Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 43
اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَیْهِ وَكِیْلًاۙ
اَرَءَيْتَ : کیا تم نے دیکھا ؟ مَنِ اتَّخَذَ : جس نے بنایا اِلٰهَهٗ : اپنا معبود هَوٰىهُ : اپنی خواہش اَفَاَنْتَ : تو کیا تم تَكُوْنُ : ہوجائے گا عَلَيْهِ : اس پر وَكِيْلًا : نگہبان
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو بنالیا، سو کیا آپ اس کے وکیل ہیں
1۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے آیت ’ ’ ارءیت من اتخذ الہہ ہواہ “ کے بارے میں فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی ایک زمانے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا تھا جب اس سے خوبصورت پتھر کو پاتا تھا تو اس کو پھینک دیتا تھا اور دوسرے کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ،۔ 2۔ ابن مردویہ نے ابو رجاء عطاردی (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں خون کو بالوں کے ساتھ ملا کر کھاتے تھے اور پتھروں کی عبادت کرتے تھے جب بعد میں اس سے خوبصورت پتھر کو پاتے تو پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے کی عبادت کرتے تھے جب دوسرا گم ہوجاتا تو کسی منادی کرنے والے کو حکم کرتے تو وہ منادی دیتا اے لوگو ! تمہارا خدا گم ہوگیا ہے اس کو تلاش کرو تو اللہ تاعلیٰ نے یہ آیت ” ارء یت من اتخذ الہہ ہواہ “ اتاری یعنی کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو خدا بنا رکھا ہے۔ 3۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ’ ’ ارء یت من اتخذ الہہ ہواہ “ سے مراد وہ کافر ہے جس نے اپنا دین اللہ کی طرف سے بغیر ہدایت اور دلیل کے لیا ہے۔ 4۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذور وابن ابی حاتم نے حسن بصری سے روایت کیا کہ آیت ” ارء یت من اتخذ الہہ ہوہ “ سے مراد ہے وہ جس چیز سے محبت کرتے تھے اس کی پیروی شروع کردیتے۔ محض خواہش کی اتباع کرنے والا۔ 5۔ عبدبن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ارء یت من اتخذ الہہ ہوہ “ سے مراد ہے کہ جب بھی وہ کسی چیز سے محبت کرتا تو اس پر سوار ہوجاتا اور جب بھی کسی چیز کی خواہش کرتا تو اس کے پاس آتا اور اس بات سے اسے تقویٰ اور خدا کا خوف نہ رد کرتا تھا۔ 6۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا قبلہ والوں میں شرک ہے فرمایا ہاں منافق مشرک ہے کیونکہ مشرک اللہ کو چھوڑدیتا ہے سورج اور چاند کو سجدہ کرتا ہے۔ جبکہ منافق اپنی خواہشات کی عبادت کرتا ہے پھر یہ آیت ” ار ئیت من اتخذ الہہ ہواہ، افانت تکون علیہ وکیلا “ تلاوت فرمائی۔ 7۔ الطبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آسمان کے نیچے اللہ کے نزدیک خواہشات نفس سے برا کوئی معبود نہیں ہے جس کی اتباع کی جائے۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت ” ام تحسب ان اکثرہم یسمعون “ یے بارے میں روایت کیا کہ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا جیسے مثال اونٹ کی گدھے کی اور بکری کی جب آپ ان سے کہتے ہیں کھاؤ ! تو وہ نہیں سمجھتے سوائے اس کے کہ وہ جانور تیری آواز کو سنتا ہے اسی طرح کافر ہے اگر تو اسے خیر کا حکم کرے یا اس کو برائی سے روکے یا اس کو نصیحت کرے تو وہ نہیں سمجھتا جو تو کہتا ہے سوائے اس کے کہ وہ تیری آواز کو سنتا ہے۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” بل ہم اضل سبیلا “ سے مراد ہے کہ وہ غلط راستے والے ہیں۔
Top