Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے ، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے
زیادہ دولت مندی انسان کو سرکش اور مغرور بنا دیت ہے۔ الایہ کہ کوئی دولت مند یہ یقین رکھتا ہو کہ اس دولت کا عطا کرنے والا اللہ ہے اور وہ اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہو۔ لیکن اگر بدحالی آجائے تو انسان مایوس ہوجاتا ہے اور اس پر قنوطیت چھا جاتی ہے۔ الایہ کہ کسی کا تعلق باللہ مضبوط ہو ، وہ امید کرتا ہے کہ اللہ اس کی مشکلات دور کردے گا تو ایسا شخص اللہ کے رحم و فضل سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم کا امیداوار اور خوش اور شاکر رہتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی کیا اہمیت ہے۔ غرض مشکلات اور خوشحالی دونوں مین ایمان اللہ کی رحمت اور شفاء ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ہر فریق اپنی طرز زندگی پر جما ہوا ہے ، اب اپنی خواہشات و روایات کے مطابق ہر شخص چلتا ہے اور ہر شخص کے طرز عمل کے بارے میں فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
Top