Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
نہیں اے محمد ﷺ تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔
(آیت) ” فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما “۔ (4 : 65) ” نہیں اے محمد ﷺ تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔ “ ایک بار پھر ہم شرط ایمان کے سامنے کھڑے ہیں ‘ ایمان کی حدود ہمارے سامنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فیصلہ فرماتے ہیں اور اس فیصلے پر اپنی ذات پاک کا حلف اٹھاتے ہیں ‘ اس کے بعد اب کسی کے لئے کالم کی کیا گنجائش رہ جاتی ہیں ۔ اسلام کی شرط اور ایمان کی حدود کی نشاندہی کردی جاتی ہے ۔ اور اس کے جن الفاظ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے ان میں کسی قسم کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی خواہ مخواہ جھگڑا کرے تو اور بات ہے ۔ اس کی بات میں کوئی وزن نہ ہوگا اور وہ بات یہ ہو سکتی ہے کہ یہ حکم حضور ﷺ کے زمانے کے لئے تھا ۔ اور صرف صحابہ کرام ؓ اجمعین کے لئے تھا ۔۔۔۔۔ اگر کوئی یہ تاویل کرتا ہے تو معلوم ہوگا کہ اس شخص کو اسلام کا کوئی پتہ نہیں ہے اور وہ قرآن کے انداز کلام سے واقف نہیں ہے ‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے ۔ جسے حلفیہ بیان کے ساتھ بتاکید مزید لایا گیا ہے ‘ جس کے اندر زمان ومکان کی کوئی تحدید نہیں ہے ۔ نہ اس واہمہ کے لئے کوئی گنجائش ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں سے مراد آپ کی شریعت کے فیصلے ہیں ۔ اگر یہی مفہوم لے لیا جائے تو حضور ﷺ کے بعد آپ کی سنت اور آپ کی شریعت کا کوئی مقام نہ رہے گا ۔ اور یہ قول تو ان لوگوں کا تھا جو عہد ابوبکر ؓ میں مرتد ہوگئے تھے ۔ اور حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے اس طرح جہاد کیا جس طرح مرتدین سے کیا جاتا ہے ۔ بلکہ ان کے ساتھ مرتدین سے بھی سخت رویہ اختیار کیا گیا اس لئے کہ انہوں نے صرف زکوۃ کے معاملے میں انکار کیا تھا اور آپ کی وفات کے بعد زکوۃ کی ادائیگی بند کردی تھی ۔ اگر اسلام کے لئے یہ کافی ہے کہ لوگ اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرائیں تو ایمان کے لئے اس سے بھی زیادہ شرائط ہیں مثلا یہ کہ وہ ان فیصلوں پر دل سے راضی ہوں اور دل سے انہیں قبول کریں اور خوشی اور اطمینان سے ان پر راضی ہوں۔ یہ ہے اسلام اور یہ ہے ایمان ۔ ہر کسی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اسلام سے کس قدر دور ہے اور اس کے ایمان کا کیا حال ہے اور اس کے بعد وہ اسلام اور ایمان کا دعوی کرے ۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے فیصلے کرانے ‘ اور پھر آپ جو فیصلہ فرمائیں اس کو بطیب خاطر قبول کرنے کے بعد اب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام جس کی طرف تمہیں دعوت دی جا رہی ہے ‘ اور یہ شریعت جس کے مطابق تمہیں اپنے فیصلے کرانے کا حکم دیا جاتا ہے (اور اس کے سوا کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کی اجازت نہیں ہے) اور یہ فیصلے جس پر راضی برضا ہونا ضروری ہے ‘ یہ نظام دراصل نہایت ہی آسان ‘ سیدھا اور منصفانہ اور رحیمانہ نظام ہے ۔ یہ نظام تمہیں تمہاری طاقت سے زیادہ کسی چیز کا حکم نہیں دیتا ‘ اور نہ تم پر کوئی ایسی مصیبت لاتا ہے جو تمہارے لئے ناقابل برداشت ہو ‘ اور نہ تم سے کسی ایسی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جو تم سے نہ دی جاسکے ۔ اس لئے کہ انسان کی ضعیفی اللہ کی نظر میں ہے ۔ وہ ان کی کمزوری کی وجہ سے ان پر بہت ہی رحم فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ اگر انسانوں پر بھاری فرائض عائد کئے گئے تو وہ انہیں ادا نہ کرسکیں گے ۔ اس لئے اللہ نے یہ ارادہ ہی نہیں کیا کہ انسانوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے اور نہ اللہ کا ارادہ تھا کہ لوگ معصیت کا ارتکاب کریں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھاری احکام ان پر فرض ہی نہیں کئے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ لوگ معصیت پر اتر آئیں ۔ اگر لوگ ان آسان فرائض پر عمل پیرا ہوتے جو اللہ نے ان پر فرض کئے تھے ‘ اور اس نصیحت سے فائدہ اٹھاتے جو اللہ تعالیٰ ان کے لئے نازل کر رہے ہیں تو وہ دنیا اور آخرت دونوں میں عظیم بھلائی جمع کرلیتے ۔ اللہ تعالیٰ راہ ہدایت پر آنے میں ان کی امداد فرماتے ‘ اور یہ اللہ کی سنت ہے کہ جو شخص بھی اپنے عمل ‘ ارادہ اور عزم بالجزم سے اللہ کی راہ میں سعی کرے اپنی طاقت کے حدود کے اندر ‘ تو اللہ اس کی پوری پوری معاونت کرتا ہے ۔
Top