Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے ، مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا
وتنزل من القران ما ھو شفاء ورحمۃ للمومنین (71 : 28) ” ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے “۔ یقینا قرآن میں شفاء ہے۔ یقینا قرآن میں رحمت الٰہی کے خزانے میں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں ایمان کی تازگی داخل ہوچکی ہو ، ان کے دل روشن ہوچکے ہوں اور وہ قبولیت حق کے لئے کھل گئے ہیں اور وہ روح قرآن کو اپنے اندر جذب کر رہے ہوں اور ان کے دلوں میں سکون اور سکینت اور طمانیت داخل ہوچکی ہو۔ قرآن کریم تمام وسوسوں ، تمام حیرانیوں ، اور تمام بےچینیوں کی دوا ہے ور اس میں ان روحانی بیماریوں کی شفاء ہے۔ یہ بندے کے دل کو اللہ سے جوڑتا ہے۔ یوں اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ملتا ہے کہ وہ اللہ کی حمایت میں ہے اور حالت امن و سلامتی میں ہے۔ اس طرح وہ اللہ سے راضی ہو کر راضی رہتا ہے۔ زندگی خوشی سے گزارتا ہے اور زندگی کے جو حالات بھی ہوں ان میں راضی رہت ا ہے۔ بےچینی بھی ایک قسم کا مرض ہے ، حیرانی بھی ایک مرض ہے۔ وسوسہ بھی ایک بیماری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اہل ایمان کے لئے رحمت ہے۔ اسی طرح قرآن مجید ، ہوائے نفس ، گندگی ، لالچ ، حسد اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے مقابلے میں بھی شفاء ہے۔ یہ قلبی اور روحانی بیماریاں ہیں جن کے نتیجے میں دلی بیماریاں ضعف اور تکان پیدا ہوتی ہے۔ اور انسانی روح اور دل بوسیدہ ہو کر ٹوٹ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مومنین کے لئے شفاء و رحمت ہے۔ قرآن کریم میں شعور اور فکر کی بےلگامی کا بھی علاج ہے۔ عقل و فکر کے انتشار سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ قرآن انسان کو بےفائدہ کاموں میں اپنی جسم و عقل کی قوتوں کے خرچ کرنے سے روکتا ہے۔ اور مفید اور ترقی کے کاموں میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے لئے آزاد چھوڑتا ہے۔ وہ انسان کے لئے ایک صحت مند اور مضبوط منہاج زندگی تجویز کرتا ہے۔ انسانی سرگرمیاں فائدہ مند اور محفوظ ہوتی ہیں اور لغزشوں اور بےراہ رویوں سے قرآن انسان کو بچاتا ہے۔ جسمانی میدان میں بھی قرآن انسان کو اعتدال کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ حکم دیتا ہے ہے کہ اپنی قوتوں کو اعتدال کے ساتھ صحت مند میدانوں میں خرچ کرو ، نہ جسمانی قوتوں پر غیر ضروری پابندی ہے اور نہ ان کے استعمال میں بےراہ روی کی اجازت دی گئی ہے۔ لہٰذ اجسمانی قوت کی بھی حفاظت کی جاتی ہے ، تاکہ وہ صحت مند میدانوں میں صرف ہو۔ لہٰذا یہ اہل ایمان کے لئے ایک قسم کی رحمت ہے۔ پھر قرآن شریف میں ان اجتماعی بیماریاں کا بھی علاج ہے جن سے کسی سوسائٹی کے اجتماعی نظام میں خلل اور بیماری پیدا ہوتی ہے ، جن سے سوسائٹی کا امن اور سلامتی تباہ ہوجاتی ہے۔ اور افراد معاشرہ کے درمیان کوئی اطمینان نہیں رہتا۔ قرآن ہدایات پر عمل کے بعد اسلامی سوسائٹی اسلام کے اجتماعی عدل اور اجتماعی سلامتی اور امن کے زیر سایہ ، نہایت ہی اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے ، لہٰذا اس مفہوم میں بھی قرآن رحمت اور شفاء ہے۔ ولا یزید الظلمین الا خسارا (71 : 28) ” مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا “۔ کیونکہ ظالم اس نسخہ و شفاء سے استفادہ نہیں کرتے ، جو اس قرآن کے اندر موجود ہے۔ پھر ظالم یوں بھی خسارے میں ہوتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان قرا ان کے ریعہ سربلندی حاصل کرتے چلے جاتے ہیں ، وہ دل ہی دل میں کڑھتے ہیں اور ان کو زبردست غصہ آتا ہے ، مگر بےبس ہوتے ہیں اور جہاں ان کا بس چلتا ہے وہ وہاں ظلم و ستم کا ریکارڈ قائم کردیتے ہیں۔ پھر وہ دنیا میں مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوجاتے ہیں لہٰذا وہ خسارے میں ہیں اور آخرت میں ان کے کفر کی وجہ سے ان کو عذاب ہوگا نیز وہ جن سرکشیوں میں غرق تھے اور ان پر اصرار کرتے تھے ان کی وجہ سے انہیں سخت سزا ہوگی۔ لہٰذا اس سے بڑا اور کیا خسارہ ان کو ہوسکتا ہے۔ اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ ہوگا۔ اور جب انسان اللہ کی رحمت اور شفاء سے محروم کردیا جائے اور جب اسے اس کی خواہشات نفس اور سفلی جذبات اور میلانات کے حوالے کردیا جائے۔ اگر وہ مالی لحاظ سے خوشحالی ہو تو وہ مغرور ، متکبر اور سرکش ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا ، اللہ کو یاد نہیں کرتا ، اور اگر اس پر کوئی مصیبت یا بدحالی آجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور قنوطی ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی تاریک ہی تاریک نظر آتی ہے۔
Top