تو ہمیں خوب معلوم ہے کہ نہ آپ کا دل ان سے بھرے گا نہ ان کا آپ سے مگر آپ کی دوسری بیویاں بھی ہیں، اب یہ یہاں سے باہر آئے گا اور ایک ایک کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا اسے دیکھ کر بےساختہ اس کے منہ سے نکل جائے گا۔ کہ رب کی قسم تجھ سے بہتر جنت میں کوئی چیز نہیں نہ میری محبت کسی سے تجھ سے زیادہ ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا جنت سے تجھ سے زیادہ ہے، حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ کیا جنت میں جنتی لوگ جماع بھی کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے خوب اچھی طرح بہترین طریق پر جب الگ ہوگا وہ اسی وقت پھر پاک صاف اچھوتی باکرہ بن جائے گی۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں مومن کو جنت میں اتنی اتنی عورتوں کے پاس جانے کی قوت عطا کی جائے گی، حضرت انس نے پوچھا حضور ﷺ کیا اتنی طاقت رکھے گا ؟ آپ نے فرمایا ایک سو آدمیوں کے برابر اسے قوت ملے گی، طبرانی کی حدیث میں ہے ایک ایک سو کنواریوں کے پاس ایک ایک دن میں ہو آئے گا۔ حافظ عبداللہ مقدسی فرماتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث شرط صحیح پر ہے واللہ اعلم۔ ابن عباس عربا کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہ اپنے خاوندوں کی محبوبہ ہوں گی، یہ اپنے خاوندوں کی عاشق اور خاوند ان کے عاشق۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ اس کا معنی ناز و کرشمہ والی ہے اور سند سے مروی ہے کہ معنی نزاکت والی ہے، تمیم بن حدلم کہتے ہیں عربا اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے خاوند کا دل مٹھی میں رکھے۔ زید بن اسلم وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد خوش کلام ہے اپنی باتوں سے اپنے خاوندوں کا دل مول لیتی ہیں جب کچھ بولیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پھول جھڑتے ہیں اور نور برستا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ انہیں عرب اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی بول چال عربی زبان میں ہوگی۔ اتراب کے معنی ہیں ہم عمر عینی تینتیس برس کی اور معنی ہیں کہ خاوند کی اور ان کی طبیعت اور خلق بالکل یکساں ہے جس سے وہ خوش یہ خوش جو اسے ناپسند اسے بھی ناپسند۔ ، یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ آپس میں ان میں بیر بغض سوتیا ڈاہ حسد اور رشک نہ ہوگا۔ یہ سب آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی تاکہ بےتکلف ایک دوسری سے ملیں جلیں کھیلیں کو دیں، ترمذی کی حدیث میں ہے کہ یہ جنتی حوریں ایک روح افزا باغ میں جمع ہو کر نہایت پیارے گلے سے گانا گائیں گی کہ ایسی سریلی اور رسیلی آواز مخلوق نے کبھی نہ سنی ہوگی، ان کا گانا وہی ہوگا جو اوپر بیان ہوا ابو یعلی میں ہے ان کے گانے میں یہ بھی ہوگا (نحن خیرات حسان)۔ (خبئنا لازواج کرام) ہم پاک صاف خوش وضع خوبصورت عورتیں ہیں جو بزرگ اور ذی عزت شوہروں کے لئے چھپا کر رکھی گئی تھیں اور روایت میں خیرات کے بدلے جوار کا لفظ آیا ہے۔ پھر فرمایا یہ اصحاب یمین کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور انہی کے لئے محفوظ و مصؤن رکھی گئی تھیں۔ لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ یہ متعلق ہے آیت (اِنَّآ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَاۗءً 35 ۙ) 56۔ الواقعة :35) ، کے یعنی ہم نے انہیں ان کے لئے بنایا ہے۔ حضرت ابو سلیمان دارانی رحمتۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے ایک رات تہجد کی نماز کے بعد دعا مانگنی شروع کی، چونکہ سخت سردی تھی، بڑے زور کا پالا پڑھ رہا تھا، ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے تھے اس لئے میں نے ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگی اور اسی حالت میں دعا مانگتے مانگتے مجھے نیند آگئی خواب میں میں نے ایک حور کو دیکھا کہ اس جیسی خوبصورت نورانی شکل کبھی میری نگاہ سے نہیں گزری اس نے مجھ سے کہا اے ابو سلیمان ایک ہی ہاتھ سے دعا مانگنے لگے اور یہ خیال نہیں کہ پانچ سو سال سے اللہ تعالیٰ مجھے تمہارے لئے اپنی خاص نعمتوں میں پرورش کر رہا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لام متعلق اتراباً کے ہو یعنی ان کی ہم عمر ہوں گی جیسے کہ بخاری مسلم وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی ان کے چہرے چودہویں رات جیسے روشن ہوں گے ان کے بعد والی جماعت کے بہت چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے یہ پاخانے پیشاب تھوک رینٹ سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی ان کے پسینے مشک کی خوشبو والے ہوں گے ان کی انگیٹھیاں لؤلؤ کی ہوں گی ان کی بیویاں حور عین ہوں گی ان سب کے اخلاق مثل ایک ہی شخص کے ہوں گے، یہ سب اپنے باپ حضرت آدم ؑ کی شکل پر ساٹھ ہاتھ کے لانبے قد کے ہوں گے۔ طبرانی میں ہے اہل جنت بےبال اور بےریش گورے رنگ والے خوش خلق اور خوبصورت سرمگیں آنکھوں والے تینتیس برس کی عمر کے سات ہاتھ لانبے اور سات ہاتھ چوڑے چکلے مضبوط بدن والے ہوں گے۔ اس کا کچھ حصہ ترمذی میں بھی مروی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ گو کسی عمر میں انتقال ہوا ہو دخول جنت کے وقت تینتیس سالہ عمر کے ہوں گے اور اسی عمر میں ہمیشہ رہیں گے، اسی طرح جہنمی بھی (ترمذی) اور روایت میں ہے کہ ان کے قد سات ہاتھ فرشتے کے ہاتھ کے اعتبار سے ہوں گے قد آدم حسن یوسف عمر عیسیٰ یعنی تینتیس سال اور زبان محمد ﷺ یعنی عربی والے ہوں گے، بےبال اور سرمگیں آنکھوں والے (ابن ابی الدنیا) اور روایت میں ہے کہ دخول جنت کے ساتھ ہی انہیں ایک جنتی درخت کے پاس لایا جائے گا اور وہاں انہیں کپڑے پہنائے جائیں گے ان کے کپڑے نہ گلیں نہ سڑیں نہ پرانے ہوں نہ میلے ہوں ان کی جوانی نہ ڈھلے نہ جائے نہ فنا ہو۔ اصحاب یمین گزشتہ امتوں میں سے بھی بہت ہیں اور پچھلوں میں سے بھی بہت ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے حضور ﷺ نے اپنے صحابہ سے بیان فرمایا میرے سامنے انبیاء مع اپنے تابعدار امتیوں کے پیش ہوئے بعض نبی گذرتے تھے اور بعض نبی کے ساتھ ایک جماعت ہوتی تھی اور بعض نبی کے ساتھ صرف تین آدمی ہوتے تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی تھا راوی حدیث حضرت قتادہ نے اتنا بیان فرمایا کہ یہ آیت پڑھی (اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78) 11۔ ھود :78) کیا تم میں سے ایک بھی رشد و سمجھ والا نہیں ؟ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ بن عمران ؑ گذرے جو بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت ساتھ لئے ہوئے تھے، میں نے پوچھا پروردگار یہ کون ہیں ؟ جواب ملا یہ تمہارے بھائی موسیٰ بن عمران ہیں اور ان کے ساتھ ان کی تابعداری کرنے والی امت ہے میں نے پوچھا الٰہی پھر میری امت کہاں ہے ؟ فرمایا اپنی داہنی جانب نیچے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت نظر آئی لوگوں کے بکثرت چہرے دمک رہے تھے، پھر مجھ سے پوچھا کہو اب تو خوش ہو میں نے کہا ہاں الٰہی میں خوش ہوں، مجھ سے فرمایا اب اپنی بائیں جانب کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا وہ وہاں بیشمار لوگ تھے پھر مجھ سے پوچھا اب تو راضی ہوگئے ؟ میں نے کہا ہاں میرے رب میں راضی ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور سنو ان کے ساتھ ستر ہزار اور لوگ ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے یہ سن کر حضرت عکاشہ ؓ کھڑے ہوگئے، یہ قبیلہ بنو اسد سے محصن کے لڑکے تھے بدر کی لڑائی میں موجود تھے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہی میں سے کرے آپ نے دعا کی پھر ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول میرے لئے بھی دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا عکاشہ تجھ پر سبقت کر گئے، پھر آپ نے فرمایا لوگوں تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں اگر تم سے ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے بنو جو بےحساب جنت میں جائیں گے، ورنہ کم سے کم دائیں جانب والوں میں سے ہوجاؤ گے، یہ بھی نہ ہو سکے تو کنارے والوں میں سے بن جاؤ۔ میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ اپنے حال میں ہی لٹک جاتے ہیں۔ پھر فرمایا مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی چوتھائی تعداد صرف تمہاری ہی ہوگی۔ پس ہم نے تکبیر کہی پھر فرمایا بلکہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت کی تہائی والے ہوگے، ہم نے پھر تکبیر کہی۔ فرمایا اور سنو ! تم آدھوں آدھ اہل جنت کے ہوگے ہم نے پھر تکبیر کہی اس کے بعد حضور ﷺ نے اسی آیت (ثُـلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 13 ۙ) 56۔ الواقعة :13) کی تلاوت کی۔ اب ہم میں آپس میں مذاکرہ شروع ہوگیا کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے، پھر ہم نے کہا وہ لوگ جو اسلام میں پیدا ہوئے اور شرک کیا ہی نہیں حضور ﷺ نے فرمایا بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے اور جھاڑ پھونک نہیں کرواتے اور فال نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ یہ حدیث بہت سی سندوں سے صحابہ کی روایت سے بہت سی کتابوں میں صحت کے ساتھ مروی ہے۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس آیت میں پہلوں پچھلوں سے مراد میری امت کے اگلے پچھلے ہی ہیں۔
Top