Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 98
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
ذٰلِكَ : یہ جَزَآؤُهُمْ : ان کی سزا بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کا وَقَالُوْٓا : اور انہوں نے کہا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوجائیں گے ہم عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم لَمَبْعُوْثُوْنَ : ضرور اٹھائے جائیں گے خَلْقًا : پیدا کر کے جَدِيْدًا : از سر نو
: یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا ” کیا ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اٹھا کر کھڑا کیا جائے گا ؟
ذلک جزا اوھم بانھم کفروا بایتنا (71 : 89) ” یہ بدلہ ہے ان کی اس حرکت کا کہ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا “۔ انہوں نے بعث بعد الموت کا انکار کیا۔ اور وقوع قیامت کو مستبعد سمجھتا۔ وقالواء ………جدیدا (71 : 89) ” اور کہا کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اتھا کر کھڑا کیا جائے گا “۔ سیاق کلام میں اس منظر کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا وہ آج موجود ہے۔ اور وہ دنیا جس میں وہ رہ رہے تھے اسے گویا لپیٹ لیا گیا ہے اور وہ ماضی بعید بن گئی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ مستقبل کے واقعات کو نہایت ہی مجسم شکل میں پیش کرتا ہے اور منظر یوں نظر آتا ہے کہ گویا وہ ایک زندہ واقعہ ہے اس طرح واقعات کا اثر دلوں پر بہت ہی گہرا ہوتا ہے۔ اور انسانی شعور پر یہ واقعات اپنا پورا اثر التے ہیں۔ اب قرآن مجید حقیقی صورت حالت ان کے سامنے رکھتا ہے اور انداز سخن بھی واقعی بن جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حقیقت کو دیکھ رہے ہو مگر غفلت سے کام لے رہے ہو۔
Top