Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ
: اور
مَا تَاْتِيْهِمْ
: ان کے پاس نہیں آئی
مِّنْ
: سے۔ کوئی
اٰيَةٍ
: نشانی
مِّنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
رَبِّهِمْ
: ان کا رب
اِلَّا
: مگر
كَانُوْا
: وہ ہوتے ہیں
عَنْهَا
: اس سے
مُعْرِضِيْنَ
: منہ پھیرنے والے
’ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔
(آیت) ” نمبر 4 تا 6۔ ان لوگوں نے عناد اور باطل پہ اصرار کرنے کے موقف کو اپنایا ‘ حالانکہ ایسے دلائل اور نشانیوں کی کمی نہ تھی جن کو دیکھ کر وہ ایمان لاتے اور نہ ایسے دلائل اور نشانات کی کمی تھی جن سے معلوم ہوتا کہ پیغمبروں کی دعوت نہایت ہی سچی دعوت ہے ‘ نہ یہ بات تھی کہ اس دعوت اور داعی کی سچائی پہ دلائل کی کوئی کمی تھی ۔ وجود باری پر دلائل وبراہین بھی موجود تھے ۔ غرض ان چیزوں کی ان کے ہاں کوئی کمی نہ تھی بلکہ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ وہ مان کر نہ دیتے تھے ۔ وہ باطل پر مصر تھے ‘ تحریک سے عناد رکھتے تھے اور اس روگردانی کی وجہ ان کے لئے اس دین اور تحریک میں غور وفکر کرنے کے مواقع جاتے رہے ۔ (آیت) ” وَمَا تَأْتِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ مِّنْ آیَاتِ رَبِّہِمْ إِلاَّ کَانُواْ عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ (4) ” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ “ جب صورت حالات یہ ہوجائے کہ لوگ جان بوجھ کر حق سے روگردانی اختیار کریں ‘ جب کہ ان کے پاس آیات و دلائل موجود ہوں ‘ حقائق ان پر روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہوں تو پھر بعض اوقات ڈر اوا اور تہدید ان کی آنکھیں کھول دیتی ہے ۔ ایک جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی ہے اور فطرت کے دریچے کھل جاتے ہیں ‘ بشرطیکہ غرور اور عناد کے پردے حائل نہ ہوں ۔ (آیت) ” فَقَدْ کَذَّبُواْ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُمْ فَسَوْفَ یَأْتِیْہِمْ أَنبَاء مَا کَانُواْ بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ (5) ” چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ “ زمین وآسمانوں کے خالق کی طرف سے جو ہدایت آئی وہ سچائی تھی ۔ روشنی اور تاریکی پیدا کرنے والے کی طرف سے سچائی تھی ‘ جس نے انسان کو کیچڑ سے پیدا کیا ۔ جو آسمانوں کا بھی حاکم ہے اور زمین کا بھی حاکم ہے جو ان کے کھلے اور پوشیدہ سب امور سے واقف ہے ۔ وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں ان سے واقف ہے ۔ وہ سچائی ہے اور انہوں نے سچائی کو جھٹلایا ہے ۔ اب وہ اس تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں ‘ آیات الہی سے روگردانی کرتے ہیں ‘ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ لہذا انہیں چاہئے کہ وہ اب اس بات کے انجام اور آخری خبر کا انتظار کریں۔ اب یہ ایک نہایت ہی اجمالی تہدید اور ڈراوا ہے جس کی نہ تفصیلات دی گئی ہیں اور نہ اس انجام بد کا کوئی وقت مقرر کیا گیا ہے ۔ انہیں صرف یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اس انجام کا انتظار کریں ۔ ان پر عذاب الہی کس بھی وقت آسکتا ہے ۔ ان پر سچائی کھل جائے گی اور وہ اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے ۔ اس تہدید اور ڈراوے کے مقام پر انہیں یاد دلایا جاتا ہے ‘ انہیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ ذرا پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں اور ذرا نگاہ ڈالیں کہ انسانی تاریخ میں جھٹلانے والوں کا انجام کیا رہا ہے ؟ ان میں سے بعض لوگوں کے انجام سے وہ واقف بھی تھے ۔ احقاف میں قوم عاد کا جو انجام ہوا اور حجر میں قوم ثمود کا جو انجام ہوا ‘ اس کی داستانیں ان کے ہاں مشہور تھیں ۔ جب عرب گرمیوں میں شمال کی طرف جاتے اور سردیوں میں جنوب کی طرف سفر کرتے تو ان اقوام کے کھنڈرات کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ۔ قوم لوط پر جہاں تباہی آئی وہ مقامات بھی انہیں معلوم تھے اور ان کے اردگرد رہنے والے لوگ ان مقامات سے واقف تھے لہذا یہاں ان کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے ۔ (آیت) ” أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْنَ (6) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ “ کیا یہ لوگ گزری ہوئی اقوام کے انجام بد سے عبرت نہیں لیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو اس کرہ ارض پر بہت ہی بڑا قتدار عطا کیا تھا ۔ انہیں قوت اور سلطنت کے اسباب فراہم کئے تھے ۔ اور وہ اس قدر ترقی یافتہ اور قوی تھی کہ قرآن کے مخاطبین اہل قریش اور ان کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہ تھی ان پر پے در پے بارشیں ہوتی تھیں ‘ ان کی سرزمین تروتازہ تھی اور ہر قسم کی پیداوار کی فراوانی تھی ۔ پھر کیا ہوا ؟ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی شروع کردی ۔ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑا ۔ ان کو تباہ کر کے ان کی جگہ دوسری اقوام کو منصہ شہود پر لایا گیا اور زمین کا اقتدار ان کے حوالے کردیا گیا ۔ اس زمین نے جانے والوں پر کوئی ماتم نہ کیا اس لئے کہ زمین کے وارث اب دوسرے لوگ تھے ۔ ذرادیکھئے کہ ان مکذبین اور روگردانی کرنے والوں کی حیثیت ہی کیا رہی ہے ۔ اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں اور اس زمین پر وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ وہ ہلاک کردیئے گئے ‘ نیست ونابود ہوگئے اور اس زمین کو کوئی احساس ہی نہ ہوا ۔ اور نہ یہ زمین خالی رہ گئی ‘ اس خلا کو دوسری اقوام نے پر کردیا اور یہ زمین اس طرح گردش کرتی رہی کہ گویا یہ مٹنے والی اقوام کبھی اس پر بسی ہی نہ تھیں اور زندگی اس طرح چلتی رہی کہ گویا سابقہ لوگ کبھی زندہ ہی نہ تھے ۔ جب اللہ کسی کو اس کرہ ارض پر تمکن عطا کرتا ہے تو صاحبان اقتدار سب سے پہلے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ یہ اقتدار انہیں اللہ کی مرضی سے نصیب ہوا ہے اور یہ ان کے لئے ایک بڑی آزمائش ہے ۔ آزمائش یہ کہ آیا وہ اس اقتدار کو اللہ کے عہد اور شرط کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور اس میں وہ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اسی سے ہدایات لیتے ہیں اس لئے کہ وہی تو اس اقتدار کا اصل مالک ہے اور انسان تو اس کا خلیفہ ہے یا وہ اپنے آپ کو طاغوت کا منصب دیتے ہیں اور اپنے لئے اللہ کے اختیارات حاصل کرتے ہیں اور وہ ان اختیارات کو بطور خلیفہ استعمال نہیں کرتے بلکہ بطور مالک خود مختار استعمال کرتے ہیں ۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے انسان بھول جاتے ہیں ‘ الا یہ کہ کوئی اللہ کی جانب سے محفوظ کردیا گیا ہو ۔ جب انسان اس حقیقت کو بھول جائیں تو وہ اللہ کے عہد اور اس کے خلیفہ فی الارض ہونے کی شرائط سے صرف نظر کرنے لگتے ہیں اور سنت الہیہ کے خلاف جاتے ہیں ۔ پہلے پہل انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اس انحراف کے نتائج کیا ہوں گے ‘ چناچہ ان کے اندر آہستہ آہستہ فساد رونما ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ انہیں اس کا شعور بالکل نہیں ہوتا ‘ یہاں تک کہ وقت مقررہ تک وہ پہنچ جاتے ہیں اور اللہ کا وعدہ آجاتا ہے ۔ ان کے انجام پھر مختلف ہوتے ہیں ‘ بعض اوقات ان پر ایسا عذاب آتا ہے کہ انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہ عذاب کبھی آسمان سے آتا ہے اور کبھی نیچے زمین سے آتا ہے ۔ دنیا کی کئی اقوام کو اس عذاب کے ذریعے تباہ کیا گیا اور بعض اوقات یہ عذاب قحط سالی اور خشک سالی کی صورت میں آتا ہے ۔ پھل اور پیداوار ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں ۔ کئی اقوام عالم اس عذاب سے دو چار ہوئیں ۔ بعض اوقات وہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کے لئے عذاب بن جاتا ہے بعض دوسروں کو مبتلائے عذاب کرتے ہیں ‘ بعض اقوام دوسروں کو نیست ونابود کردیتی ہیں ۔ بعض دوسروں کو اذیت دیتی ہیں اور کئی دوسروں کو امن نہیں دیتے ۔ اس طرح انکی قوت اور شوکت ختم ہوجاتی ہے ‘ اور اللہ ان پر پھر اپنے دوسرے بندوں کو مسلط کردیتا ہے جو یا تو اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اور یا نافرمان ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی قوت کو توڑ کر انہیں اس اقتدار اعلی سے محروم کردیتے ہیں جس پر ان کو متمکن کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد اللہ کچھ نئے لوگوں کو تمکین فی الارض عطا کرتا ہے تاکہ اب ان کی آزمائش کا دور شروع ہو ۔ یوں سنت الہیہ کا دور چلتا ہے اور دنیا میں نیک بخت اقوام وہ ہوتی ہیں جو سنت الہیہ کا ادراک رکھتی ہیں ۔ جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک آزمائش ہے ۔ وہ اللہ کے عہد کا پاس رکھتی ہیں ۔ بدبخت اقوام دہ ہوتی جو اس حقیقت سے غافل ہوتی ہیں اور یہ گمان کرنے لگتی ہیں کہ یہ اقتدار انہیں خود ان کے علم و کمال کی وجہ سے ملا ہے یا کسی حیلے اور تدبیر سے ملا یا اتفاقا بغیر کسی منصوبے کے انہیں مل گیا ہے ۔ لوگوں کو یہ امر دھوکے میں ڈالتا ہے کہ وہ ایک باغی و سرکش ‘ ایک بدکار اور مفسد اور ایک ملحد اور کافر کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کرہ ارض پر مقتدر اعلی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے کوئی مواخذہ نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ مایوس ہوجاتے ہیں ‘ لیکن ایسے لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہیں ۔ وہ راستہ کا ابتدائی حصہ دیکھتے ہیں ‘ درمیانی حصہ بھی دیکھتے ہیں لیکن ان کی جب ایسے سرکشوں پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو وہ نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور انکے بارے میں محض قصے اور کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں ‘ تب حقیقت نظر آتی ہے ۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے ہونے والے انجام کے کچھ مظاہر پیش کرتا ہے تاکہ ایسے غافل سرکشوں کو ہوش آجائے ‘ کیونکہ ایسے لوگ اپنے انفرادی حالات میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ انہیں منزل مقصود اور اپنا آخری انجام نظر نہیں آتا ۔ یہ لوگ بس اس مختصر زندگی کو دیکھ سکتے ہیں اور اسے ہی آخری منزل سمجھتے ہیں ۔ قرآن کریم کی یہ آیت (فاھلکنھم بذنوبھم (6 : 6) اور اس جیسی دوسری آیات بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ ایسی آیات میں اللہ کی ایک ناقابل تبدیل سنت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور ان میں اسلام کے نظریہ تاریخ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ سنت الہیہ یہ ہے کہ بدکار لوگوں کو آخر کار ان کی اس بدکاری کی وجہ سے ہلاک اور برباد کردیا جاتا ہے ۔ ان پر یہ ہلاکت اور بربادی اللہ کی جانب سے آتی ہے اور یہ سنت اس کائنات میں ہمیشہ کے لئے جاری وساری ہے ۔ اگرچہ ایک فرد اپنی مختصر زندگی میں اسے نہ سمجھ سکے ۔ یا ایک محدود اور متعین نسل کی زندگی میں یہ ہلاکت نہ آئے ۔ لیکن یہ ایک ایسی سنت الہیہ ہے کہ جب کسی قوم میں جرائم اور بدکاریاں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں اور پوری زندگی کا نظام بدکاری اور جرائم پر قائم ہو ‘ تو پھر اللہ کی جانب سے عذاب ضرور آتا ہے ۔ اسلام کا نظریہ تاریخ یہ ہے کہ اقوام کے عروج وزوال میں اصل اور موثر عالم (FActor) یہ ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں جب بدکاری اور جرائم سرایت کر جاتی ہیں تو یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ یہ تباہی یا تو آفات سماویہ کے ذریعے سے ہوتی ہے جیسا کہ قدیم تاریخ میں یہ واقعات رونما ہوئے یا نہایت ہی تدریجی تباہی کے ذریعے طبعی طور پر ‘ جس طرح کسی جسم پر عارضی طور پر زوال آتا ہے جب وہ بدکاری اور جرائم میں کانوں تک ڈوب جاتے ۔ انسان کی جدید تاریخ میں ہمارے سامنے اس زوال کی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں اقوام پر اخلاقی بےراہ روی ‘ بدکرداری اور فحاشی ‘ عیاشی اور اسراف اور لہو ولعب کی وجہ سے تباہی آئی ۔ مثلا یونان کی تباہی کے یہی عوامل تھے ۔ اس کے بعد رومیوں کی تباہی اور زوال کے یہی اسباب تھے ۔ یہ اقوام اپنے عروج کے باوجود اس طرح مٹ گئیں کہ اب انکے صرف قصے کہانیاں ہی رہ گئیں ۔ جدید ترقی یافتہ اقوام کے اندر بھی اس عظیم تباہی اور زوال کے اسباب نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں مثلا فرانس اور برطانیہ کا زوال شروع ہوچکا ہے حالانکہ مادی جنگی اور تکنیکی قوت کے اعتبار سے وہ عروج پر ہیں اور نہایت ہی ترقی یافتہ اور دولتمند ہیں ۔ تاریخ کی مادی تفسیر لکھنے والوں اور اقوام کے عروج وزوال کی داستانیں لکھنے والوں کی نظر سے تاریخ کا یہ اخلاقی پہلو غائب ہے ‘ اس لئے کہ مادی نقطہ نظر رکھنے والے کی گناہوں سے شروع ہی سے اخلاقی عناصر اوجھل رہتے ہیں ۔ اصل الاصول یعنی سنت الہیہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے ۔ جو لوگ تاریخ کی تفسیر اور اس پر تبصرہ صرف مادی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اور اقوام کے عروج وزوال کے سلسے میں نہایت ہی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ اقوام کے عروج وزوال کے بعد واقعات کی معقول تفسیر صرف اعتقادی اور اخلاقی زاوے ہی سے کی جاسکتی ہے ۔ اسلام کا تاریخی نقطہ نظر نہایت جامع ‘ حقیقت پسندانہ اور سچا ہے اور وہ اپنی اس جامعیت کی وجہ سے مادی عنصر کو اسلامی نقطہ نظر کا تعلق ہے ‘ وہ زوال اقوام میں مادی زوال کو بھی اہمیت دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ تاہم اسلام دوسرے عوامل کو بھی لیتا ہے جن کا انکار صرف معاندین ہی کرتے ہیں ۔ اسلام نے سب سے پہلے اللہ کی سنت اور اللہ کی تقدیر کو اصل عامل قرار دیتا ہے ۔ پھر انسان کے داخلی شعور ‘ جذبات اور تصورات اور نظریات کو اس کا سبب قرار دیتا ہے ۔ اس کے بعد اسلام لوگوں کی عام اخلاقی اور عملی زندگی کو بھی اس میں اہمیت دیتا ہے اور وہ ان اسباب وعلل میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کرتا جو کسی قوم کے عروج وزوال کا سبب بنتی ہیں۔ (تفیصلات کے لئے دیکھئے الا سلام ومشکلات الحضارۃ ۔ النطور والنبات فی حیات البیرہ ۔ خصائص التصور الاسلامی وھو مائہ التصویر الفنی فی القرآن) اب اگلی آیات میں ان لوگوں کے اس عناد کی تصویر کشی کی جاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوتی ہے ۔ اس تصویر کشی میں انسانوں کی ایک عجیب قسم پیش کی جاتی ہے ۔ انسانوں کی یہ قسم صرف ماضی یا کسی ایک زمانے تک محدود نہیں ہے ‘ اس قسم کے لوگ تاریخ میں بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ ہر زمانے میں ہر جگہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ہر نسل اور ہر خاندان میں نمونے موجود ہوتے ہیں ۔ یہ ہٹ دھرم قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سچائی ان کی آنکھوں کو پھاڑتی ہے لیکن یہ اسے دیکھ نہیں پاتے ۔ یہ لوگ ایسے امور کا بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے امور جو اس قدر واضح ہوتے ہیں کہ ان کے انکار کی وجہ سے منکر کو کم از کم شرم آتی ہے ۔ قرآن کریم اس قسم کے نمونے کا بڑی وضاحت سے ذکر کرتا ہے ۔ مختصر کلمات میں عجیب انداز میں جو انوکھا بھی ہے اور معجزانہ بھی ہے جس طرح قرآن کریم کا انداز تعبیر بالعموم اعجاز کا حامل ہوتا ہے ۔
Top