Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 27
وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا : اور تحقیق ہم نے بیان کی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے فِيْ : میں ھٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن مِنْ كُلِّ : ہر قسم کی مَثَلٍ : مثال لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں آئیں ۔
آیت نمبر 27 تا 29 اللہ تعالیٰ کسی ایسے بندے کی جو موحد ہے اور کسی ایسے بندے کی جو مشرک ہے ، یہ مثال دیتا ہے کہ ان کی مثال ہے جیسے ایک غلام ایک شخص کی خالص ملکیت ہو اور دوسرا کئی مختلف الحیال مالکان کے درمیان مشترکہ ہو۔ اس مشترکہ غلام میں مختلف مالکان کے علیحدہ علیحدہ مطالبے ہیں۔ اور یہ بیچارہ انکے درمیان حیران وپریشان ہے۔ کوئی ادھر کھینچتا ہے ، کوئی ادھر۔ وہ اسے کوئی ایک پروگرام نہیں دیتے اور اس بیچارے کی یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ انکی متضاد فرمائشیں شروع کرسکے کیونکہ وہ اسکے رخ کو بھی تبدیل کررہی ہیں۔ اور اسکی خواہشات کو بھی تبدیل کررہی ہیں۔ اور ایک ایک کا غلام یکسو ہے۔ اس کو مالک نے ایک پروگرام دیا ہوا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اسنے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک آقا کا غلام مطمئن ، خوش اور یکسو ہوگا۔ ھل یستویٰن مثلا (39: 29) ” کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے “۔ یقیناً دونوں برابر نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس کا ایک آقا ہے وہ آدم ، استراحت ، استقامت اور یقینی پروگرام رکھتا ہے۔ اس کی قوتیں مجتمع ہیں۔ اس کا رخ متعین ہے ۔ اس کی راہ متعین ہے اور جس غلام کے مختلف الحیال آقا ہیں۔ وہ ایک دائمی عذاب میں ہے۔ ایک دائمی کشاکش میں ہے۔ اور ہر وقت قلق وبے چینی میں مبتلا ہے۔ کسی ایک حال پر برقرار نہیں ہے۔ اور اس سے ایک مالک بھی راضی نہ ہوگا ، سب کا راضی ہونا تو محال ہے۔ یہ مثال حقیقت توحید اور حقیقت شرک پر تمام حالات میں منطبق ہے۔ ایک موحدو مومن اس زمین پر اپنا سفر نہایت ہی سیدھے راہ پر علی وجہ البصیرت طے کرتا ہے۔ کیونکہ ان کی نظریں ہمشہ ایک نصب العین پر مرکوز ہیں۔ پوری زندگی ، پوری قوت اور تمام ضروریات اور تمام نفع ونقصان وہ ایک جہت سے طلب کرتا ہے۔ ایک ذات ہے جو اسے روکتی ہے اور ایک ہی ذات ہے جو اسے اجازت دیتی ہے۔ لہٰذا اس کے قدم سیدھے اس ایک سرچشمے کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ اسی سرچشمے سے اخذ کرتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں ایک ہی مضبوط رسی ہے جسے اس کے مضبوطی سے پکڑا رکھا ہے ، ایک ہی ہدف ہے جس پر وہ نظریں جمائے ہوئے ہے۔ ایک ہی آقا کی وہ خدمت کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ میرا آقا کس بات پر راضی ہوتا ہے اور کس پر نازاض ہوتا ہے۔ یوں اس کی قوتیں مجتمع ہوتی ہیں اور یوں وہ پوری قوت کے ساتھ زمین پر کام کرتا ہے۔ اور آسمان پر نظریں جمائے ہوتا ہے۔ اور اس مثال پر تبصرہ الحمدللہ سے کیا جاتا ہے کہ اس نے عقیدۂ توحید کے ذریعے اپنے بندوں کو آرام و اطمینان اور راحت بخشی ہے۔ اور ان کی زندگی کو اثبات وقرار عطا کیا۔ اب اگر وہ اس سے انحراف کرتے ہیں تو وہ لاعلم ہیں۔ یہ ان مثالوں میں ایک ہے جو قرآن نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے دی ہیں تاکہ لوگ حقیقت کو جان سکیں۔ یہ قرآن عربی ہے ، سیدھا ، واضح اور بین ہے۔ اس کے معانی میں کوئی التباس نہیں۔ نہ پیچیدگی اور انحراف ہے اور یہ عوام الناس کو ایک فطری استدلال سے خطاب کرتا ہے ، جو ان کی سمجھ میں آتا ہے۔
Top