Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 12
اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیْرًا
اِذَا : جب رَاَتْهُمْ : وہ دیکھے گی انہیں مِّنْ : سے مَّكَانٍ : جگہ بَعِيْدٍ : دور سَمِعُوْا : وہ سنیں گے لَهَا : اسے تَغَيُّظًا : جوش مارتا وَّزَفِيْرًا : اور چنگھاڑتا
جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ اس کی غضبناک اور جوش و خروش والی آوازیں سنیں گے
1۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت اذا رأتہم من مکان بعید سے مراد ہے کہ جہنم سو سال کی مسافت سے ان کو دیکھے گی۔ 2۔ الطبرانی وابن مردویہ من طریق مکحول ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو اس کو چاہیے کہ جہنم کی آنکھوں کے درمیان اپنی جگہ بنا لے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا جہنم کی آنکھیں ہوں گی فرمایا ہاں، کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اذا رأتہم من مکان بعید وہ ان کو نہیں دیکھے گی مگر اپنی آنکھوں سے۔ 3۔ عبدبن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم من طریق خالد بن دریک صحابہ کرام ؓ میں سے ایک صحابی سے روایت کہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے کہی یا اس نے اپنی نسبت اپنے والدین کے علاوہ کسی اور کی طرف کی کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور اپنے مولی کے علاوہ دوسرے کو اپنا مولی بنایا تو اس کو چاہیے کہ اپنی جگہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بنا لے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کیا اس کی آنکھیں ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا۔ آیت اذا رأتہم من مکان بعید۔ 4۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے بسند صحیح ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدمی گھسیٹا جائے گا آگ کی طرف تو وہ اس کے لیے خچر جیسی آواز نکالے گی۔ پھر وہ ایک سانس اندر لے جائے گی تو کوئی نہیں بچے گا مگر وہ ڈر جائے گا اور بلاشبہ دوزخ میں سے ایک آدمی کی لمبائی اتنی ہوگی کہ کانوں کی لو اور اس کے کندھوں کے درمیان ستر سال کا فاصلہ ہوگا اور جہنم میں پیپ کی وادیاں ہوں گی جس کو ایک پیمانہ میں ڈال دیا جائے گا پھر اسے اس کے منہ میں انڈیل دیا جائے گا۔ 5۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذروابن ابی حاتم نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت سمعوا لہا تغیظا وزفیرا سے مراد ہے کہ جہنم ایک سانس لے گی کہ کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل باقی نہیں رہے گا کہ اس کے کندھے اور چھاتی کے درمیان کا حصہ کانپنے لگے گا یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے اور کہیں اے میرے رب میں آج کے دن کسی کے حق میں سوال نہیں کرتا مگر اپنی ذات کے لیے۔ 6۔ ابن وہب نے الاھوال میں عطاف بن خالد (رح) سے روایت کیا کہ جہنم کو اس دن لایا جائے گا اس حال میں کہ اس کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہوگا اس کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے جب جہنم لوگوں کو دیکھے گی اسی کو فرمایا آیت اذا رأتہم من مکان بعید سمعوا لہا تغیظا وزفیرا۔ جو ایک سانس لے گی تو نہیں باقی بچے گا کوئی نبی اور نہ کوئی صدیق مگر وہ اپنے گھٹنے کے بل بیٹھ جائے گا اور کہے گا اے میرے رب مجھے بچا لے اے میرے رب مجھے بچالے اور رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے میری امت میری امت (کو بچائیے) 7۔ ابو الشیخ فی العظمۃ مغیث بن سمی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے وہ صبح وشام جہنم کی آواز کو سنتی ہے مگر انسان اور جنات نہیں سنتے جن پر حساب اور سزا ہوگی۔ 8۔ آدم بن ابی ایاس نے اپنی تفسیر میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا آیت اذا رأتہم من مکان بعید سے مراد ایک سو سال کی مسافت ہے اور وہ یوں ہوگا کہ جہنم کو ستر ہزار لگاموں کے ساتھ لایا جائے گا اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے پکرے ہوں گے اگر اس کو چھوڑدیا جائے تو وہ ہر نیک اور بدکار پر غالب آجائے۔ آیت سمعوا لہا تغیظا وزفیرا یعنی وہ ایک سانس لے گی تو آنسوؤں میں سے کوئی قطرہ بھی نہ ہوگا مگر وہ جلدی سے باہر نکل پڑے گا پھر دوسری مرتبہ سانس لے گی تو دل اپنی جگہ چھوڑدیں گے اور دل اوپر والی ہنسلی تک جا پہنچیں گے۔ 9۔ ابو نعیم فی الحلیۃ کعب ؓ سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ پہلوں اور پچھلوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع فرمائیں گے اور فرشتے صف باندھ کر نازل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ جبرئیل سے فرمائیں گے جہنم کو لے آؤ تو اس کو ستر ہزار لگاموں کے ساتھ کھینچا جا رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ جب تک کہ مخلوق سے سو سال کی مسافت ہوگی تو وہ ایک مرتبہ سانس لیے تو مخلوق کے دل اڑ جائیں گے پھر وہ دوسری مرتبہ سانس لے گی تو کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل باقی نہیں رہے گا مگر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے گا پھر تیسری مرتبہ سانس لے گی تو دل ہنسلی کی ہڈی تک پہنچ جائیں گے۔ خوف کی وجہ سے اور عقل زائل ہوجائے گی۔ اور ہر آدمی جلدی کرے گا اپنے عمل کی طرف۔ یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے میرے خلیل ہونے کا واسطہ میں آپ سے صرف اپنی نجات کا سوال کرتا ہوں اور موسیٰ کہیں گے میری ہم کلامی کے شرف کے وسیلے سے صرف اپنی بخشش کا سوال کرتا ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے جس طرح سے تو نے مجھے جنا اور محمد ﷺ فرمائیں گے میری امت میری امت (کو بچائیے) میں آج کے دن اپنی ذات کے بارے میں سوال نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیں گے میرے دوست تیری امت میں سے آج ان پر کوئی خوف اور کوئی غم نہیں ہوگا۔ مجھے اپنی عزت کی قسم میں ضرور ٹھنڈا کروں گا۔ تیری آنکھ کو تیری امت کے بارے میں پھر فرشتے اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے انتظار کریں گے جو ان کو حکم دیا جائے گا۔
Top