Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 73
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَهٗ١ۖۗ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : وہ قریب تھا لَيَفْتِنُوْنَكَ : کہ تمہیں بچلا دیں عَنِ : سے الَّذِيْٓ : وہ لوگ جو اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف لِتَفْتَرِيَ : تاکہ تم جھوٹ باندھو عَلَيْنَا : ہم پر غَيْرَهٗ : اس کے سوا وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّاتَّخَذُوْكَ : البتہ وہ تمہیں بنا لیتے خَلِيْلًا : دوست
اے نبی ﷺ ان لوگوں نے اس کوشش میں کوء کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔
درس نمبر 921 ایک نظر میں۔ سورة اسرا کا یہ آخری سبق بھی اس سورت کے بنیادی محور کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات اور ان کی قوم کا ان کے بارے میں موقف۔ قرآن اور اس کی خصوصیات۔ یہ اس سورت کا بھی اور اس سبق کا بھی اہم موضوع ہے۔ اس سبق کا آغاز ان مساعی پر تبصرے سے ہوتا جو مشرکین نبی ﷺ کو آپ ﷺ کے عقائد و اعمال میں بعض سے ہٹانے کے سلسلے میں کر رہے تھے۔ پھر یہ کہ وہ آپ کو مکہ سے نکالنے کے سلسلے میں جو منصوبے بنا رہے تھے اور آپ ﷺ کو کمزور کرکے اور آپ ﷺ کے حامیوں کو کم کرکے وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے ان ارداوں میں ناکام کردیا۔ اور اللہ نے آپ ﷺ کو ان کے فتنوں سے بچا لیا۔ کیونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تحریر تھی کہ اہل مکہ کے لئے ابھی تک مہلت موجود ہے۔ اور ان کے لئے اللہ کے فیصلے ایسی تباہی نہ تھی جسی امم سابقہ کے لئے لکھی گئی تھی۔ اگر وہ رسول اللہ کو نکالتے یا ایسا اللہ نے مقدر کیا ہوتا تو پھر ان پر بھی وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو امم سابقہ پر ہوا کیونکہ اللہ کی سنت نبیوں اور ان کی امتوں کے سلسلے میں ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی راہپر چلتے رہیں ، نماز پڑھیں ، قرآن کی تلاوت فرمائیں۔ اور دعا کریں کہ اللہ آپ کو جہاں بھی لے جائے سچائی کے ساتھ لے جائے اور جہاں سے بھی نکالے سچائی کے ساتھ نکالے اور آپ کے لئے ایک ایسی حکومتی قوت فراہم کرے جو حضور ﷺ کے مقصد کے حصول کے لئے آپ ﷺ کی نصرت کرے۔ اور وہ حکومت یہ اعلان کردے کہ حق آگیا اور باطل چلا گیا اور زائل ہوگیا اور مغلوب ہوگیا۔ پس یہ ہے اللہ کے ساتھ رابطہ اور یہ ہے وہ زبردست ہتھیار جو آپ ﷺ کو فتنوں سے بچا سکتا ہے اور جو آپ ﷺ کے لئے ایسی قوت بن سکتا ہے جو آپ ﷺ کی نصرت کرے۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ قرآن ایک شفا ہے اور ان لوگوں کے لئے رحمت کا باعث ہے جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو اس کی تکذیب کرتے ہیں وہ ان کے لئے باعث عذاب اور مصیبت ہے۔ دنیا میں بی وہ اس کی وجہ سے مصیبت میں رہیں گے اور اس سے روگردانی کی وجہ سے آکرت میں بھی واصل جہنم ہوں گے۔ اسی مضمون کی مناسبت سے یہ بتایا جاتا ہے کہ رحمت کی حالت میں اور عذاب کی حالت میں انسان کے شب و روز کیسے ہوتے ہے۔ جب اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے تو وہ متکبر اور حق سے منہ موڑنے والا بن جاتا ہے اور جب وہ گرفتار مصیبت ہوتا ہے تو نہایت ہی مایوس اور شکستہ دل ہوتا ہے اور اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے طریق کار کے مطابق زندگی اختیار کرتا ہے لیکن اس معلوم ہونا چاہیے کہ آخرت میں جزاء سزا بھی اس کے رویہ کے مطابق ہوگی لہٰذا اسے اپنے رویے کا تعین سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ اپنے علمی کمال اور خصوصیات کے باوجود انسان کا علم بہت ہی قلیل ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ روح کے بارے میں سوالات کرتے تھے ، حالانکہ روح اللہ کے غیوب میں سے ایک غیب ہے ، انسانی قوائے مدرکہ میں ابھی اس کے ادراک کی قوت نہیں ہے۔ یقینی علم وہی ہے جو اللہ نے رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے۔ یہ اللہ کا رسول اللہ پر بہت ہی بڑا فضل ہے اور اگر اللہ اپنے اس فضل کو واپس لے لے تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ اللہ کا رحم و کرم ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو یہ اعزاز بخشا ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن ایک کتاب معجز ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے کوئی بھی ایسی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اگرچہ وہ سب جمع ہوجائیں ، اور ایک دوسرے کی امداد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں دلائل ہدایت کو مختلف اسالیب سے پھیر پھیر کر بیان کیا ہے تاکہ ہر معیار علم و دانش کے لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ لیکن تعجب ہے کہ کفار قریش نے اسے کافی نہ سمجھا اور وہ رسول اللہ ﷺ سے مادی معجزات طلب کرنے لگے مثلاً زمین سے چشمے نکالنا ، یا یہ کہ آپ ﷺ کے لئے کوئی بہت ہی قیمتی مکان ہو ، پھر ان کی ہٹ دھرمی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسے مطالبات کرنا شروع کردئیے و انسانی خصائص کے خلاف تھے ، مثلاً یہ کہ آپ ﷺ آسمان میں چڑھ جائیں۔ اور یہ واقعہ ان لوگوں کے سامنے ہو ، اس کے بعد آپ ایک لکھی ہوئی تحریر لے کر آئیں جسے وہ پڑھ سکیں یا یہ کہ آسمان کا یہ ایک ٹکڑا ان پر گرا دیں بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے کفر و ہٹ دھرمی کی حدیں پار کرتے ہوئے یہ مطالبہ شروع کردیتا ہے کہ آپ ﷺ فرشتوں اور خدا تعالیٰ کو سیدھے ان کے سامنے لے کر آجائیں۔ ہٹ دھرمی پر مبنی ان کے مطالبات کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بنا دئیے گئے ہوتے تو بھی یہ انسانی تھرڈ لے پن اور کنجوسی کا شکار ہوجاتے اور ان کو یہ خوف لاحق ہوجاتا کہ کہیں خزائن رحمت ربی ختم ہی نہ ہوجائیں لیکن یہ لوگ جو مطالبات کرتے ہیں اس میدان میں یہ بہت ہی سخی ہیں ، کسی حد تک رکھتے ہی نہیں اور ایک سے ایک بڑا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے ان بےجا مطالبات کی بحث ہی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے کیسے کیسے خارق عادت معجزات دئیے تھے لیکن اس کے باوجود بھی فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ تو اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کردیا۔ جس طرح اللہ کی سنت ہے کہ وہ مکذبین کو ہلاک فرماتا ہے۔ رہا قرآن مجید تو وہ تو باقی رہنے والا اور برحق معجزہ ہے۔ اس کا نزول متفرق طور پر ہوا ہے۔ امت کی ضرورت اور حاجت کے مطابق یہ وقتاً فوقتاً ہوا ہے۔ امم سابقہ کے اہل علم بھی جانتے ہیں کہ یہ کتاب ، کتاب حق ہے۔ وہ اس پر یقین کرتے ہیں اور بہت ہی ڈراتے ہیں اور ایمان لا کر تسلیم خم کرتے ہیں۔ سورت کا خاتمہ اس مضمون اور ہدایت پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ اللہ کی بندگی کریں۔ صرف اللہ کی بندگی اور اللہ کی حمدو ثنا کریں۔ جس طرح سورت کا آغاز بھی اسی مضمون سے ہوا تھا یعنی اللہ کی پاکی اور تسبیح کے ساتھ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان کوششوں کا ذکر فرماتے ہیں جو مشرکین مکہ نبی ﷺ کو اپنے موقف سے ہٹانے کے سلسلے میں کرتے تھے۔ ان کی پہلی کوشش یہ تھی کہ حضور ﷺ قرآن میں کچھ تبدیلیاں کردیں اور ان کے خیال میں جو بعض بہت سخت باتیں تھیں ، ان کو بدل کر دوسری باتیں لے آئیں ، اگر آپ ایسا کرتے تو یہ اللہ پر افتراء ہوتی ، لیکن ایسا کیسے ممکن تھا کیونکہ آپ صادق و امین تھے۔ یہ کوشش انہوں نے مختلف تجاویز دے کر کی مثلاً ایک تجویز انہوں نے یہ دی کہ وہ حضور اکرم ﷺ کے اللہ کی بندگی کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ حضور ﷺ ان کے الہوں پر تنقید چھوڑ دیں۔ نیز ان کے آباء و اجداد جو کچھ کرتے رہے ، ان کو بھی برا بھلا نہ کہیں ، بعض لوگوں نے یہ کہا کہ وہ اس بات کے لئے تب تیار ہوں گے کہ جب وہ ان کے علاقے کو بھی اسی طرح حرام قرار دے دیں جس طرح بیت اللہ حرام ہے۔ بعض اکابرین مکہ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم ایمان لانے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ ﷺ ہمارے لئے ایک خاص مجلس مقرر کردیں اور فقراء کے لئے ایک الگ مجلس وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں ان کوششوں کی طرف ایک اجمالی اشارہ کیا گیا ہے ۔ تفصیلات نہیں دی گئیں۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ اے محمد ﷺ تم پر یہ اللہ کا فضل و کرم تھا کہ تمہیں راہ حق پر ثابت قدم رکھا اور تمہیں مشرکین کے فتنوں سے بچایا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اس ثابت قدمی کو واپس لے لیتا اور جو عظمت آپ کو دی ہوئی تھی ، وہ کھینچ لیتا تو آپ ﷺ ان مطالبات کو مان کر ان کی طرف جھک جاتے اور اس طرح یہ کفار آپ ﷺ کو دوست بنا لیتے اور پھر آپ کے اس جھکنے کی سز آپ کو ملتی۔ اور پھر یہ عذاب دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں اس زندگی اور قیامت دونوں میں دو چند ہوتا اور پھر یہ لوگ آپ کی کوئی نصرت اور مدد بھی نہ کرسکتے۔ یہ کوششیں اور سازشیں ، جن سے اللہ نے حضرت نبی ﷺ کو بچایا ، ہر دور کے کبرائ، داعیان ھق کو پھسلانے کی خاطر کرتے رہے۔ مثلاً وہ داعیان حق کو اپنے موقف سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ دعوت اسلامی کی سختی میں قدرے نرمی کردی جائے اور اس سیدھے راستے میں ٹیڑھ پن پیدا کردیا جائے۔ کبرائے وقت ہمیہش درمیانی درجے کی راہ تلاش کرتے رہے ہیں اور اہل حق کو معاونت کی نیز بڑے برے مفادت کی پیش کش کرتے رہے ہیں اور راہ حق سے بھٹکانے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ بعض داعیان حق معاملے کو معمولی سمجھتے ہوئے اپنی دعوت میں تبدیلی کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ کبراء اور اہلیان حکومت ایسے داعیان حق سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اپنی دعوت کو بالکل چھوڑ دیں۔ البتہ وہ اس قدر غیر محسوس اور معمولی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے نتیجے میں دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ کرسکیں۔ شیطان بعض داعیان حق کو اس نکتے پر پھسلا دیتا ہے اور داعیان حق یہ سمجھتے ہیں کہ دعوت اسلام کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ کوئی برسر اقتدار بڑا آدمی دعوت اسلامی کا حامی بن جائے۔ اگرچہ اس سلسلے میں انہیں اپنے موقف میں بعض تبدیلیاں لائی کیوں نہ پڑیں۔ لیکن نکتہ آغاز سے جب راہ حق سے ایک معمولی سے انحراف کا آغاز کیا جائے تو راستے کی انتہا میں جا کر وہ انحراف بہت ہی معمولی جزاء کیوں ہو یا کسی نہایت ہی جزئی مسئلہ سے غفلت برتی جائے اور چشم پوشی کی جائے تو پھر داعی کے بس میں یہ بات نہیں رہتی کہ وہ کسی حد پر جا کر رکے کیونکہ جب ایک آدمی ڈالنے کے لئے تیار ہوجائے تو پھر وہ ہتھیار ڈالتا ہی چلا جاتا ہے۔ اور وہ ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پوری دعوت کو قبول کیا ہے۔ اور مکمل اسلامی نظام کے قیام کی دعوت ہماری دعوت ہے۔ اس لئے جو شخص بھی اسلامی نظام کے کسی جزء کو نظر انداز کرتا ہے اگرچہ وہ بہت ہی چھوٹا اور جزئی مسئلہ کیوں نہ ہو ، اور جو شخص دعوت اسلامی کے کسی بھی چھوٹے مسئلہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرتا ہے وہ دعوت اسلامی پر درحقیقت مومن نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایک مومن کی نظریں دعوت اسلامی کا ہر جزء اہم ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے اجزاء میں سے کوئی جزء فاضل و مفضول نہیں ہے۔ اس میں ضروری اور غیر ضروری کچھ بھی نہیں۔ اس میں کوئی ایک جزء بھی ایسا نہیں ہے جس سے انسان بری الذمہ قرار دیا جاسکے۔ اسلامی نظام ایک کل ہے ، اگر اس میں سے ایک جزء بھی غائب کردیا جائے تو تمام اجزاء بےمقصد ہوجاتے ہیں۔ جس طرح کوئی وہ ترکیب ، کسی نسخے اور فارمولے سے ایک جزء غائب ہوجانے تو تمام دوسرے اجزاء کے خواص کام نہیں کرتے۔ اہل اقتدار کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے اجزاء کو ایک ایک کرکے ، داعیان نظام اسلامی سے ترک کراتے ہیں۔ جب اہل حق کسی ایک جزء پر مسالت اور صلح کرتے ہیں تو ان کی پوزیشن ختم ہوجاتی ہے۔ اور اہل اقتدار اور ڈکٹیٹر پھر ایک ایک بات پر سودا بازی کی کوشش کرتے ہیں اور آخر کار وہ اپنی تمام شرائط منوا لیتے ہیں اور دعوت اسلامی کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہ کہ بر سر اقتدار (اور بااثر) لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپنی دعوت کے کسی معمولی جزء سے چشم پوشی کرنا ، درحقیقت شکست خوردگی ہے۔ روحانی اور اخلاقی شکست کو تسلیم کرنا ہے۔ اور یہ برسر اقتدار اور بااثر لوگوں پر اعتماد کرنا ہے کہ وہ دعوت اسلامی کی حمایت کریں گے۔ حالانکہ ایک سچا مومن اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں صرف اللہ پر اعتماد کرتا ہے ، صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ لیکن جب داعیوں کے قلب و نظر میں شکست نے راہ پا لی تو پھر ہی شکست شکست ہی ہوگی اور کسی صورت میں بھی اسے فتح سے نہ بدلا جاسکے گا۔ اللہ کا یہ رسول اللہ پر بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ نے حضور ﷺ کو اسلامی نظام حیات اور ان تمام امور پر ثابت قدم کردیا تھا جو آپ ﷺ کی طرف وحی ہوتے تھے۔ اور مشرکین نیز مشرکانہ معاشرے کے تمام فتنوں سے اللہ نے آپ ﷺ کو بچا لیا تھا۔ اور آپ ﷺ کو اس قدر ثابت قدمی عطا کردی تھی کہ آپ ﷺ کسی دینی معاملے میں ان کی طرف نہ جھکتے تھے۔ اگرچہ وہ معمولی سا کیوں نہ ہوتا اور دین کے معاملے میں مداخلت کے عذاب سے حضور اکرم ﷺ کو اللہ نے بچا لیا ، جو دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس سے دو چند ہوتا ہے اور دنیا میں یوں کہ ایسے داعیوں کو اللہ کی معاونت اور نصرت حاصل نہیں رہتی۔ جب مشرکین اس کوشش میں ناکام ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ ، بعض قرآنی ہدایات کو چھوڑ دیں یا بدل دیں اور ان کی یہ سازش کامیاب نہ ہوئی تو انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے نکال دیں لیکن وہ آپ ﷺ کو نکالنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اللہ نے بذریعہ وحی حضور ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ خود مہاجر والی اللہ بن کر مدینہ چلے جائیں کیونکہ اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ اہل قریش کو ہلاک نہ کیا جائے۔ اور اگر وہ زبردستی رسول اللہ ﷺ کو نکال دیتے یا آپ کو نکلنے پر مجبور کردیتے تو ان پر تباہی ایک عذاب کی صورت میں نازل ہوجاتی ۔ اور وہ نیست و نابود ہوجاتے ،
Top